شائع August 8, 2025

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ہم ذکر کر رہے تھے حیدرآباد کے ٹھنڈے موسم کا جہاں پانی کی ایک دنیا آباد ہے۔ سندھو دریا کے بہاؤ نے حیدرآباد کی پہاڑی کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، بالکل ایسے جیسے ان دنوں میں سکھر اور روہڑی کو پانی نے گھیر رکھا ہے۔

آپ اگر برطانوی دور کے بنے اسکیچ دیکھیں تو آپ کو قلعے کے ہر طرف خاص طور پر مشرق، جنوب اور مغرب میں پانی کی جھیلیں نظر آئیں گی۔ کمپنی سرکار کا وفد جو بمبئی سے نکلا تھا، کراچی پہنچا وہاں سے ننگر ٹھٹہ اور اب یہ حیدرآباد آ پہنچا ہے۔

اس وفد نے دو حصوں میں سفر کیا۔ ایک وہ جو اپنے سامان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے اور دوسرے وہ جنہوں نے گھوڑوں پر سوار خشکی کے راستے سفر کیا۔ کشتی پر آنے والی ٹیم جس میں پوٹنجر بھی شامل تھا، پہلے پہنچی جبکہ خشکی والی ٹیم کچھ دن دیر سے پہنچی کیونکہ راستے میں ایلچی اسمتھ صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جس کی وجہ سے راستے میں انہیں ایک دو دن رکنا پڑا۔

موسم بہ ظاہر معتدل اور سہانا تھا کیونکہ بارشیں اس برس کچھ زیادہ اور پہلے ہوگئی تھیں۔ مگر سیاسی حوالے سے دونوں طرف آندھیاں تھیں جو ان دونوں یعنی سندھ کے امیروں اور کمپنی سرکار کے وفد کے دل و دماغ میں چلتیں تھیں، کبھی تیز دھوپ نکل آتی تو غصے کے بگولے اٹھتے اور کبھی کبھار کوئی بدلی وقت کے سورج کے سامنے آ جاتی تو موسم ٹھنڈا ہو جاتا۔ مگر ایک طلاطم تھا جو دونوں طرف تھا۔

   حیدرآباد کے قلعے کا اسکیچ جہاں پانی اور گھنے درختوں کی ہریالی حد نظر تک پھیلی ہوئی ہے
حیدرآباد کے قلعے کا اسکیچ جہاں پانی اور گھنے درختوں کی ہریالی حد نظر تک پھیلی ہوئی ہے

میں آپ کو حیدرآباد کے مشرق میں بہتے بہاؤ پھلیلی کے مغربی کنارے لگی کمپنی سرکار کی چھاؤنی اور اس سے ایک میل شمال میں حیدرآباد قلعے میں رہنے والے سندھ کے حاکموں کی آپس میں لڑی گئی نفسیاتی جنگ کی دلچسپ داستان سنانے سے پہلے ان دنوں کے سیاسی حالات کا مختصراً منظرنامہ سنانا چاہوں گا۔

اس حوالے سے ہم چیتنرام ماڑیوالا سے بھی تھوڑی مدد کی امید ضرور رکھتے ہیں، ’جب گوروں کے وفد نے تالپوروں سے یہ کہا کہ اگر سندھ کے حکمران آزادی کے لیے افغانستان کے خلاف کوئی جدوجہد کریں گے تو کمپنی سرکار امیروں کا کوئی ساتھ نہیں دے گی اور اگر امیروں نے افغانوں کے خلاف اپنی آزادی کے لیے کوئی بغاوت کی تو ہم افغانوں سے مل کر آپ کے خلاف جنگ کریں گے۔

’ایسی دھمکی بھری باتوں نے تالپوروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈالا بلکہ وہ سہم گئے اور سوچا کہ اگر کمپنی سرکار کے خلاف کسی سے بھی گٹھ جوڑ کی تو کمپنی کی سرکار انہیں برباد کر دے گی۔ ایسے ماحول میں وہ تمام شرائط کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی گئے کمپنی سرکار بھی یہی چاہتی تھی۔ اس معاہدے کو ’کمپنی اور سندھ سرکار کے درمیان دائمی دوستی والے معاہدے‘ کا نام دیا گیا تھا۔ دوستی کے اس معاہدے کے تحت سندھ میں موجود فرانسیسی بیوپاریوں کو سندھ سے نکالا گیا۔ دائمی دوستی کے ان صفحات پر 22 اگست 1809ء کو تالپوروں نے دستخط کیے اور 16 نومبر کو گورنر جنرل لارڈ منٹو نے اس کی توثیق کی۔

