وہ دن جب کٹھمنڈو جل اٹھا!

سوشل میڈیا پر پابندی پر نیپال کے نوجوان کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے لیکن حالات جلد ہی قابو سے باہر ہوگئے اور چند مخصوص لوگوں نے ان کی تحریک کو ہائی جیک کرلیا۔
شائع September 12, 2025

8 ستمبر 2025ء کا ہفتہ کانتی پور ٹیلی ویژن میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے آر سی گوتم کے لیے کسی طور غیرمعمولی نہیں تھا۔ دو دہائیوں تک اسٹیشن میں ملازمت کے دوران انہوں نے سڑکوں پر متعدد مظاہرے دیکھے، خطرناک سیاسی صورت حال کا سامنا کیا، خانہ جنگی دیکھی، فائرنگ کے واقعات، پُرتشدد حالات، حتیٰ کہ چینل کے ہیڈکوارٹر پر حملہ بھی دیکھا۔ لیکن 9 ستمبر کو جو کچھ ہوا، وہ ان کے لیے قدرے مختلف تھا۔

انہوں نے فون پر مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ کتنے لوگوں نے ہمارے اسٹیشن پر دھاوا بولا۔ یہ سب بہت اچانک ہوا‘۔

مشتعل ہجوم نے منگل کو کانتی پور ٹی وی کی عمارت میں گھس کر احاطے میں موجود تین عمارتوں کو آگ لگادی جبکہ درجن بھر موٹر سائیکلز اور درجن سے زائد گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا۔ یہ اسٹیشن اُن سیکڑوں عمارتوں اور گھروں میں سے ایک تھا جو نیپال میں ’جین زی‘ کے مظاہروں کے نتیجے میں حملے کی زد میں آیا جو 8 ستمبر کو تیزی سے بےقابو ہوئے۔

لوگ 10 ستمبر 2025ء کو کٹھمنڈو میں سپریم کورٹ کی جلی ہوئی عمارت کے سامنے کھڑے ہیں— تصویر: اے ایف پی
لوگ 10 ستمبر 2025ء کو کٹھمنڈو میں سپریم کورٹ کی جلی ہوئی عمارت کے سامنے کھڑے ہیں— تصویر: اے ایف پی

سوشل میڈیا پر حالیہ پابندی کی وجہ سے مشتعل مظاہرین بدعنوانی اور اقربا پروری کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ہر روز تقریباً 2 ہزار نیپالی کام کے سلسلے میں خلیجی ممالک، ملائیشیا اور دیگر ممالک میں منتقل ہو رہے ہیں جبکہ نیپال ترسیلاتِ زر کی معیشت پر منحصر ہے، سیاستدان اور رہنماؤں کے بچوں کاطرزِ زندگی شاہانہ ہے، یہی وہ عوامل ہیں جن پر سوشل میڈیا پر جین زی کے نوجوان تنقید کررہے تھے۔

جب پیر کو مظاہرین سڑکوں پر آئے تو توقع تھی کہ وہ پُرامن رہیں گے۔ ابتدائی طور پر وہ موسیقی پر رقص کررہے تھے جبکہ تحریک کی حمایت میں چند مقامی مشہور شخصیات نے بھی شرکت کی۔ لیکن حالات تب تیزی سے بےقابو ہونے لگے کہ جب ہجوم میں موجود چند بڑی عمر کے افراد نے پارلیمنٹ کی عمارت کو نشانہ بنایا۔

یوں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی۔ اس کے بعد کٹھمنڈو کے چیف ڈسٹرکٹ آفیسر نے فائر کھولنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں 22 مظاہرین ہلاک ہوئے۔ اموات کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا۔ ان میں سے چند ہلاک مظاہرین نے اسکول کے یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔ 10 سمتبر تک رپورٹ کے مطابق 30 افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ مظاہروں میں زخمی ہونے والے ایک ہزار سے زائد افراد ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

