گلگت بلتستان: موسمیاتی تبدیلیوں سے مہم جو کوہ پیماؤں کیلئے جان لیوا خطرات میں اضافہ
گلگت بلتستان کے قراقرم پہاڑی سلسلے کی بلند و بالا چوٹیاں اس سال کوہ پیماؤں کے لیے غیر معمولی حد تک خطرناک بن گئیں، جس کی بڑی وجہ بدلتے ہوئے موسمی حالات ہیں، ان حالات نے برفانی تودوں، چٹانوں کے گرنے اور دیگر جان لیوا خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برف کی مقدار کم ہونے سے پہاڑ نسبتاً خشک ہو چکے ہیں، جس کے باعث وہ برفانی تودوں کا شکار ہو رہے ہیں اور کبھی کبھار ایک ہی دن میں کئی بار ایسا ہوتا ہے۔
40 سالہ تجربہ رکھنے والے کوہ پیمائی کے گائیڈ باقر علی کے مطابق انہوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں پہاڑوں پر اس قسم کی صورتحال کبھی نہیں دیکھی۔
شگر کے اسقول گاؤں سے تعلق رکھنے والے باقر علی جرمن اولمپئن لورا ڈالمایر کی ٹیم کا حصہ تھے، لورا حال ہی میں لیلیٰ پیک (6 ہزار 96 میٹر بلند) پر ایک چٹان کے گرنے سے جاں بحق ہو گئی تھیں۔
انہوں نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ حادثے سے چند دن پہلے فرانسیسی ٹیم نے خراب موسم کے باعث لیلیٰ پیک سر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔
انہوں نے لورا کو بھی ایسا ہی مشورہ دیا، مگر وہ اپنا سفر جاری رکھتی رہیں اور 5 ہزار 700 میٹر کی بلندی پر وہ چٹان گرنے سے حادثے کا شکار ہوئیں، جو ان کے لیے مہلک ثابت ہوا۔
ان خطرناک حالات نے ہنگری کے لازلو چومور کو بھی براڈ پیک (8 ہزار 50 میٹر) کی مہم ادھوری چھوڑنے پر مجبور کر دیا، اور وہ ایک ماہ سے زائد وقت گزارنے کے بعد اس ہفتے اسکردو واپس آگئے۔
ان کی 7 رکنی ٹیم 27 جون سے بیس کیمپ میں موجود تھی، مگر خراب موسم کے باعث وہ چوٹی سر نہیں کر سکے، جیسے کہ دیگر 200 سے زائد کوہ پیما جو اس سال پاکستان آئے تھے، لیکن موسم کے باعث اپنے ارادوں پر عمل نہ کر سکے۔
لازلو چومور نے کہا کہ اس سال تمام پہاڑوں پر برف کم تھی، چٹانیں غیر معمولی انداز میں گر رہی تھیں، ہم بیس کیمپ میں بیٹھے ہوئے دن میں 10 بار چٹانوں اور برفانی تودوں کے گرنے کی آواز سنتے تھے۔
انہوں نے 2 بار کیمپ 3 تک چڑھائی کی، مگر خراب موسم کی وجہ سے چوٹی سر کرنے کی کوشش نہیں کر سکے، انہوں نے ان خطرات کی بڑی وجہ برف کی کمی کو قرار دیا اور کہا کہ جب برف زیادہ ہو تو خطرات کم ہو جاتے ہیں۔
ان کے مطابق بیس کیمپ میں 90 سے زائد کوہ پیما ’کے ٹو‘ کو سر کرنے کے منتظر تھے، جب کہ 30 کوہ پیما براڈ پیک کی مہم شروع کرنے کے لیے ایک ماہ سے انتظار کر رہے تھے، دونوں پہاڑوں کا بیس کیمپ مشترک ہے، تاہم موسم گرما کی یہ مہم اختتام کو پہنچ چکی ہے اور اکثر کوہ پیما مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ گئے۔
لازلو نے بتایا کہ وہ 2 حادثات کے بھی چشم دید گواہ ہیں، 11 جولائی کو پولینڈ کے کوہ پیما والڈیمار کووالوسکی براڈ پیک پر 6 ہزار 500 میٹر کی بلندی پر برفانی تودے کی زد میں آ کر زخمی ہوئے، جب کہ 19 جولائی کو ’کے ٹو‘ کے کیمپ 1 پر، جو بیس کیمپ سے 500 میٹر بلند ہے، پورٹر افتخار سدپارہ جاں بحق ہو گئے۔
اس موسم میں کم از کم 3 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوئے۔
نئے چیلنجز
لازلو چومور نے کہا کہ قراقرم رینج کی یہ صورت حال بالکل نئی تھی اور چڑھائی اس لیے بھی مشکل ہو گئی تھی کہ برف انتہائی ڈھلوان اور غیر مستحکم ہو چکی ہے، کم برف باری نے ڈھلوانوں اور جھولتی ہوئی چٹانوں کو گرنے کے لیے زیادہ خطرناک بنا دیا اور گلیشیئرز میں شگاف بہت بڑے ہو گئے ہیں۔
