• KHI: Partly Cloudy 20.6°C
  • LHR: Partly Cloudy 14°C
  • ISB: Cloudy 12.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 20.6°C
  • LHR: Partly Cloudy 14°C
  • ISB: Cloudy 12.9°C

پولیس کا ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر اختیارات کا ناجائز استعمال ہے، سپریم کورٹ

شائع July 13, 2025
— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر یا انکار، خاص طور پر کمزور اور محروم طبقات کے معاملات میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف ہے جو انصاف کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار یا تاخیر کو، جب وہ معاشرے کے کمزور اور محروم طبقے کے حقوق پر اثر انداز ہو، اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف قرار دیا ہے، جو بااثر طبقے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

یہ 30 صفحات پر مشتمل فیصلہ جمعے کے روز سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جاری کیا، جس کی سربراہی جسٹس اطہر من اللہ نے کی، جب کہ بینچ میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان بھی شامل تھے۔

یہ فیصلہ سیتا رام کی جیل اپیل پر دیا گیا، جسے 18 اگست 2018 کو عمرکوٹ میں قتل کے الزام میں ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی اور سندھ ہائی کورٹ نے 15 مارچ 2023 کو اس سزا کو برقرار رکھا تھا۔

سپریم کورٹ نے سیتا رام کی جیل پٹیشن کو اپیل میں تبدیل کیا اور ایک مختصر حکم کے ذریعے اسے بری کر دیا، جس کی بنیاد طریقہ کار کی بے قاعدگیوں اور ناقابلِ حتمی شواہد پر رکھی گئی۔

تفصیلی فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پولیس اسٹیشن کے انچارج کی جانب سے فوجداری قانون کی دفعہ 154 کے تحت لازمی قانونی ذمہ داری کو جان بوجھ کر یا غفلت سے پورا نہ کرنا ایک سنگین کوتاہی اور قانونی اختیار کی صریحاً نفی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ رویہ عوام کے نظامِ انصاف پر اعتماد کو ختم کرتا ہے، اور لوگ پولیس کو عوام کے بجائے بااثر طبقے کے مفادات کا محافظ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے۔

پولیس اسٹیٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس طرح کے رویے پولیس اسٹیٹ کی نشانی ہیں، نہ کہ ایک ایسی ریاست کی، جو آئین کے تحت چلائی جاتی ہو۔

عدالتی فیصلے کے مطابق، یہ کیس صرف برف کی چوٹی جیسا ہے اور مجموعی نظامِ انصاف کی صورتحال پر منفی روشنی ڈالتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اسٹیشن کے انچارج کو ایف آئی آر کے اندراج سے انکار یا اس میں تاخیر کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور اگر تاخیر کی کوئی معقول وجہ نہ ہو تو یہ متاثرہ فریقین مدعی اور ملزم دونوں کے حقوق پر شدید منفی اثر ڈالتی ہے اور شواہد میں چھیڑ چھاڑ اور معصوم افراد کو جھوٹے مقدمات میں پھسانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

فیصلے میں سندھ پولیس چیف اور قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل کے جواب کا حوالہ بھی دیا گیا، جن سے پوچھا گیا تھا کہ فوجداری قانون اور دیگر متعلقہ قوانین کی واضح خلاف ورزی کیوں ہوئی۔

ان کے دیے گئے جواز جیسے کہ ثقافتی روایات، مدعی کی مرضی، مصالحت کی کوشش، مذہبی عقائد یا طبی ترجیحات کو عدالت نے غیر متعلقہ اور ناقابلِ قبول قرار دیا۔

عدالت نے کہا کہ ایسے جواز قبائلی یا فرسودہ نظام میں دیے جا سکتے ہیں، لیکن ایک آئینی ریاست میں، جہاں ہر شہری کو حقوق و آزادی حاصل ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ ایسے جواز تسلیم کرنا دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ پولیس اور نظامِ انصاف طاقتور طبقے کے زیرِ اثر ہیں، بجائے اس کے کہ وہ قانون کے تابع ہوں۔

جابرانہ کنٹرول

فیصلے کے مطابق، نظامِ انصاف کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ کسی جرم کی اطلاع ملنے پر چاہے وہ رپورٹ کی گئی ہو یا نہیں پولیس کا فرض ہے کہ وہ اسے ریکارڈ کرے اور تفتیش کرے۔

جب پولیس اپنے فرائض انجام نہیں دیتی تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پولیس طاقتوروں کی جانب سے سماجی و سیاسی دباؤ اور کنٹرول کا ذریعہ بن چکی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام صوبوں کے آئی جیز سے کہا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں جن سے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار یا تاخیر نہ ہو، اگر اطلاع کسی قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم سے متعلق ہو۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ متعلقہ حکومتوں کے پراسیکیوٹر جنرلز کو پولیس کو مشورہ دینا چاہیے اور ایسے ایس او پیز تیار کرنے چاہئیں جو فوجداری قانون کے مطابق ہوں۔

ریاستی ذمہ داری

عدالت نے کہا کہ یہ حکومتوں کی واضح ذمہ داری ہے کہ وہ پولیس افسران کے طرزِ عمل کے ذریعے یہ ثابت کریں کہ قانونی فرائض اور ذمہ داریاں سختی سے نبھائی اور تسلیم کی جا رہی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہر حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پولیس کو عوام کی خدمت کے لیے رکھے، نہ کہ انہیں دباؤ یا کنٹرول میں رکھنے کا ذریعہ بنائے۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025