شائع August 22, 2025

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ہم نے گزشتہ قسط میں سفیر نکولس اسمتھ کی ایک طویل خفیہ رپورٹ کا ذکر کیا تھا۔ اب اس طویل رپورٹ میں جو انتہائی اہم معلومات درج ہیں، وہ میں آپ تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اُس وقت یعنی 1809ء میں سندھ پر قبضہ کرنے کے حوالے سے ابھی کمپنی سرکار سنجیدگی سے سوچ نہیں رہی تھی۔ سوچ اس لیے نہیں رہی تھی کیونکہ وہ ہندوستان میں اپنی فتح اور شکست کے بکھیڑوں میں پھنسی ہوئی تھی۔

مجھے نہیں پتا کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ جب سندھو دریا کے کنارے شام کے ایک سید نماز پڑھنے کے لیے وضو کر رہے تھے اور ان کی نظر گوروں کی کشتی اور جھنڈے پر پڑی تب انہوں نے کہا، ’گوروں کی نظر سندھ پر پڑی ہے، اب سندھ میروں کے ہاتھوں سے گیا‘، مگر یہ بات 1843ء میں سچ ثابت ہوئی۔ کبھی کبھار آپ کی جگہ اور وسائل آپ کی لگام کسنے کے لیے رسیوں کا کام کرتے ہیں۔

سندھ کی حکومت ان دنوں افغانوں کو سالانہ لاکھوں کا خراج ادا کر رہی تھی اور یہ ایک ایسی جگہ تھی کہ جہاں دریائے سندھ کے بہاؤ کا بے تحاشا میٹھا پانی پایا جاتا تھا۔ سونے پر سہاگا یہ کہ یہ ایسا سمندری کنارہ تھا جو ایشیا اور یورپ کے بیوپاری راستے پر موجود تھا جبکہ مغرب میں ایران اور شمال مشرق میں افغانستان تھا۔ اس جغرافیائی اہمیت کے حوالوں کی وجہ سے آج نہیں تو کل کمپنی سرکار کو اس کے اور یہاں کے وسائل کے متعلق سوچنا تو تھا۔

اسمتھ کی اس رپورٹ کے الفاظ اور جملوں کی پگڈنڈیاں کمپنی سرکار کو یہاں سندھ تک آنے کی دعوت دیتی نظر آتی ہیں۔ یہ رپورٹ جو پھلیلی بہاؤ کے مشرقی کنارے پر لگی چھاؤنی میں 22 اگست 1809ء منگل کے دن مکمل ہوئی تھی، کی تحریر کے مطابق، ’کراچی سندھ کی تیزی سے ترقی کرنے والی بندرگاہ ہے جہاں اس وقت کسٹم سے ایک لاکھ 10 ہزار افراد کی آمدنی ہوتی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیوپار کتنا کم ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے یہاں جو خانہ جنگی ہو رہی ہے (حیدرآباد سرکار اور میرپورخاص کے مانکانی تالپوروں کے درمیان)، تالپور آپس میں لڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے کراچی بندر سے جو سامان ہندوستان جاتا تھا اس میں کمی آئی ہے۔ البتہ ملک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اسی عرصے کے دوران ضرورت کا سامان ہندوستان سے خریدا جاتا ہے۔

’پہلے دارالخلافہ ٹھٹہ تھا، اب حیدرآباد بن چکا ہے تو ماضی میں ٹھٹہ صنعت کے حوالے سے بہت بڑی مارکیٹ تھا جہاں محصول، لگان اور کسٹم کی مد میں بہت آمدنی ہوتی تھی لیکن اب یہ گھٹ کر ایک لاکھ 45 ہزار ہوگئی ہے۔ سندھ کا صنعتی سامان جو ہندوستان، ایران اور دیگر ممالک کو جاتا ہے، اب بھی ٹھٹہ میں ہی بنتا ہے۔