’یہ عہدنامہ آنکھوں کے دھوکے اور الفاظ کی ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دونوں جانتے تھے کہ کمپنی سرکار اور سندھ کے امیروں کے درمیان دوستی کا بیج کبھی جڑ نہیں پکڑ سکتا مگر پورے 30 برس تک یہ معاہدہ نافذالعمل رہا۔ چونکہ فرانسیسی حملے کے آثار بھی ختم ہوچکے تھے، اس لیے اب سندھ-انگریز دوستی کی بھی کوئی خاص اہمیت اور ضرورت نہیں رہی تھی۔ انگریزوں کے تالپور حکمرانوں کے متعلق تاثرات کچھ اس طرح کے تھے کہ یہ خود کو اعلیٰ سمجھنے والے بےوقوف حکمران ہیں اور اپنا وقت شیخی بگھارنے، خوراک کھانے اور شکار کرنے کے سوا کوئی کام نہیں جانتے‘۔

ہم اگر تالپور زمانے کے واقعات پر غور کریں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ سندھ کے امیر خود سے طاقتور سے دوستی رکھنے سے کتراتے تھے۔ یقیناً اس کے اپنے اسباب تھے جن پر ہم آنے والی تحریروں میں ضرور بات کریں گے۔

   پھلیلی بہاؤ 1910ء میں
پھلیلی بہاؤ 1910ء میں

مسٹر اسیٹن والا معاہدہ تو گھر کے کونے میں پڑے ہوئے کچرے کی طرح اپنی حیثیت کھو چکا تھا اور اب جو معاہدہ مسٹر اسمتھ سے ہو رہا تھا تو ان دنوں سندھ کے شمال مشرق میں رنجیت سنگھ مسلسل اپنی ریاست کو وسعت دینے میں جٹا ہوا تھا اور ملتان تک آ پہنچا تھا۔ مسٹر مٹکاف نے انگریز سرکار کی طرف سے 11 ستمبر 1808ء کو رنجیت سنگھ سے ملاقات کی اور ایک کامیاب معاہدہ کیا۔

انگریزوں نے اسیٹن والا معاہدہ رد کرکے افغانستان کو یہ محسوس کروانے کی کوشش کی کہ ایران-فرانسیسی افواج سندھ کو ان کی غلامی سے آزاد کروا لیتیں، اس لیے یہ معاہدہ رد کرکے کمپنی سرکار نے افغانستان کو بڑی مشکل سے بچا لیا ہے۔ کمپنی سرکار کی یہ حکمت عملی کام کرگئی اور 1809ء میں افغانستان بھیجا گیا مسٹر ’ایلفن اسٹون‘ کا وفد ان سے کامیاب معاہدہ کرکے واپس لوٹا۔

ایسی صورت حال میں وقت کی بچھی شطرنج کی بساط پر تالپوروں کے پاس اپنی مرضی سے چال چلنے کی نہ ہمت تھی اور نہ کوئی مہارت کہ وہ راند کی کیفیت کو تبدیل کر سکتے۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی معاہدے پر دستخط کرنے پڑے۔ تالپور جانتے تھے کہ معاہدے کے بعد وہ جنوب مشرق میں کَچھ کے علاقے کی طرف اپنی طاقت بحال نہیں رکھ سکیں گے۔

سندھ کے حاکم صرف یہ کرسکتے تھے جو انہوں نے کیا کہ وہ کمپنی سرکار کے اس وفد کو جتنی ذہنی کوفت دے سکتے ہیں تاکہ پچھتاوے اور بے بسی کی جھولی میں کچھ تو سکون کے سِکے گریں۔ یہ البتہ الگ بات ہے کہ گوروں کو ملی ہوئی ان پریشانیوں نے سندھ سرکار کے حاکموں کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا اور انہیں جو پریشانیاں ملیں ان پریشانیوں کے بیجوں کو کمپنی حکومت نے غصے کا پانی دے کر بڑا کیا اور اس خاردار جنگل کو جب 19ویں صدی کے نصف میں آگ لگی تو اس کی لپٹوں میں سندھ کے امیروں کا تخت و تاج جل کر بھسم ہوا۔

   شمال کی طرف حیدرآباد کا قلعہ کچھ اس طرح نظر آتا تھا
شمال کی طرف حیدرآباد کا قلعہ کچھ اس طرح نظر آتا تھا

