• KHI: Partly Cloudy 18.8°C
  • LHR: Cloudy 11.8°C
  • ISB: Rain 13.5°C
  • KHI: Partly Cloudy 18.8°C
  • LHR: Cloudy 11.8°C
  • ISB: Rain 13.5°C

’باہر کی دنیا کے خوف سے اپنے بچوں کو گھروں میں قید کرنے والے والدین انہیں زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں‘

شائع September 5, 2025

ایک اسکول کی منتظمہ نے حال ہی میں مایوسی میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں بہت سے والدین اپنے بچوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت دینے کے بجائے تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’گھر کے گیٹ سے باہر کی دنیا، اب محفوظ نہیں ہے‘۔ سڑکیں زیادہ خطرناک لگتی ہیں، پارکس پہلے کی طرح محفوظ محسوس نہیں ہوتے اور محلے جو کبھی برادرانہ دوستانہ ماحول فراہم کرتے تھے، اب لوگوں میں پریشانیوں کا باعث بن رہے ہیں۔

والدین کے جذبات کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ اپنے بچے کو ہوم ورک کرتے دیکھنا یا اسکول کے بعد ٹیوشن کلاسز لیتے دیکھنے سے والدین کو ایک خاص طرح کی تسلی ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسکول کا کام بچوں کو باہر کے خطرات سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ گھر میں بیٹھ کر اسکول کا کام کرنے والا بچہ زیادہ محفوظ لگتا ہے۔ لیکن تحفظ کا یہ احساس گمراہ کُن بھی ہوسکتا ہے یا شاید اس کے ایسے خطرات بھی ہوسکتے ہیں جو بہ ظاہر آنکھوں سے اوجھل ہوں۔

ان دنوں اسکول کا زیادہ تر کام آن لائن ہوتا ہے۔ بچوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آن لائن اپنا اسائنمنٹ کریں، اسکول کے پروجیکٹ کریں یا ٹیوشن کلاسز لیں۔ والدین اپنے بچوں کو پڑھائی کے نام پر اسکرین میں مصروف دیکھتے ہیں تو شاید یہ ان کے لیے باعثِ اطمینان ہو۔ لیکن اسکرین مکمل طور پر محفوط نہیں۔ تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا وہی آلہ بچوں کو انٹرنیٹ کی بہت بڑی اور زیادہ تر غیر مانیٹر شدہ دنیا تک رسائی فراہم کرتا ہے جوکہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ٹک ٹاک جیسی ایپس بہ ظاہر مصروف گلیوں یا تاریک پارکوں کی طرح خطرناک نہ لگیں۔ لیکن پھر بھی اس کے پوشیدہ خطرات ہوتے ہیں جیسے سائبر بُلنگ، نامناسب مواد تک رسائی، زیادہ اسکرولنگ کی عادت اور آن لائن لائکس یا اپنے اقدامات کی توثیق حاصل کرنے کا مسلسل دباؤ، ان میں نمایاں ہیں۔

ایک بچہ چند سیکنڈز میں پڑھائی سے ڈیجیٹل دنیا میں بھٹک سکتا ہے۔ باہر کھیلنے سے بچے کے زخمی ہوجانے والے گھٹنے پر تو توجہ دی جا سکتی ہے لیکن آن لائن دنیا کی وجہ سے بچوں میں پیدا ہونے والے کم خود اعتمادی، بے چینی یا سماجی دستبرداری جیسے نقصانات پر اکثر طویل عرصے تک دھیان نہیں جاتا۔

یہ صورت حال ہمیں دوبارہ جائزہ لینے پر مجبور کرتی ہے کہ ’حفاظت‘ کا اصل مطلب کیا ہے۔ آن لائن دنیا اپنے آپ میں فطری طور پر خطرناک نہیں ہے لیکن یہ پیچیدہ، نفیس اور کچھ اس انداز میں ڈیزائن کی گئی ہے کہ انسان اس کا عادی بن جائے چونکہ بچے سیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اپنے جذبات اور ایکشن کو کیسے منظم کرنا ہے، اس لیے انہیں خاص طور پر اس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