   پھلیلی بہاؤ— حیدرآباد پوسٹ کارڈ
پھلیلی بہاؤ— حیدرآباد پوسٹ کارڈ

’سندھ میں بننے والی وہ اشیا جو ملک سے باہر بھیجی جاتی ہیں، ان میں چاول (یہ جنوبی سندھ میں اگائے جاتے ہیں)، گھی، جانوروں کی کھالیں، پوٹاش، قلمی شورہ، لٹھے کا کپڑا، نِیر اور کئی قسم کے بیج شامل ہیں۔ پھٹکڑی، مُشک، زعفران، گھوڑے، ملتان اور شمالی علاقوں سے خرید کر بیوپاری دیگر ممالک میں بھیجتے ہیں۔ آج کل ملتانی بیوپاریوں کی یہاں آمد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ صرف صراف اور بینکر ہیں۔

’سندھ میں شمالی علاقوں سے آمد و رفت سندھو دریا کے راستے ہوتی ہے، سمندر سے اس ندی کے مختلف بہاؤں پر چھوٹی بڑی کشتیوں پر آیا جایا جا سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو تالپوروں کی آپس میں قریبی رشتہ داریاں ہیں مگر چھوٹی چھوٹی بات پر وہ آپس میں تعصب رکھتے ہیں اور لڑ پڑتے ہیں۔

   سندھ کے بینکرز حساب کتاب میں مشغول
سندھ کے بینکرز حساب کتاب میں مشغول

’سندھ کے حاکموں کے جودھپور کے راجا، بہاولپور کے نواب، کَچھ کے رائے اور میر خان لاسی جو سونمیانی کی چھوٹی سی ریاست کا مالک ہے، سے سیاسی روابط ہیں۔ کَچھ کے جمعدار (فوج کا عہدہ) فتح محمد جو بلوچی نسل کا ہے، اس کی یہ کوشش رہتی ہے کہ سندھ ریاست سے اس کی دوستی قائم رہے تاکہ اس کے چھینے ہوئے حقوق اسے واپس مل سکیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب سندھ کے حاکم اس میں اس کی مدد کریں۔ سندھ کے حاکموں نے اس سے زبانی معاہدہ کیا ہے تاکہ وہ لکھپت بندر کو سندھ میں ضم کریں۔

   دریائے سندھ کے قدیم بہاؤ کوری پر ایک زمانے میں آباد لکھپت بندر—وکی پیڈیا
دریائے سندھ کے قدیم بہاؤ کوری پر ایک زمانے میں آباد لکھپت بندر—وکی پیڈیا

’سندھ کے پاس قدرتی وسائل زیادہ ہیں جن سے کسی بھی طاقتور حکومت کی کوشش سے اس کے آس پاس پھیلی ہوئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ سندھ کے حاکم کوئی اچھی حکومت چلانے والے نہیں ہیں، اس لیے موجودہ حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے تو ہو سکتا ہے اس عمل سے حالات کچھ سنگین ہو جائیں جس سے نمٹنے کے لیے ایک تباہ کُن خانہ جنگی کرنا پڑے گی‘۔

یہ تھا کمپنی سرکار کے سفیر کی انتہائی خفیہ رپورٹ کا اہم حصہ! مجھے یقین ہے کہ اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد اندرونی طور پر کمپنی سرکار نے اس حوالے سے کام شروع کر دیا ہوگا کیونکہ یہ وفد آیا ہی وسائل اور مقامی سیاسی حالات کو پرکھنے کے لیے تھا۔ اس بات کو درست ثابت کرنے کے لیے میرے پاس کوئی ٹھوس ثبوت تو یقیناً نہیں ہے۔ مگر ہم جب فروری 1831ء میں الیگزینڈر برنس سے سندھ کے سمندری کناروں پر ملاقات کریں گے، اس وقت آپ اس خفیہ رپورٹ پر عمل کرنے والی بات کو ضرور یاد رکھیے گا۔

24 اگست کو 1809ء کو کمپنی سرکار کا یہ وفد حیدرآباد سے پھلیلی بہاؤ پر کشتیوں پر سوار ہوکر جنوبی سندھ کی جانب نکل پڑا۔ یہ وفد ابھی شاید کڈھن کی چھوٹی سی بستی تک نہیں پہنچا ہوگا کہ بہاولپور ریاست کے نواب بہادر خان نے 24 اگست 1809ء بروز جمعرات کو وفات پائی اور اس کی جگہ نواب صادق محمد خان ثانی جانشین ہوا۔

تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ، خیرپور ریاست کے حاکم میر سہراب خان بہاولپور ریاست پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس قبضہ کرنے کے لیے سب سے زیادہ طاقتور جو بہانہ تھا وہ یہ تھا کہ حیدرآباد کے امیروں کے مقابلے میں بہاولپور اس کے نزدیک پڑتا ہے تو اس کا حق بنتا ہے کہ وہ اس پر قبضہ کرے۔ میر سہراب نے کوششیں بھی کیں مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ نواب کے اس جہان سے گزرنے کے بعد حیدرآباد کے میر غلام علی تالپور نے میاں فقیرو جونیجو اور طاہر خان کی سپہ سالاری میں اپنا لشکر بہاولپور روانہ کیا۔

محمد صادق ثانی نے جنگ کے بجائے بات چیت سے مسئلہ حل کرنا چاہا۔ اس لیے بات چیت کرنے کے لیے حیدرآباد کے لشکر کی طرف سے دربار کا وکیل جسونترام کو بھیجا گیا مگر بات چیت کامیاب نہ ہوسکی جس کی وجہ سے میاں فقیرو نے بہاولپور کے بالکل نزدیک مورچہ بنایا اور چھوٹے بڑے معرکے ہوتے رہے جس میں سندھ کے لشکر کی فتح ہوئی اور اس طرح سبزل کوٹ، بھنگ بھاڑھ اور خان گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے بعد پھر باتیں ہوئیں جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ سالانہ 12 ہزار لگان کے علاوہ سبزل کا علاقہ، کوٹ سمیت تالپور حکومت کے حوالے ہوگا اور ضامن کے طور پر صادق محمد خان کا فرزند شہزادہ رحیم یار خان کو حیدرآباد کی دربار میں رکھا جائے گا۔

   نور محل بہاورلپور—تصویر: وکی پیڈیا
نور محل بہاورلپور—تصویر: وکی پیڈیا

شہزادہ بروز جمعہ 22 دسمبر 1809ء کو حیدرآباد لایا گیا۔ مصنف تحریر کرتا ہے کہ میر غلام علی نے شہزادے کو عزت سے رکھا اور خاطر مدارت میں کوئی کمی نہیں کی۔ قیدی تو قیدی ہوتا ہے، اسے چاہے چاردیواری میں رکھا جائے یا سونے کے پنجرے میں، چاہے شاندار بستر اور شاندار خوراک بھی دی جائے مگر اس کے سر پر جو آسمان ہوتا ہے، اسے وہ کبھی اپنا نہیں لگتا۔ یہ قید دو دنوں کی ہو، دو برسوں کی یا دو ماہ کی، قید تو محض قید ہے۔

شرط کے مطابق 26 فروری 1810ء پیر کے دن شہزادے کو واپس اس کے والد صادق محمد کے پاس احمد پور شرقیہ میں پہنچا دیا گیا اور حیدرآباد حکومت میں ضم کیے ہوئے علاقے خیرپورمیرس کے میر سہراب خان کے حوالے کر دیے گئے۔ اس کی پرانی تمنا تھی کہ ان علاقوں پر اس کا قبضہ ہو کیونکہ وہ حیدرآباد سے زیادہ ان کے لیے نزدیک تھا۔ اسی برس اسی ماہ یعنی فروری 1810ء کو مہاراجا رنجیت سنگھ نے خوشاب سے ملتان کی طرف اپنی فوج کے ساتھ سفر شروع کیا اور چار دن کے بعد 20 تاریخ کو ملتان پہنچا اور ملتان کے نواب کے ساتھ جنگ کی ابتدا کی۔

جنگ ہوئی تو انسانوں نے اپنے جیسے انسانوں کے سروں کو گندم کے خوشوں کی طرح کاٹنا شروع کیا۔ سر دھڑ سے الگ ہوں گے تو خون تو بہے گا۔ یہاں بھی بے تحاشا خون بہا اور 25 فروری کو سکھوں نے ملتان پر قبضہ کر لیا۔ ملتان کا نواب جو قلعہ میں تھا، اس نے اپنی ہار دیکھ کر سفید جھنڈے کا سہارا لیا اور بھاری رقم تاوان نذرانے کے طور پر دینے کے لیے تیار ہوگیا۔ رنجیت سنگھ نے نواب کو کہا کہ آج کے بعد وہ اپنے آپ کو کابل کا صوبہ دار تصور نہ کرے اور باوقت ضرورت سکھ حکومت کی مدد کرے اور نذرانہ وصول کرنے کے بعد رنجیت سنگھ لاہور لوٹ آیا۔