چلیے اب ان دلچسپ مناظر کی طرف چلتے ہیں جو کمپنی سرکار کے وفد اور سندھ کے امیروں کے درمیان تخلیق ہوئے۔ جس دن کشتی والا وفد حیدرآباد پہنچا اور اپنی چھاؤنی پھلیلی بہاؤ کے کنارے لگائی جو حیدرآباد کے پکے قلعے سے ایک میل جنوب مشرق میں تھی۔

پوٹنجر ہمیں بتاتے ہیں کہ ’ایک دو دن کے بعد جب ہمارا خشکی کے راستے آنے والا وفد 8 اگست کو حیدرآباد پہنچا تو اس کے دوسرے دن امیروں کے طرف سے وفد بھیجا گیا جس نے خیریت دریافت کی اور یہاں پہنچنے پر مبارکباد دی۔ جو وفد ہماری خیریت پوچھنے کے لیے بھیجا گیا تھا وہ تمام خدمت گار تھے اور کوئی بھی اعلیٰ اہلکار ان میں شامل نہیں تھا۔ یہ بھی ایک قسم کی تذلیل تھی جو ہماری کی گئی۔ وفد جس نے عافیت جاننے کے ساتھ ہمیں مٹھائیوں سے بھرے تھال بھی دیے تھے، ہم نے انہیں کچھ انعامات دیے۔ میر صاحبان نے انعام دینے والے عمل کو اپنی تذلیل سمجھا اور اس کا سختی سے نوٹس لیا‘۔

سندھ کے امیر ایسا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے جس سے کمپنی کے وفد کو زیادہ سے زیادہ پریشان کیا جا سکے۔ ہفتہ دس دن تک اس وفد کو ذہنی طور پر اتنے تناؤ میں رکھا کہ وفد بغیر ملاقات کے واپس ہونے سے متعلق سوچنے لگا تھا۔ ملاقات کا مسئلہ جن باتوں پر اَٹکا ہوا تھا، وہ کچھ اس قسم کی تھیں۔

کمپنی کا وفد: ’ہم کل حاکموں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں‘۔

امیروں کا نمائندہ: ’کل نہیں دو دن کے بعد‘۔

کمپنی: ’ہم صبح کو ملنا چاہتے ہیں‘۔

امیر: ’نہیں شام کو‘۔

کمپنی: ’ہم جب امیروں کے دربار میں آئیں تو ہمیں تعظیم دے کر وہ اُٹھ کھڑے ہوں‘۔

امیر: ’یہ نہیں ہو سکتا‘۔

کمپنی: ’ہمارے سفیر کو دربار میں کرسی دی جائے‘۔

امیر: ’ہم سفیر کو کبھی کرسی نہیں دیتے‘۔

کمپنی:’ ہم دربار میں کھڑے رہیں گے’۔

امیر: ’نہیں آپ کو بیٹھنا پڑے گا‘۔

کمپنی: ’ہم دربار میں آ کر بیٹھ جائیں گے‘۔

امیر: ’نہیں آپ کو کھڑا ہونا پڑے گا‘۔

   حیدرآباد قلعہ کا ٹاور اور شمال کی طرف والا مرکزی گیٹ —اسکیچ
حیدرآباد قلعہ کا ٹاور اور شمال کی طرف والا مرکزی گیٹ —اسکیچ

یہ تُو تُو میں میں ایک ہفتے تک چلی اور آخر دونوں میں ملاقات کا طریقہ کار طے ہوا اور امیروں کی طرف سے، اخوند محمد بقا، اس وفد کو لینے کے لیے پہنچا۔ سفیر نے سلسلہ وار اپنے وفد میں شامل افسران کا ان سے تفصیلی تعارف کروایا۔ قلعے تک جانے کا احوال پوٹنجر سے سنتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ’حیدرآباد کی پہاڑی کی وہ چوٹی جس پر حیدرآباد کا قلعہ تعمیر کیا گیا ہے، اس طرف جاتے ہوئے ہمیں دیکھنے کے لیے گھروں اور قلعے کی دیواریں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔

’پہلا دروازہ جس سے ہم قلعے میں داخل ہوئے (مشرق کی طرف سے) وہاں سے ایک کشادہ سیڑھی قلعے کی طرف جا رہی تھی، اس سیڑھی کے دونوں طرف میروں کے سپاہی کھڑے تھے جن کے ہاتھوں میں بندوقیں تھی۔ ہم جب دوسرے بُرج پر پہنچے جہاں پر پہنچ کر ہمیں گھوڑوں سے اترنا تھا وہاں پر ہمارا استقبال سندھ کے امیروں کے اہم آدمی ولی محمد خان لغاری اور دوسرے اہم عہدہ رکھنے والے افسران نے کیا اور ہمیں اس طرف لے گئے جہاں ایک پکے اسٹیج کی طرح بنے ہوئے وسیع سطح پر انتہائی قیمتی ایرانی غالیچے بچھے ہوئے تھے جن پر امیر بیٹھے ہوئے تھے۔

’ہم نے اس اسٹیج پر چڑھنے سے پہلے اپنے بوٹ اُتارے اور جیسے سفیر نے ان کی طرف بڑھنے کے لیے پہلا قدم اٹھایا تو وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور جب تک ایلچی اپنی اس نشست پر پہنچا جو اس کے لیے مخصوص کی گئی تھی، وہ نشست امیروں کی نشست سے الگ لگنے کے لیے اس پر پھول پتیوں والی ہاتھ سے بنائی چادر بچھائی گئی تھی۔

’ہمارے بیٹھنے کے بعد شہزادوں نے ایک ایک کرکے ہماری خیریت پوچھی چونکہ یہ رسمی ملاقات تھی اس لیے گفتگو انتہائی مہذب طریقے سے ہوئی۔ ہمیں جب دربار میں بیٹھے ہوئے اندازاً آدھا گھنٹہ ہوا تھا تو بڑے میر نے ہمیں جانے کی اجازت دی۔ ہندوستان کی دوسرے درباروں میں نشست کے اختتام پر پان چھالیہ اور عطر یا گلاب کے پھولوں سے کشید کیا ہوا تیل لانے کا اشارہ کیا جاتا ہے مگر یہاں ہمیں ایسی کوئی روایت نظر نہیں آئی اور نہ ہی یہاں ایران کی طرح کلیان (حقہ) اور قہوہ پیش کرنے کا رواج ہے‘۔

    قلعہ کا مشرقی گیٹ جس کو ہاتھی گیٹ بھی کہتے ہیں، کمپنی سرکار کا وفد اسی دروازے سے قلعہ میں داخل ہوا تھا
قلعہ کا مشرقی گیٹ جس کو ہاتھی گیٹ بھی کہتے ہیں، کمپنی سرکار کا وفد اسی دروازے سے قلعہ میں داخل ہوا تھا

پوٹنجر میروں کی نشست، گفتار اور پہناوے سے متاثر نظر آتے ہیں، وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’سندھ کے امیروں کی تلواروں اور خنجروں کی مونٹھوں (دستوں) پر لگے ہیرے جواہرات کے علاوہ بہت زیادہ تعداد میں جواہرات ان کے جسم پر تھے۔ ان کے کمربندوں پر بڑے زمرد اور یاقوت لگے ہوئے تھے، تینوں امیر اپنی عمر کے حساب سے ترتیب سے بیٹھے ہوئے تھے۔ سب سے بڑا (میر غلام علی تالپور) درمیان میں اور دونوں طرف ان کے بھائی، ایک طرف میر مراد علی (بڑا) اور دوسری طرف میر کرم علی (میر مُراد سے چھوٹا)۔ یہ بھائی جس نشست پر بیٹھے ہوئے تھے وہاں بچھی ہوئی چادروں پر زری اور چاندی کی باریک تاروں سے پھول پتیوں کا شاندار کام کیا ہوا تھا۔ گاؤ تکیوں پر بھی ہاتھ کے ہُنر کے کام اور رنگوں کی آمیزش کا شاندار کام کیا ہوا تھا۔

’یہ تمام حقائق دربار کی ایک شاندار تصویر پیش کر رہے تھے اور ساتھ میں دربار کے عملداروں کی پوشاکیں بھی شاندار تھیں۔ ہم سندھ کی دربار کے متعلق کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ اتنا شاندار ہوگا۔ ان کے سر پر بندھی ہوئی پگڑیاں اس سے پہلے میں نے کسی کو بھی بندھی ہوئی نہیں دیکھی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان پگڑیوں کا گھیراؤ دو سے ڈھائی فٹ تک تو ضرور ہوگا اور یہ پگڑیاں انتہائی نزاکت اور مخصوص طریقہ سے باندھی گئی تھیں جس کی وجہ سے نہ وہ وزن دار محسوس ہوتی تھیں اور نہ بری لگتی تھیں‘۔