لہذا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ بچے اسکرین پر کتنا وقت گزارتے ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اس دورانیے میں کیا کر رہے ہیں۔ کیا وہ نئی چیزیں سیکھنے، تخلیقی بننے اور دریافت کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں؟ یا کیا وہ صرف ایسا مواد دیکھ رہے ہیں جو ان کی توجہ کو کم کرتا ہے، انہیں اپنے بارے میں برا محسوس کرواتا ہے اور انہیں دوسروں کے ساتھ حقیقی روابط استوار کرنے سے روکتا ہے؟

اس سب کے پیچھے ایک بڑا سماجی مسئلہ بھی ہے۔ بہت سے گھرانوں میں تعلیمی دباؤ میں اضافہ والدین میں بچوں کے مستقبل کے بارے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی عکاسی کرتا ہے۔ انتہائی مسابقتی تعلیم کے نظام میں، تعلیمی میدان میں اچھی کارکردگی کو کامیاب ہونے کا سب سے محفوظ طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ والدین بچوں کو اکیلے باہر جانے دینے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ عوامی مقامات کم محفوظ سمجھتے کرتے ہیں جس سے نتیجتاً بچوں کی ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو حد سے زیادہ نگرانی والے سخت شیڈول کی وجہ سے غیر منظم کھیلوں کی سرگرمیوں، دوستوں سے ملنے جلنے اور گھر سے باہر کی دنیا میں نئے احساسات دریافت کرنے سے تیزی سے محروم ہورہے ہیں۔

لیکن تحقیق واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ حقیقی زندگی کے تجربات جیسے باہر کھیلنا، دوسروں کے ساتھ بات کرنا اور جسمانی کھیل، بچے کی سوچ، زبان، جذبات اور جسمانی نشوونما کے لیے بہت اہم ہیں۔ ان حقیقی تجربات کی جگہ تیزی سے اسکرین ٹائم لے رہا ہے۔ جبکہ مطالعات اس کے منفی اثرات کو ظاہر کر رہے ہیں۔

امریکا میں جو بچے اسکرین پر دن میں 4 یا اس سے زیادہ گھنٹے گزارتے ہیں، ان میں انزائیٹی کا امکان 45 فیصد زیادہ ہوتا ہے، 65 فیصد سے زیادہ میں ڈپریشن کا امکان ہوتا ہے جبکہ ان میں رویے کے مسائل اور ADHD کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جوکہ زیادہ تر اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ کم حرکت کرتے ہیں اور اچھی طرح نیند نہیں لے پاتے ہیں۔

وہ کم عمر بچے جو روزانہ اسکرین استعمال کرتے ہیں، ان میں بولنے کے مسائل ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے جبکہ ان میں سیکھنے میں دشواریوں کا امکان تقریباً دگنا ہوتا ہے کیونکہ دماغ کے اسکینز سے ان بچوں میں سفید مادے کی نشوونما میں کمی کا پتا چلتا ہے۔ بھارت میں جو بچے اسکرین پر دن میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں بے چینی، ڈپریشن اور خراب تعلیمی کارکردگی کی شکایات دیکھنے میں آتی ہے جبکہ باہر کھیلنے سے ان مسائل کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

بہت زیادہ اسکرین ٹائم موٹاپے کا خطرہ بھی بڑھاتا ہے کیونکہ بچے کم حرکت کرتے ہیں اور اکثر غیر صحت بخش غذا کھاتے ہیں۔ ان نتائج کی بازگشت کرتے ہوئے، Haidt’s The Anxious Generation میں تحریر ہے کہ جب سے اسمارٹ فونز مقبول ہوئے ہیں، کم عمر بچوں میں بے چینی اور ڈپریشن دگنا ہوگیا، سماجی ملاقاتیں بھی کم ہورہی ہے جبکہ ان میں نیند کے مسائل زیادہ عام ہوگئے ہیں۔