   راجا رنجیت سنگھ کا دربار—وکی پیڈیا
راجا رنجیت سنگھ کا دربار—وکی پیڈیا

برٹش سرکار کے ساتھ رنجیت سنگھ کا عہدنامہ 30 مئی 1809ء کو گورنر جنرل لارڈ منٹو نے اپنی کونسل میں پاس کرکے مہر ثبت کرکے مہاراجا کو بھیجا تھا۔ دوسری جانب رنجیت سنگھ کی اپنی طاقت اور حکومت کا دائرہ بڑھانے کے لیے فتوحات کی بھرمار نے سندھ کے تالپور حکمرانوں کے ذہن میں ضرور پریشانیوں کی فصل بوئی ہوگی کیونکہ بہاولپور حیدرآباد سے 700 کلومیٹر دور تھا جبکہ بہاولپور سے ملتان 70 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ان حقائق سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سندھ کے شمال اور مشرق میں سیاسی منظرنامہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا اور کچھ ہی برسوں میں جنوب مشرق کی طرف بھی حالات بگڑنے کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ پوٹنجر اور سفیر نکولس ہئنکی اسمتھ کے وفد کی واپسی کے بعد کمپنی سرکار سندھ کے متعلق کچھ سنجیدگی سے سوچنے لگی تھی۔

میں کمپنی سرکار کے سر جارج میکمین کا ایک جملہ اسی کی کتاب Lure of The Indus سے آپ کو سُنانا چاہوں گا، جو لکھتے ہیں کہ ’1811ء میں ہمیں کچھ ہندوستان کے حالات سے سکون ملا جو لارڈ منٹو کی وجہ سے ممکن ہوسکا اور ہمیں حکمت عملی بنانے کا موقع ملا جس سے افغانیوں اور روس سے بچنا ممکن ہوگیا تھا مگر اتفاق سے افغان حاکموں کی آپس میں مڈبھیڑ ہوگئی۔ شاہ زمان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر اندھا کر دیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے ذہن سے افغانوں کے حملوں کا خوف بالکل ختم ہو گیا۔

’افغانستان کے ایسے حالات دیکھ کر نوجوان رنجیت سنگھ کو آگے آنے کا موقع مل گیا جس نے لڑاکو سکھوں کے لیڈر ہونے کی وجہ سے ستلج پار (موجود وقت میں ہندوستان والا پنجاب) کے علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔ سکھوں کا پنجاب میں حکومت کی گدی پر بیٹھنا برٹش سرکار کے لیے ایک اچھا شگون تھا۔ کمپنی سرکار نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ اپنے طور پر مکمل ہو رہا تھا کیونکہ فرانس اور روس کے حملے سے بچاؤ کے لیے یہ حکومت ایک دیوار کی مانند تھی۔ پنجاب کی سکھ ریاست افغانیوں کے پیسوں پر دن دونی اور رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ اندرونی حکمت عملی کے تحت سندھ اور بہاولپور کو توجہ کا مرکز بنایا گیا اور بیرونی حکمت عملی یہ تھی کہ افغانستان اور ایران کی آپس میں دوستی کروائی جائے تاکہ یہ بھی روس کے حملے سے بچاؤ کے طور پر ایک بفرزون کی طرح کام آ سکے۔ برطانیہ سرکار کی خواہش تھی کہ رنجیت سنگھ کی سکھ حکومت ستلج دریا تک ہو‘۔

   کابل کے قلعے کا ایک اسکیچ
کابل کے قلعے کا ایک اسکیچ

بہرحال ابھی اس سیاسی اُتھل پتھل میں کچھ وقت ہے۔ کیا ہم سب کو یہ نہیں لگتا کہ ہم نے ناؤنمل سے کچھ وقت سے بالکل بات نہیں کی، چلیے ناؤنمل سے ان دنوں کے متعلق کچھ سن لیتے ہیں۔