پوٹنجر جس برس سندھ آیا تھا، اس سے تین برس پہلے بارشیں نہیں ہوئی تھیں۔ بارشوں کا یہ پیٹرن ابھی تک مسلسل ہے کہ لوئر سندھ میں تین چار برس بارشیں کم پڑتی ہیں اور چوتھے یا پانچویں برس بارشیں زیادہ پڑتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ برساتی سلسلوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے بے تحاشا بارشیں پڑتی ہیں۔ جس برس یعنی 1809ء میں جب پوٹنجر یہاں آئے تو بہت بارشیں پڑی تھیں۔ اس بارش کی وجہ سے ان کی قائم کی گئی چھاؤنی میں پانی بھر گیا تھا جسے حکومتی کارندوں نے نکالا تھا۔ پہلی ملاقات کے بعد تالپوروں اور کمپنی بہادر کے وفد میں نوک جھونک ٹھنڈی پڑ گئی تھی۔

    حیدرآباد میں توڑے دار بندوقیں شاندار بنتی تھیں
حیدرآباد میں توڑے دار بندوقیں شاندار بنتی تھیں

یہ وفد جب دوسری بار غیر رسمی ملاقات کے لیے دربار میں گیا۔ تو وہ راستے جہاں بندوق والے سپاہی کھڑے تھے وہاں کچھ نہیں تھا۔ اور نہ محلات میں اتنا رش تھا۔ پہلے کے مقابلے میں انتہائی پُرسکون ماحول تھا۔ تحفوں کی لین دین ہوئی۔ وہاں امیروں نے کچھ اعتراضات کیے۔ مگر مسئلہ حل ہوگیا۔ جب امیروں نے یہ بتایا کہ وہ ہر برس ایران اور ترکی میں اپنے آدمی بھیجتے ہیں کہ وہاں سے بہترین قسم کی تلواریں اور خنجر خرید کر لائیں اور ان کی خریداری میں پیسوں کی پروا مت کریں۔

پوٹنجر کے مطابق، یہ ان کی فضول خرچی تھی اور ان تلواروں کی خریداری اور انہیں اکٹھا کرنے کا حرص پیسے جمع کرنے سے بھی بڑھ گیا تھا۔ اس شوق میں وہ یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ کس بھائی کے پاس زیادہ شاندار خنجر اور تلواریں ہیں۔ اس مقابلے میں ہر کوئی سبقت لینا چاہتا تھا۔

    میر مراد علی تالپور کی تلوار
میر مراد علی تالپور کی تلوار

اس دوسری ملاقات میں سندھ کے امیروں اور کمپنی بہادر کے سفیر کے درمیان اکیلے میں ایک لمبی نشست ہوئی۔ سفیر نے امیروں کو وہ سب سمجھایا جو کمپنی چاہتی تھی۔ اس وفد کا سندھ میں آنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ جو عہدنامہ ’حملے اور بچاؤ کے اتحاد‘ کے لیے گزشتہ برس میروں سے کیا گیا تھا، اسے منسوخ کرنا تھا، فرانسیسی ایجنٹس کا سندھ میں داخل ہونے سے روکنا اور سندھ کے حوالے سے نیا عہدنامہ تیار کرنے کے لیے بات چیت کرنی تھی۔

سندھ کے امیروں نے نئے عہدنامے پر بات کرنے والی بات مان لی اور ایک وفد جن میں ولی محمد لغاری، اخوند بقا خان اور ایک ہندو جس کا نام مشتاق رام تھا شامل تھے، سندھ کے امیروں کا ان پر مکمل اعتماد تھا۔ فیصلہ ہوا کہ یہ وفد تب تک چھاؤنی میں آتا رہے گا جب تک باتوں کو تفصیل سے بیان کرکے دونوں طرف کے لوگ مطمئن نہیں ہوتے۔ اور عہدنامے کو آخری شکل نہیں دی جاتی اور جب سب طے ہوگیا تو سندھ حکومت کی طرف سے گورنر جنرل سے ملنے کے لیے ایک سفیر مقرر کیا گیا جو اس وفد کے ساتھ جائے گا اور عہدنامے کی فائنل اور تصدیق شدہ کاپی کی نقل لے کر وہ سندھ لوٹ آئے گا۔