لیکن کہا جارہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد جتنی بتائی جارہی ہے، اس سے کئی زیادہ ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اسی طرح کے واقعات میں کئی لوگ لاپتا بھی ہوئے۔

کٹھمنڈو میں جہنم کا منظر

9 ستمبر کو تشدد میں اس وقت اضافہ ہوا کہ جب آتش زنی کرنے والے گروہ سڑکوں پر نمودار ہوئے جنہوں نے وزرا کی نجی رہائش گاہوں اور حکومت کے قریب سمجھے جانے والے کاروباری اداروں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا اور نذرِ آتش کیا۔ وزارتی کوارٹرز، سرکاری عمارتیں، پولیس اسٹیشنز، سپریم کورٹ اور ملک کا اہم انتظامی بلاک ’سنگھا دربار‘ آگ کی زد میں آئے۔

منگل کو کٹھمنڈو جل اُٹھا کہ جہاں اشتعال کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ فضا میں دھواں ہی دھواں تھا جس میں سانس لینا دوبھر تھا۔

جب دارالحکومت کے شمال میں واقع بدھانیلکانتھا کے علاقے میں جہاں میں رہتی ہوں، دھوئیں کے بادل چھانے لگے اور فوج کے ہیلی کاپٹرز آسمان پر اڑتے نظر آئے تو سابق رپورٹر کی حیثیت سے میری پرانی عادت نے مجھے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا۔

10 ستمبر 2025ء کو کٹھمنڈو میں مظاہرین کی جانب سے آگ لگانے کے ایک دن بعد، نیپال کی مشہور ریٹیل چین بھٹ بھٹینی کی جلتی ہوئی سپر مارکیٹ کی عمارت سے دھواں اٹھ رہا ہے جبکہ ایک فوجی اہلکار سڑک پر گشت کر رہا ہے—تصویر: اے ایف پی
10 ستمبر 2025ء کو کٹھمنڈو میں مظاہرین کی جانب سے آگ لگانے کے ایک دن بعد، نیپال کی مشہور ریٹیل چین بھٹ بھٹینی کی جلتی ہوئی سپر مارکیٹ کی عمارت سے دھواں اٹھ رہا ہے جبکہ ایک فوجی اہلکار سڑک پر گشت کر رہا ہے—تصویر: اے ایف پی

سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا اور ان کی اہلیہ ارجو دیوبا جوکہ خود بھی سابق وزیر رہ چکی ہیں، دونوں کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کیا گیا۔ ان کی رہائش گاہ سے دھوئیں کے بادل اٹھے جو شیواپور پہاڑی تک گئے۔ ہیلی کاپٹرز نے سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو ایئر لفٹ کرنے کی کوشش میں کئی چکر لگائے جنہیں ہجوم نے زد و کوب کیا اور وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ گولیوں کی آوازیں سنی گئیں اور ہمسایوں نے بتایا کہ دو افراد مارے گئے ہیں جبکہ ان کی اموات کی تصدیق نہیں ہوئی۔ شیر بہادر دیوبا اور ارجو دیوبا کو زخمی حالت میں گھر کے پچھلے دروازے سے ریسکیو کیا گیا۔

میرے گھر کے پار سڑک پر، دھواں آسمان کی طرف اٹھ رہا تھا اور ہوا میں آگ کی بُو تھی۔

جب میں جائے وقوع پر پہنچی تو آتشزدگی کرنے والے جا چکے تھے اور عوام کو سابق صدر بدھیا بھنڈاری کے گھر تک کھلی رسائی حاصل تھی جوکہ شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔ باہر ہجوم جمع تھا جو آپس میں باتیں کرنے میں مصروف تھا۔ چند باتیں میری سماعت سے بھی ٹکرائیں۔

’تم نے کیا لیا؟‘

’مجھے کچھ نہیں مل سکا‘۔

وہاں 2 لاکھ 40 ہزار نیپالی روپے تھے اور کچھ امریکی ڈالر بھی۔۔۔ کچھ لوگوں نے وہ لے لیے’۔