تیز ہواؤں نے بھی چڑھائی میں مشکلات پیدا کی ہیں، انہوں نے ان تمام موسمی تبدیلیوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دیا۔
معروف نیپالی کوہ پیما اور ’امیجن نیپال‘ کے مالک منگما جی نے بھی گاشر برم-II کی مہم برفانی خطرات کے باعث ترک کر دی۔
عام طور پر ان پہاڑوں کی کوہ پیمائی کا سیزن جون کے آخر سے اگست کے وسط تک ہوتا ہے، مگر اس سال غیر معمولی خطرات نے درجنوں کوہ پیماؤں کو مہمات ادھوری چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
ٹوور آپریٹر اقبال قادری نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ اس سال پہاڑوں پر موسم معمول کے مطابق نہیں رہا، کے ٹو، براڈ پیک، گاشر برم-II اور دیگر کئی 7 ہزار میٹر بلند پہاڑ موسم گرما میں سر نہیں ہو سکے، صرف گاشر برم-I اور نانگا پربت پر کچھ کوہ پیماؤں کو کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ چند کوہ پیما اب بھی کے ٹو بیس کیمپ میں موجود ہیں، مگر سیزن ختم ہو چکا ہے اور اس موسم گرما میں کوئی بھی کیمپ 3 سے آگے نہیں جا سکا۔
اس سال تقریباً 22 کوہ پیماؤں (جن میں 5 پاکستانی بھی شامل ہیں) نے 20 اور 22 جولائی کو گاشر برم-I (8 ہزار 80 میٹر) سر کیا، جب کہ کم از کم 24 کوہ پیماؤں (جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے) نے نانگا پربت (8 ہزار 126 میٹر) کو سر کیا۔
تشویش ناک صورتحال
روسی کوہ پیما ڈینس اوروبکو اور ان کی اہلیہ ماریا کارڈیل نے جولائی میں نانگا پربت کو نئے راستے سے ’الپائن اسٹائل‘ میں سر کیا، وہ اس وقت اسکردو میں موجود ہیں اور نئے راستے سے کے ٹو سر کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں، مگر وہ بھی موجودہ حالات کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلیشیئرز اور برف تیزی سے پگھل رہی ہے، شگاف بڑے ہو رہے ہیں اور چٹانوں کے گرنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں، نانگا پربت کی روایتی چڑھائی کا راستہ بھی اب خطرناک ہو چکا ہے اور برف کے تیز پگھلاؤ نے ان خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔
ایک سرکاری ماہر نے ان حالات کو عالمی حدت سے پیدا ہونے والی برف باری کے نظام میں تبدیلی کا نتیجہ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اس خطے میں برف باری دیر سے ہوئی، برف جم کر برفانی تودوں میں تبدیل نہیں ہو سکی اور غیر مستحکم رہی۔
اس کے علاوہ جون اور جولائی میں آنے والی شدید گرمی کی لہر نے بھی صورت حال کو مزید خراب کیا، جس سے برفانی تودوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
کوہ پیماؤں کا روزگار خطرے میں
چوں کہ پہاڑ کوہ پیماؤں کے لیے خطرناک ہو چکے ہیں، اس لیے ان سے جڑے ہزاروں افراد کا روزگار بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
گلگت بلتستان کے سیاحت کے محکمے کو موصول ہونے والی 400 درخواستوں میں سے صرف 200 سے زائد کوہ پیما ہی پاکستان آئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد کم ہیں۔
ہزاروں لوگ، جن میں ٹرانسپورٹر، دکاندار، ہوٹل مالکان، پورٹرز، کوہ پیمائی کے گائیڈز اور ٹوور آپریٹرز شامل ہیں، اس صنعت پر انحصار کرتے ہیں۔
شگر کے بلند مقام کے پورٹر فدا حسین کا کہنا تھا کہ اگر مہم جو سیاحت میں کمی آتی ہے، تو ان کا روزگار بھی چھن جائے گا۔












لائیو ٹی وی