1811ء میں کَچھ، بُھج، مارواڑ اور آس پاس کے علاقوں میں کچھ برسوں سے بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے سخت قحط پڑا۔ یہ بات مجھے ناؤنمل نے بتائی اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ اس کا جنم 1807ء میں ہوا تھا۔ مطلب جب کمپنی سرکار کے وفد نے جہازوں سے گولے فائر کیے تھے تب ناؤنمل نے ان توپوں کے گولوں کی ہیبت ناک آواز ضرور سنی ہوگی مگر شاید دو برس کی چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے اُسے یاد نہیں ہوگا۔

بہرحال وہ یہ ضرور تحریر کرتا ہے کہ ’جب 1812ء میں میر غلام علی خان نے یہ جہان چھوڑا اور حکومت میر کرم علی خان اور میر مراد علی خان کو ملی تو سیٹھ دریانو مل جو میر کرم علی کا قریبی دوست تھا، ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیا کرتے تھے مگر یہ لین دین میر مراد علی خان کو اچھی نہیں لگتی تھی‘۔

ناؤنمل ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ 1805ء میں اس کا خاندان کراچی شہر کے دو ہزار لوگوں کے ساتھ ہنگلاج یاترا (یہ نانی کا مندر ہنگلاج کے کنارے پر ہے، یہاں ایک زیارت کی جگہ ہے جس کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ہندو اسے ہنگلاج دیوی اور ماں کالی کہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ پاروتی ہنگلاج میں آئی تھی اور یہاں چلہ کشی کی تھی۔ مسلمان اسے نانی ہنگلاج اور مائی ہنگلاج کہتے ہیں اور ہر برس یہاں میلہ لگتا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جاتے ہیں۔ یہ تاریخی مقام کراچی سے 240 کلومیٹر دور ہے) پر گئے تھے اور دان دے کر پُن کمانے کے لیے برہمنوں اور بھٹوں کو بے تحاشا خوراک اور پیسے دان میں دیے تھے۔ اس سفر میں ان کو کراچی لوٹتے 75 دن لگ گئے۔

   ہنگلاج میں نانی کا مندر—تصویر: وکی پیڈیا
ہنگلاج میں نانی کا مندر—تصویر: وکی پیڈیا

   شری ہنگلاج آستان—تصویر: رضا ہمدانی
شری ہنگلاج آستان—تصویر: رضا ہمدانی

ناؤنمل ہمیں 1811ء میں کَچھ، بھُج، مارواڑ اور ارد گرد کے علاقوں میں سخت قحط پڑنے کے متعلق بڑے تفصیل سے بتا رہا تھا۔ اگر ناؤنمل ایک تیز حافظہ رکھنے والا بچہ ہوگا تو اسے ان دنوں کے حالات کے کچھ منظر ضرور یاد ہوں گے۔ وہ ہمیں اپنی یاد اور لوگوں سے سنی باتوں کو ملا کر بتاتا ہے کہ ’جب یہ کال پڑا تھا اور اناج کی سخت کمی ہوگئی تھی تو ان دنوں میرے بڑوں کا کاروبار بہت بڑھ گیا تھا اور پانچ شہروں میں ہماری کوٹھیاں تھیں۔ کال کے زمانے میں ہالار، کَچھ، مارواڑ اور گجرات کے لوگوں کے ٹولوں کے ٹولے سندھ میں ہر جگہ نظر آتے تھے۔

’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اناج کی اتنی شدید کمی تھی کیونکہ پیسے والے لوگ جن کے پاس سونے اور چاندی کی تھیلیاں تھیں وہ بھی بھوک کا شکار تھے۔ سندھ میں جوئر، نانگلی (گھاس کی ایک قسم جو گندم کے فصل میں اُگتی ہے اور اس کے بیج ہلکے سرخ رنگ کے ہوتے ہیں جنہیں اگر کھایا جائے تو کوئی ذائقہ نہیں ہوتا، نانگلی کو ایک بے سواد اناج کہا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے اناج پر طنز کے لیے کچھ کہاوتیں بھی ہیں جن میں سے ایک، ’نانگلی بھی کہتی ہے مجھے دودھ کے ساتھ کھاؤ‘۔ بھی ہے) اور جَو جیسے سادہ سے اناج کے چار سیر ایک روپے میں بھی نہیں ملتے تھے‘۔