’کوئی اپنے ساتھ گدا لے گیا‘۔

’میں نے صرف کیک اٹھایا‘۔

شام کو چہل قدمی کرتے ہوئے میں بدھیا بھنڈاری کے گھر سے گزرتے ہوئے اکثر جائزہ لیتی کہ سابق صدر کی رہائش گاہ پر مسلح گارڈز چوکیوں پر تعینات ہوتے تھے۔ منگل کو جب گھر جل رہا تھا اور مکینوں کو نکال لیا گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ گارڈز اب بھی گیٹ کے باہر موجود تھے اور انتظار کررہے تھے۔

انہوں نے کہا، ’یہ ہماری ڈیوٹی ہے‘۔

پورے کٹھمنڈو کی حالت بدھیا بھنڈاری کی رہائش گاہ سے مختلف نہ تھی کیونکہ آتش زنی کرنے والے گروہ، ایک محلے سے دوسرے محلے میں جاتے رہے اور وزرا اور منتظمین کے گھروں کو نذرِ آتش کرکے لوٹ مار کرتے، انہیں مارتے پیٹتے اور انہیں برہنہ کرتے رہے۔

9 ستمبر کو کٹھمنڈو جہنم کا منظر پیش کررہا تھا کیونکہ پولیس نے سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر فائر بریگیڈ کو حرکت کرنے سے روکا ہوا تھا۔ اگر وہ آگ بجھانے کے لیے متحرک بھی ہو جاتے تو وہ اتنی بڑی نوعیت کی آگ سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کسی کو بھی اتنی بڑی سطح پر بدامنی پھیلنے اور پُرتشدد صورت حال کا اندازہ نہیں تھا۔

نیند کی کمی

8 ستمبر کی ہلاکتوں کے بعد زیادہ تر نیپالی ٹھیک سے سو نہیں پائے ہیں۔ زیادہ تر لوگ یا تو بہت غصے میں ہیں، بہت اداس ہیں، تھکے ہوئے ہیں یا یہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خوفزدہ ہیں۔ پہلے تو اشتعال براہ راست کے پی اولی کی حکومت اور حکمران اتحاد کے لیے تھا جنہوں نے نہتے مظاہرین کو قتل کیا۔ لیکن اگلے دن تک لوگوں کے جذبات الجھن کا شکار ہوچکے تھے۔

اب تک کوئی نہیں جانتا کہ آتش زنی کرنے والوں کی پشت پناہی کون کر رہا تھا یا ایسا لگتا ہے کہ وہ مخصوص گھروں اور اداروں کو اس طرح نشانہ بنا رہے کہ گویا وہ کسی فہرست پر عمل درآمد کررہے ہوں یعنی یہ حملے پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہوتے دکھائی دیے۔

موٹرسائیکلز پر سوار افراد گھر گھر جا رہے تھے، آگ لگا رہے تھے اور ایسے زور زور سے نعرے لگاتے جیسے وہ جنگ میں فتح کا جشن منارہے ہوں۔ ان میں سے کچھ کے پاس بندوقیں تھیں جو انہوں نے اُن تھانوں سے چرائی تھیں جہاں انہوں نے دھاوا بولا تھا۔ مہاراج گنج چکرپاتھ وہ محلہ ہے جہاں میں پلی بڑھی، وہاں ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار کو ہجوم نے تشدد کرکے ہلاک کر دیا۔ کچھ پولیس والوں کو فوج کے ہیلی کاپٹرز نے ریسکیو سلنگز کا استعمال کرتے ہوئے باہر نکالا۔