یہاں ایک افسوسناک ستم ظریفی بھی ہے۔ بچوں کو بیرونی دنیا کی گندگی اور غیر متوقع حالات سے بچانے کی کوشش کرکے ہم انہیں ایسے تجربات سے روک رہے ہیں جو انہیں اچھا فیصلہ کرنے کا گُر سیکھنے، خود مختار بننے اور مضبوط ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ زیادہ اسکرین ٹائم اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھ کر شاید آپ اپنے بچوں کو جسمانی طور پر محفوظ رکھ سکیں لیکن ان میں خود کو تنگ، تنہا اور جذباتی طور پر محدود محسوس کرنے کے جذبات پنپ سکتے ہیں۔

تو ایسے میں متوازی حکمت عملی کیا ہوگی؟

سب سے پہلے ہمیں اس بات پر گفتگو کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے کہ حفاظت سے کیا مراد ہے۔ یہ صرف جسمانی معاملات تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ جذباتی سکون، ڈیجیٹل فہم اور ذہنی صحت کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ محفوظ ماحول تخلیق کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ گھروں میں کھلی بات چیت کو فروغ دیا جائے تاکہ بچے آن لائن جو دیکھتے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں اور جن چیزوں کی انہیں ضرورت ہے، ان کے بارے میں بات کر سکیں۔

دوسرا، اسکول اور کمیونٹیز عوامی مقامات کو بچوں کے لیے محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اچھے پارکس، کمیونٹی سینٹرز اور ایسے محلے جہاں لوگ آسانی سے چہل قدمی کر سکیں، صرف تفریح ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ اجتماعی نگہداشت اور باہمی اعتماد کے عزم کی علامت بھی ہوتے ہیں۔ جب بچے باہر کھیلتے نظر آتے ہیں اور بڑے بھی موجود اور متحرک رہتے ہیں تو کمیونٹی نہ صرف تصور میں بلکہ حقیقت میں بھی زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہے۔

تیسری بات یہ کہ ہمیں تعلیمی کامیابی کے بارے میں اپنے مفروضوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ سیکھنا صرف ڈیسک یا اسکرین پر بیٹھنے کا نام نہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب بچے متجسس ہوتے ہیں، گھومتے پھرتے، باتیں کرتے اور نئی چیزیں آزماتے ہیں پھر چاہے اس دوران وہ غلطیاں ہی کیوں نہ کریں۔ بچے کی پوری نشوونما میں مدد کرنے کا مطلب ہے کھیل کود، تخلیقی صلاحیتوں اور آرام کے لیے وقت دینا اور یہ سمجھنا کہ یہ آسائشیں نہیں ہیں بلکہ صحت مند بچپن کے لیے لازمی ہیں۔

پھر آخر میں بچوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں ابتدائی طور پر تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں نہ صرف آلات کو استعمال کرنے کا طریقہ پتا ہونا چاہیے بلکہ اس کے بارے میں احتیاط سے سوچنا چاہیے کہ وہ آن لائن کیا دیکھتے ہیں۔

انہیں سوالات پوچھنا سیکھنا چاہیے، یہ سمجھنا چاہیے کہ الگورتھم کیسے کام کرتے ہیں جبکہ انہیں یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ جب انٹرنیٹ نقصان دہ یا منفی محسوس ہو تو اس سے پُراعتماد انداز میں دوری کیسے اختیار کرنی ہے۔

ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے پنجرے نہیں بنانے چاہئیں، خواہ وہ ڈیجیٹل ہوں یا دیگر۔ اس کے بجائے ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہیے جو چیلنج اور دیکھ بھال، نظم و ضبط اور بے ساختگی، تنہائی اور تعلق دونوں پیش کرے۔

کتابوں اور اسکرینز، اسکول اور گلی کے درمیان، توازن، گفتگو اور سوچ سمجھ کر ڈیزائن کردہ ماحول بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ یہی وہ ماحول ہے کہ جہاں ہم یہ سمجھنا شروع کر سکتے ہیں کہ بچوں کے لیے حقیقی حفاظت کا کیا مطلب ہے جو بچوں کو نہ صرف محفوظ رہنے کے لیے بلکہ پوری دانشمندی سے زندگی گزارنے کے لیے تیار کرتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عائشہ ناز انصاری

لکھاری آغا خان یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ، کراچی میں ریسرچ اسپیشلسٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025