ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی: پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کے درپیش دو بڑے چیلنجز

شائع October 13, 2025

اگرچہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)، پاکستان میں مختلف قسم کی مذہبی انتہا پسندی کی نمائندگی کرنے والے گروہ ہیں لیکن ان میں ایک چیز جو مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ پُرامن اور سخت گیر دونوں طرح کے ریاستی اقدامات انہیں روکنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

ٹی ٹی پی نے افغان طالبان اور عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس جیسا کہ القاعدہ کے ساتھ اتحاد کیا جبکہ اس نے حکومت کی جانب سے انہیں مرکزی دھارے میں لانے کی کوششوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس عمل کو ملک کے اندر اپنے نیٹ ورک کی تنظیم نو اور توسیع کے لیے استعمال کیا۔

دوسری جانب ٹی ایل پی جو کبھی ایک کالعدم انتہا پسند تنظیم ہوا کرتی تھی، جب چاہے اپنے کارکنان کو متحرک کرنے اور سڑکوں پر لے آتی ہے جبکہ اس عمل میں وہ ریاست کا استحصال کرتی اور اس کی رٹ کی خلاف ورزی کرتی ہے۔

جہاں دہشتگرد گروہ ٹی ٹی پی ریاست اور اس کی سیکیورٹی فورسز کا براہ راست مقابلہ کرتی ہے وہیں ٹی ایل پی بھیس بدل کر ریاست اور معاشرے کی مخالفت کررہی ہے۔ یہ ایسے بیانیے کے ذریعے کام کرتی ہے جو ریاستی عمل داری کو کمزور کرتا ہے، سفارتی تناؤ پیدا کرتا ہے اور پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

ٹی ایل پی ماضی میں بھی یورپی ممالک بالخصوص فرانس کے مقابلے میں اس طرح کا تناؤ پیدا کر چکی ہے۔ اس نے اب اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر مارچ کا اعلان، ایک ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب دو دہائیوں کی بداعتمادی کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات مستحکم ہو رہے ہیں۔

امریکی سفارتی مشن کو نشانہ بنانے والا کوئی بھی احتجاج ناگزیر طور پر امریکی اور پاکستانی سیکیورٹی حکام کے درمیان نومبر 1979ء کے واقعے کی یاد دلاتا ہے کہ جب اسلامی جمعیت طلبہ جوکہ اس وقت کی بنیاد پرست طلبہ تحریک تھی، نے جھوٹی افواہوں کی بنیاد پر اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا تھا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ مکہ میں مسجد الحرام پر حملے میں امریکا ملوث ہے۔

ایک دہائی بعد فروری 1989ء میں، اسلامی جمعیت طلبہ نے ایک بار پھر پُرتشدد احتجاج کا سہارا لیا اور اس بار یہ ایک متنازعہ ناول کے خلاف تھا۔

ٹی ایل پی میں وہی خطرناک صلاحیت موجود ہے جو کبھی اسلامی جمعیت طلبہ میں ہوا کرتی تھی۔ دونوں کو اپنے اپنے وقت میں، ریاستی اداروں کی ایک حد تک سرپرستی حاصل تھی۔ اس عنصر نے انہیں حوصلہ دیا کہ وہ ان کی حمایت کرنے والوں کی مقرر کردہ حدوں کی پامالی کریں اور خود کو خودمختار سمجھتے ہوئے، انہیں لگا کہ وہ ریاست کے ساتھ سودے بازی کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

ریاست کے فیصلے مبہم رہے ہیں۔ یہ اب بھی حیران کُن ہے کہ ریاست اکثر شدت پسند گروہوں کو کیوں تسلیم کرتی ہے اور یہ دعویٰ کیوں کرتی ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کیے بغیر امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بعض اوقات خاص طور پر سیاسی عدم استحکام کے دوران، حکومت نے ان گروہوں کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی ہے یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ خفیہ طور پر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ اس کا اصل مقصد صرف سیاسی مخالفین کو کمزور یا کنٹرول کرنا رہا ہے۔

اگرچہ حکومت ٹی ٹی پی کو ایک دشمن کے طور پر دیکھتی ہے لیکن ماضی میں، اس نے ان کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کیا کہ جس طرح اس نے پنجاب اور کراچی میں ٹی ایل پی کے ساتھ برتا جہاں کبھی انہیں منانے کی کوشش کی گئی تو کبھی ان کے مطالبات مانے گئے۔ لیکن اب ریاست نے اس روش کو ترک کر دیا ہے اور وہ خطرے سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، پھر چاہے اسے اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے حال ہی میں کابل کو خبردار کیا تھا کہ وہ فیصلہ کرے کہ انہیں پاکستان کا ساتھ دینا ہے یا کالعدم ٹی ٹی پی کا۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ شدت پسند افغانستان سے آ کر پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کر رہے ہیں۔ یہ تنبیہ انہوں نے بنوں کے دورے کے دوران کی تھی کہ جہاں ان کے ہمراہ آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور پشاور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عمر بخاری بھی موجود تھے۔ یہ دورہ خیبرپختونخوا میں جھڑپوں کے بعد کیا گیا تھا جن میں 19 پاکستانی فوجی شہید جبکہ 45 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔

حالیہ چند ماہ میں پاکستان نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ پاکستان مخالف شدت پسند گروہوں جیسے ٹی ٹی پی، حافظ گل بہادر گروپ اور بلوچ باغی رہنماؤں کی حمایت کا سلسلہ روکے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان نے سفارتی بات چیت کے ساتھ ساتھ سرحد پار ہونے والی شدت پسند سرگرمیوں کو عوام کے سامنے لا کر دباؤ بڑھانے کی حکمتِ عملی اپنائی۔

حال ہی میں افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں اور متحرک اہداف پر کیے گئے پاکستان کے حملے جو طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر متقی کے دورہ بھارت کے دوران ہوئے، ایک پیغام کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔

ایک پیغام جہاں ٹی ٹی پی کو دیا گیا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشتگردی کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا وہیں دوسری جانب طالبان قیادت کو بھی یہ پیغام دیا گیا کہ وہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کرسکتے اور انہیں پاکستان کے خدشات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اس پیش رفت نے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے اس یقین کو بھی مضبوط کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کو بھارت کی مستقل سرپرستی حاصل ہے۔

ٹی ٹی پی کا مسئلہ اس لیے مزید پیچیدہ ہو چکا ہے کیونکہ اس کے افغان طالبان سے گہرے تعلقات ہیں۔ افغان طالبان، ٹی ٹی پی سے مکمل طور پر لاتعلقی کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ اسے ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسے کبھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ افغان طالبان کو دیکھا کرتی تھی یعنی ایک ایسی پراکسی کے طور پر جسے مشکل سرحدی حالات میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

طالبان قیادت کے ایک دھڑے کا ماننا ہے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی سے اپنے تعلقات منقطع کر لیتے ہیں تو پاکستان افغانستان سے، خاص طور پر تجارت، سرحدی انتظام اور سب سے اہم دیرینہ سرحدی حد بندی کے تنازع پر مزید جارحانہ حکمت عملی اپنائے گا۔ واضح رہےکہ طالبان آج بھی ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان ایک متنازع سرحد سمجھتے ہیں۔

ایسے حالات میں پاکستان کے پاس زیادہ انتخاب نہیں ہیں اور سب سے جلدی یہی حکمت عملی اپنائی جا سکتی تھی کہ وہ طاقت کے استعمال پر انحصار کرے لیکن اس سے افغانستان مشتعل ہوسکتا ہے۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کی وطن واپسی کے عمل کے بعد سے افغانستان میں پاکستان کی عوامی حمایت پہلے ہی کمزور ہوچکی ہے۔

ظاہر ہے کہ ٹی ایل پی، ٹی ٹی پی کی طرح مسلح گروہ نہیں ہے جس سے نمٹنے کے لیے الگ طریقہ کار درکار ہے۔ لیکن ٹی ایل پی کے پاس ملک میں امن و امان خراب کرنے، قومی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے اور افراتفری پھیلانے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے جس کے منفی اثرات ہیں جو پاکستان کی معیشت، سیاسی استحکام اور غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کرنے کے لیے ضروری پاکستان کے تشخص کے لیے نقصان دہ ہے۔

ٹی ایل پی کے مسئلے پر مختلف طریقوں سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر ضرورت ہو تو اسے دوبارہ کالعدم قرار دے دیا جائے، اس کے مدارس اور مساجد کو ریاستی کنٹرول میں لیا جائے جیسے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور ایف اے ٹی ایف کے دباؤ میں پابندی کے بعد جماعت الدعوٰۃ کے اثاثوں کے ساتھ کیا گیا تھا جبکہ اس سلسلے میں سب سے اہم قدم یہ ہوگا کہ ٹی ایل پی کی مساجد میں معتدل امام مقرر کیے جائیں۔

لیکن یہ ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ گزشتہ 40 برس یا اس سے زائد عرصے میں ملک میں جو مذہبی شدت پسندی پروان چڑھی ہے، اس نے پاکستان میں بہت کم معتدل یا معقول مذہبی علما پیدا کیے ہیں۔ جو موجود ہیں، ان میں سے بہت سے پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں جبکہ باقی بھی پاکستان چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد عامر رانا

لکھاری سیکیورٹی تجزیہ نگار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025