10 ستمبر 2025ء کو کٹھمنڈو میں مظاہرین کے ہاتھوں نذر آتش کیے جانے کے ایک دن بعد فضائی منظر میں فائر فائٹرز نیپال کی حکومت کی مرکزی انتظامی عمارت سنگھا دربار میں لگی آگ کو بجھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے—تصویر: اے ایف پی
10 ستمبر 2025ء کو کٹھمنڈو میں مظاہرین کے ہاتھوں نذر آتش کیے جانے کے ایک دن بعد فضائی منظر میں فائر فائٹرز نیپال کی حکومت کی مرکزی انتظامی عمارت سنگھا دربار میں لگی آگ کو بجھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے—تصویر: اے ایف پی

یہ وہ تھانہ تھا جہاں میں اور میرے اہل خانہ اپنی شکایات لے کر جاتے تھے۔

جب تک ’جین زی‘ جنہوں نے احتجاج کا آغاز کیا تھا، نے سوشل میڈیا پر پُرسکون رہنے کی اپیل کی اور فسادات کی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ قرار دیا، تب تک ملک کا بہت زیادہ نقصان ہو چکا تھا۔ ان کی کال کرپشن کے خلاف پُرامن احتجاج کی تھی۔ لیکن حالات ان کے قابو سے باہر ہوتے چلے گئے۔ ان کی تحریک کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔

جب 9 ستمبر کی شام نیپال کے آرمی چیف نے خطاب کیا تو لوگوں نے کسی حد تک سکھ کا سانس لیا کہ اگر حالات مزید نہ بگڑے تو کم از کم اب ہنگامہ آرائی رُک جائے گی۔ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں سخت احکامات کے ساتھ سیکیورٹی کی صورت حال بہتر بنانے کی بات کی تھی۔

آرمی کے ٹرکس شہر میں گشت کرتے نظر آئے لیکن پھر بھی عوام نے خوف کے باعث آنکھوں میں رات کاٹی۔ کچھ مقامات پر نامعلوم گروہ نجی رہائش گاہوں میں گھس گئے جبکہ کچھ گھروں میں لوٹ مار کی اطلاعات ملیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں بڑی تعداد میں قیدی فرار ہوئے۔

جب شہر تباہی کا منظر پیش کررہا تھا، میں اپنے ساتھی نوجوان صحافی کو میسج کررہی تھی جس کا تعلق کٹھمنڈو سے نہیں لیکن وہ کام اور تعلیم کے سلسلے میں دارالحکومت میں رہائش پذیر ہے۔ اس نے کہا کہ وہ خوفزدہ ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں شاید رات میں احتیاط کے طور پر اپنے تکیے کے نیچے قینچی رکھ کر سوؤں گی۔ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ مردوں کے گھروں میں گھسنے اور خواتین کا ریپ کرنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کی تصدیق بعدازاں فوج نے اپنے اعلامیے میں بھی کی۔

میڈیا خانہ جنگی کا شکار

منگل کو کانتی پور ٹی وی پر حملے کے دوران، میرے سابق کولیگ آر سی گوتم فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن تادمِ تحریر وہ فوج کے لاک ڈاؤن اور کرفیو کی وجہ سے گھر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ اس کے بجائے وہ قریب ہی کسی جاننے والے کے پاس پناہ لیے ہوئے ہیں۔

انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’اب کیا ہوگا، دیدی؟ میں بچوں کو کیسے کھلاؤں گا؟ میں انہیں کیسے تعلیم دوں گا؟ میں جس دفتر میں کام کرتا تھا وہ تو ختم ہو گیا ہے‘۔ میرے پاس آر سی گوتم کو دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا لیکن میں نے ان کے ساتھ اپنے سابقہ دفتر کو کھو دینے پر سوگ منایا جو اُن بہت سی دیگر عناصر میں سے ایک تھا جنہیں دو دنوں کے دوران ہم نے کھو دیا۔