   نانگلی اناج کی جھاڑی کہ نانگلی بھی کہتی ہے مجھے دودھ سے کھاؤ
نانگلی اناج کی جھاڑی کہ نانگلی بھی کہتی ہے مجھے دودھ سے کھاؤ

وہ مزید بتاتا ہے، ’بھوک سے کئی لوگ مر گئے۔ ایسے حالات دیکھ کر میرے بڑوں نے مذہب اور ذات کی تفریق کو ایک طرف رکھ کر ان کے پاس جو اناج کی کوٹھیاں بھری ہوئی تھیں، ان سے اناج دینا شروع کیا۔ فی فرد روزانہ سیر باجرہ یا چاول کے حساب سے دیے جاتے تھے۔ اناج کی تقسیم صبح سے رات دیر تک چلتی، بہت سارے لوگ جو پیسے والے تھے وہ شرمندگی کی وجہ سے چہرہ کپڑے سے ڈھانپ کر اناج لینے آتے تھے۔ سندھ میں وہاں سے آئے ہوئے کتنے غریب خاندانوں نے اپنی اولادوں کو پیسوں سے بیچا کہ ایک تو ان کے بچوں کی زندگیاں بچ جائیں گی اور انہیں بھی کھانے کے لیے اناج مل جائے گا‘۔

ناؤنمل کہتا ہے کہ قحط کی یہ کیفیت 7 سے 8 ماہ چلی جس کے بعد بارشیں برسیں تو حالات بہتر ہونے لگے اور لوگ واپس کَچھ اور مارواڑ کی طرف لوٹے۔

   مہران گڑھ فورٹ، مارواڑ
مہران گڑھ فورٹ، مارواڑ

سندھ، کچھ اور مارواڑ کے راجاؤں کے آپس میں اچھے تعلقات تھے۔ ان تعلقات کی بنیاد پر وہاں کے راجاؤں نے سندھ حکومت سے درخواست کی کہ قحط کے زمانے میں یہاں کے لوگوں نے سندھ میں جو بچے پیسوں سے بیچے تھے انہیں لوٹا دیا جائے۔ مرزا عباس علی بیگ لکھتے ہیں کہ ’قحط کے ان دنوں میں حاکم میر غلام علی خان تھا جس نے اپنی حکومت میں جو اناج تھا، وہ لوگوں میں مفت تقسیم کیا کہ لوگ اس آئے ہوئے قدرتی عذاب سے نکل پائیں اور جب بیچے گئے بچوں کے واپسی کی بات آئی تو سندھ کے امیروں نے اپنے خزانے سے بیچے گئے بچوں کی ادائیگی کی اور بچوں کو کچھ، کاٹھیاواڑ حکومت کے حوالے کیا۔ یہی زمانہ تھا کہ جب تالپوروں کی حکومت نے اپنا سکہ ڈھالا جس کو ’کورا سکہ‘ کا نام دیا۔ ان دنوں میں تیمور شاہ افغانی کا سکہ رائج تھا‘۔