حیدرآباد کے متعلق پوٹنجر ہمیں بتاتا ہے کہ یہاں توڑے دار بندوقیں (Matchlock Rifle) انتہائی شاندار اور خوبصورت بنتی ہیں ساتھ میں بھالے، تلواریں، خنجر بھی اچھے بنتے ہیں، کپڑوں پر کشیدہ کاری کا بھی عمدہ کام ہوتا ہے اور دوسرے بھی اچھے روزگار کے ذرائع ہیں جن سے عام آدمی کو اچھی آمدنی ہوتی ہے۔ یہاں بننے والے ہتھیاروں کا معیار انتہائی شاندار ہے یہاں تک کہ یہاں کے ہتھیار یورپ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

   حیدرآباد میں توڑے دار بندوقیں انتہائی شاندار بنتی تھیں
حیدرآباد میں توڑے دار بندوقیں انتہائی شاندار بنتی تھیں

حیدرآباد کے قلعے کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ ’قلعے کی دیواروں پر 70 توپیں نصب ہیں۔ البتہ مرکزی دروازے کی اوپری سطح پر تعمیر کیے گئے مورچے کی کوٹھری میں جو 8 یا 10 توپیں نصب ہیں وہ بھاری دھات کی بنی ہوئی ہیں اور شاندار توپیں ہیں، شہر کی آبادی، قلعے کے شمال میں ہے جس کی تعداد 3 ہزار گھروں تک ہوگی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی 10 ہزار نفوس تک تو ضرور ہوگی‘۔

24 اگست بدھ کا دن تھا جب انگریزوں کے وفد نے سندھ کے امیروں سے الوداعی ملاقات کی اور اس طرح دوسرے دن یعنی 25 اگست 1809ء کو صبح کو سویرے، سندھ حکومت سے ملی تین جھمپٹی کشتیوں پر یہ روانہ ہوئے جبکہ ان کا سامان، کراچی سے منگوائی گئی کشتیوں میں رکھا گیا۔

   حیدرآباد کا قلعہ شمال سے دیکھتے ہوئے 1850ء میں ایسا دکھائی دیتا تھا—تصویر:برٹش لائبریری
حیدرآباد کا قلعہ شمال سے دیکھتے ہوئے 1850ء میں ایسا دکھائی دیتا تھا—تصویر:برٹش لائبریری

اپنی واپسی کے سفر کے متعلق پوٹنجر لکھتے ہیں کہ ’ہم صبح کو جلدی اٹھے اور سویرے، حیدرآباد سے جنوب مشرق میں بہتی ہوئے ’پُھلیلی بہاؤ‘ میں اپنا سفر شروع کیا۔ تیسرے دن ہم ایک گاؤں کڈھن (اب یہ چھوٹا سا شہر ہے) پہنچے۔ حیدرآباد اور کڈھن کے درمیان پورا علاقہ نہایت خوبصورت اور فصلوں سے بھرا ہے۔ یہاں ہم کچھ دن رکے اور خوب جی بھر کر شکار کیا۔ اس کے بعد ہم 7 ستمبر کو لکھپت بندر پہنچے اور اکتوبر کے آخر میں ہم ایک مشکل، پریشان کر دینے والے مگر کامیاب سفر کے بعد ہم بمبئی پہنچے‘۔

سندھ کے سفر کے متعلق سفیر نکولس ہئنکی اسمتھ نے اپنی ایک تفصیلی خفیہ رپورٹ جمع کروائی تھی چونکہ وہ ایک طویل رپورٹ ہے جسے طوالت کی وجہ سے ہم یہاں شامل نہیں کر سکتے مگر اس نے مقامی حکومت کے اہم لوگوں سے باتوں باتوں میں یہاں کی بادشاہت، وسائل، بیوپار، فوج، ایری گیشن اور دیگر اہم معلومات اس رپورٹ میں تحریر کی تھی۔

چلیے 10 فروری کے انتہائی ٹھنڈے موسم میں سندھ کے امیروں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکار کا تیسرا معاہدہ ہونے جا رہا ہے۔ مگر یہ معاہدہ 1821ء میں ہونے والا ہے یعنی ابھی اس میں 10 برس باقی ہیں تب تک ہم مقامی سیاست، جنگوں اور سمندر کنارے ہونے والے بیوپار کے حوالے سے ایک سرسری جائزہ لے لیتے ہیں۔ تو ہم جلد ہی ملتے ہیں 1809ء سے 1821ء کے زمانے میں۔

حوالہ جات

  • Travels in Balochistan and Sinde. By: L.Hanry Pottinger. 1800.
  • British Policy Towards Sindh. C.L. Mariwalla. 1947.
  • ’کتھائیں جادوگر بستیوں کی‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
  • ’مہاراجہ رنجیت سنگھ‘۔ پروفیسر سیتارام کوہلی۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