کانتی پور ٹی وی نجی میڈیا کی سب سے بڑی میراث ہے جوکہ اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ اگرچہ میڈیا کمپنیز اپنے مالکان اور مشتہرین سے متاثر ہوتے ہیں لیکن ان کا زیادہ تر انحصار ان صحافیوں پر ہوتا ہے جو میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ غیر جانبدار لوگ جو اپنی زندگی صحافت کو دے دیتے ہیں تاکہ وہ اعلیٰ معیار کو برقرار رکھ سکیں۔ کانتی پور میڈیا گروپ میں کئی سالوں کے دوران اس طرح کے بہت سے صحافیوں نے کام کیا جنہوں نے اس وقت سخت مؤقف اختیار کیا کہ جب قوم کو ان کی ضرورت تھی۔

ایک آدمی ایک گرافٹی کے پاس سے گزر رہا ہے جس پر لکھا ہے ’قاتل کو پھانسی دو!‘— تصویر: رائٹرز
ایک آدمی ایک گرافٹی کے پاس سے گزر رہا ہے جس پر لکھا ہے ’قاتل کو پھانسی دو!‘— تصویر: رائٹرز

اپریل 2006ء کو سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کے دوران، سیکڑوں لوگ ٹنکونے کے کانتی پور کمپلیکس کے باہر جمع ہوئے تھے اور انہوں نے تالیاں بجا کر مؤثر صحافت پر شکریہ ادا کیا تھا۔ ہم میں سے جو لوگ اس وقت وہاں کام کرتے تھے وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے اور ہم میں سے کچھ کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔

لیکن اب اسی ادارے کے ساتھ بالکل مختلف سلوک کیا گیا۔ کانتی پور میں کام کرنے والے بہت سے صحافیوں کے لیے، ان کا دفتر ان کا گھر تھا جہاں سے انہوں نے دنیا میں مقالے شروع کیے، سخت سوالات پوچھے اور نیپالی لوگوں کو سوچنےکی ترغیب دی۔ کانتی پور اسٹیشن پر حملہ نیپال کی تاریخ میں ایک پریشان کن موڑ کا اشارہ کرتا ہے جہاں حقیقی صحافت کے عزم کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

یقینی طور پر کچھ صحافی شارٹ کٹس لیتے ہیں اور میڈیا کو کاروبار کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے لیکن یہاں ایسے صحافی بھی ہیں جو سچ بولنے پر یقین رکھتے ہیں۔ آزاد اور منصفانہ صحافت جمہوریت کی بنیاد ہے اور کانتی پور جیسے میڈیا ہاؤس کو نذرِآتش کرنا، اس دور کے خاتمے کا اشارہ کرتا ہے کہ جہاں آزاد میڈیا پر بھروسہ کیا جاتا تھا۔

سوالات کی بھرمار

اگر یہ تحریک جس چیز کا مطالبہ کر رہی ہے، ان میں سے ایک آزادی اظہار رائے کی بحالی ہے تو میڈیا ہاؤس کو نشانہ بنانا ایک علامتی تضاد ہے۔

جو ہمیں پھر اسی اہم سوال کی جانب واپس لاتا ہے۔ نیپال میں اب کیا ہوگا؟ اس حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ کیا اس معاملے میں بیرونی عناصر ملوث ہیں؟ کیا اس کے پیچھے خفیہ سیاسی گروہ ہیں جو اپنے مفادات کے لیے کام کررہے ہیں؟ فسادات کس نے بھڑکائے؟ اب نیپال کی قیادت کس کو کرنی چاہیے؟

10 ستمبر کا پورا دن جین زی کے نوجوانوں نے اس بات پر بحث کرنے میں گزارا کہ وہ کس کو عبوری حکمران منتخب کریں۔ لیکن قانونی پیچیدگیوں اور آپس میں اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تھے جبکہ قوم منتظر تھی۔ نیپال کے عوام کے ذہنوں میں لاتعداد سوالات ہیں۔ اگرچہ جوابات تو بہت ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی جواب واضح طور پر صحیح یا غلط نہیں ہے۔