میر غلام علی تالپور نے 1812ء میں اس بےوفا جہان کو وداع کیا اور سندھ کے امیروں کی پہلی چویاری کا تیسرا امیر میر کرم علی خان 5 جون بروز جمعہ مَسند پر بیٹھا۔ میر فتح علی خان جس نے 20 برس حکومت کی اور اس کے بعد یہ تیسرا امیر تھا جس نے 17 برس تک حکومت کی۔ یہ 17 برس جن کا اختتام 1828ء پر ہوا۔ اگر دیکھا جائے تو جس طرح سیاسی صورت حال، قبضوں اور بیوپار کے لیے ایشیا اور یورپ میں ایک میراتھن دوڑ لگی ہوئی تھی، ایسے وقت میں ایسی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنا انتہائی مشکل تھا خاص طور پر جہاں باقاعدہ فوج نہ ہو، جہاں سفارتکاری کی اہمیت کو سنجیدہ نہ لیا گیا ہو، جہاں اپنے رشتے داروں سے تھوڑی تھوڑی بات پر جنگوں کے میدان کشت و خون سے سرخ ہوں، حکومت کے حصے بکھرے کر دیے جائیں، جاڑے کی ٹھنڈی رات کی طرح ہر کوئی اپنے کو گرم رکھنے کے لیے چادر اپنے طرف کھینچے، جہاں شکوک و شبہات دلوں میں زقوم کی جھاڑیوں کی طرح اُگیں، ایسی صورت میں حکومت کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ 17 برس یعنی میر کرم علی خان کی حکومت کا وہ زمانہ تھا جس میں آنے والے 15 برسوں میں ہونے والی اُتھل پتھل کے بیج وقت نے بو دیے تھے۔ صرف وقت کے پانی کا انتظار تھا اور جیسے وہ وقت آیا تو سب صاف نظر آنے لگا۔

    بمبئی کے گورنر جان مالکوم
بمبئی کے گورنر جان مالکوم

مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ سندھ کے حاکم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ میر کرم علی خان نے حکومت میں آتے میر فتح علی خان کے زمانے میں جودھپور کے راجا نے عمرکوٹ پر قبضہ کیا تھا، وہ لڑ جھگڑ کر چھڑوایا۔ مرزا عباس علی بیگ تحریر کرتے ہیں کہ ’یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ننگر ٹھٹہ کمال سے زوال کے ویرانیوں کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا تھا اور اس کے مغرب شمال میں کراچی اور مشرق شمال میں حیدرآباد اپنے کمال کے صبح و شاموں کے رنگ سمیٹنے میں مشغول تھے۔

’اس زمانے میں بیوپار کے حوالے سے بمبئی کے گورنر جان مالکوم (Sir John Malcolm) سے سندھ حکومت کا معاہدہ ہوا جس کے بعد سندھ کے بیوپار کو کمپنی سرکار کی مدد سے دوسرے ممالک میں پہنچنے کے راستے ملے۔ (یہ معاہدہ میر کرم علی خان کے بالکل آخری برسوں میں ہوا ہوگا کیونکہ جان مالکوم بمبئی کا گورنر یکم نومبر 1827 سے یکم دسمبر 1830ء تک رہا)۔

’میجر اسکین بمبئی کے گورنر کی ہدایات پر کَچھ سے سندھ کی دربار میں وکیل بن کر آیا۔ ایران کے فتح علی شاہ قاچار کے ساتھ دوستی اور مضبوط ہوئی۔ بلکہ سندھ اور ایران کی دوستی تالپوروں کی پہلی چویاری کے پہلے حاکم میر فتح علی خان کے زمانے میں بھی گہری رہی‘۔

ایران اور قاچار خاندان کی اس دوستی کا ذکر ابھی باقی ہے جس نے آگے چل کر سندھ حکومت کی سیاست میں بھی کردار ادا کیا تو جلد ہی ملتے ہیں میر کرم علی تالپور کے دربار اور شمال، مشرق اور جنوب میں بچھی سیاسی بساط اور ان پر جمے مہروں کی چال دیکھنے کے لیے کیونکہ وقت کی تیز نگاہیں اور ہاتھ کس مہرے کو کس چال چلنے پر مجبور کرتے جبکہ چال تو وقت اور حاکم چلتا ہے مگر اس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

حوالہ جات

  • The Lure of The Indus. By: Sir George MacMunn.London.1933.
  • British Policy Towards Sindh. C.L. Mariwalla. 1947.
  • ’مہاراجا رنجیت سنگھ‘۔ پروفیسر سیتارام کوہلی۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
  • ’قدیم سندھ‘۔ مرزا قلیچ بیگ۔ سندھی ادبی بورڈ
  • ’تاریخ سندھ تالپور دور‘۔ مرزا عباس علی بیگ۔ تالپور پبلیکیشن، لطیف آباد حیدرآباد
  • Travels in Balochistan and Sinde. By: L.Hanry Pottinger. 1816.
  • ’کتھائیں جادوگر بستیوں کی‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