پس منظر میں آتشزدگی کا نشانہ بننے والا ہلٹن کٹھمنڈو ہوٹل سے دھواں اٹھ رہا ہے جبکہ ایک سپاہی کے ساتھ قیدی سامان لے کر دلی بازار جیل کی جانب جا رہے ہیں۔ احتجاج کے بعد مفرور قیدیوں کو نیپالی فوج نے جیل بھیجا— تصویر: رائٹرز
پس منظر میں آتشزدگی کا نشانہ بننے والا ہلٹن کٹھمنڈو ہوٹل سے دھواں اٹھ رہا ہے جبکہ ایک سپاہی کے ساتھ قیدی سامان لے کر دلی بازار جیل کی جانب جا رہے ہیں۔ احتجاج کے بعد مفرور قیدیوں کو نیپالی فوج نے جیل بھیجا— تصویر: رائٹرز

فی الوقت ملک کی سابق چیف جسٹس سُشیلا کرکی نے نوجوان مظاہرین کی درخواست پر عبوری حکومت کی قیادت کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ انہوں نے بھارتی چینل سی این این نیوز 18 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’جب انہوں نے مجھ سے درخواست کی تو میں نے اسے قبول کرلیا‘۔ نوجوان مظاہرین کے نمائندگان نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے بعد میں فوجی حکام سے ملاقات کی اور سشیلا کرکی کو عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے اپنے انتخاب کے طور پر تجویز کیا۔

بین الاقوامی میڈیا اور دوست جاننا چاہتے ہیں کہ نیپال میں کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں خیریت پوچھنے والوں اور متجسس لوگوں کے لاتعداد پیغامات موصول ہورہے ہیں لیکن ہمارے لوگ اس وقت بہت تھک چکے ہیں۔ ہم نے گھروں کو جلتے دیکھا، ہم اپنے پیاروں کی اچانک موت کے شاہد بنے، ہمارے ساتھیوں کو گولیاں ماری گئیں، مارا پیٹا گیا اور ہمارے دوستوں اور خاندانوں کو لوٹا گیا۔ ہم نے لوگوں کو بندوقوں اور خکوریاں (ایک روایتی چاقو جو نیپال کا قومی ہتھیار بھی ہے) کا استعمال کرتے ہوئے، معصوموں کو دھمکاتے ہوئے بھی دیکھا۔

یہ کون لوگ ہیں؟ انہیں کون متحرک کر رہا ہے؟ سابق وزرا کہاں بھاگ گئے؟ وہ کہاں ہیں جو بہ حفاظت فرار ہو کر روپوش ہو گئے؟ فوجی بیرکوں میں کس کو پناہ دی جا رہی ہے؟ فوج کے اقدام سے کیا صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے؟ قوم اپنا نیا لیڈر کس کو چنے گی؟ کیا صدر فوری انتخابات کا مطالبہ کریں گے؟ کیا آئین میں ترمیم ہوگی؟ ان ماؤں کو کون تسلی دے گا جن کے بچے احتجاج میں مارے گئے؟ ان تمام لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی ہیں کیونکہ وہ جن عمارتوں میں کام کرتے تھے وہ اب ختم ہو چکی ہیں؟ سوالات کی بھرمار ہے۔

لیکن ابھی بس کچھ لمحے کے لیے ان سوالات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت نیپالی عوام کو آرام، مدد اور طاقت کی ضرورت ہے کہ جب یہ تمام افراتفری ختم اور حالات معمول پر آجائیں۔


ہیڈر: 8 ستمبر کو نیپال کے کٹھمنڈو میں بدعنوانی اور حکومت کے متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے دوران پارلیمنٹ کے داخلی دروازے کے قریب ایک گاڑی کے اوپر کھڑا مظاہرین میں شامل نوجوان جھنڈا لہرا رہا ہے— تصویر: رائٹرز


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

پراتیبھا تولادھر

لکھاری سابق صحافی ہیں جنہوں نے کانتی پور میڈیا گروپ یا کانتی پور ٹیلی ویژن کے ساتھ کام کیا ہے۔ حالیہ دنوں وہ نیپالی ٹائمز میں کالم نگار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