• KHI: Clear 20.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.8°C
  • ISB: Cloudy 11.5°C
  • KHI: Clear 20.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.8°C
  • ISB: Cloudy 11.5°C

پنجاب میں غریبوں کے گھروں کی تعمیر

گھروں کی قلت کو دور کرنےکے لئے حکومت پنجاب نے اپنی چھت اپنا گھر اسکیم متعارف کرائی ہے۔ جس کا ہدف کم آمدنی والے محنت کش طبقات ہیں۔ یہ افراد یا تو بوسیدہ گھروں کو کرائے پر لے کر یا کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور تھے۔
شائع October 29, 2025

گزشتہ دنوں پنجاب کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ گاؤں جس کو میں اپنا آبائی گاؤں بھی کہہ سکتا ہوں وہاں بھی گیا۔ بارانی خطہ ہونے کی وجہ سے روز گار کی تلاش میں ہمارے والد کی طرح اب بیشتر رشتہ دار گاوں چھوڑ چکے ہیں۔ اور ان کا تعلق بھی گاوں سے واجبی سا ہی رہ گیا ہے۔ گاوں کے راستے میں اپنے رشتہ دار کے گھر کی طرف جاتے ہوئے ایک قطار میں ان محنت کشوں کے گھریا یوں کہیں جھونپڑے تھے جوکہ پٹے پر زمین لے کر اس پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ بارانی خطہ ہونے کی وجہ سے وہ ہرسال محض اتنی ہی کمائی کرپاتے تھے جس میں وہ اپنے لئے سال بھر کا اجناج اکٹھا کر سکتے تھے۔ روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ان کے مرد شہروں کا رخ کرتے جہاں وہ محنت مزدوری کرتے۔

ہمارے گاؤں کے انہی محنت کشوں میں سے ایک عامر بھی تھا جس سے میری شناسائی بچپن سے تھی۔ عامر کے پاس گاؤں میں زمین تو موجود تھی مگر اس کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ اپنا ایک محفوظ سائبان بنا سکے، زندگی کا ایک طویل وقت جھونپڑے میں ہی گزر گیا۔ مگر اب اسے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی اپنی چھت اپنا گھر اسکیم سے گھر بنانے کے لئے پندرہ لاکھ روپے کا قرضہ ملا ہے۔ مستری کے ساتھ خود مزدوری کر کے پیسے بچائے اور اب ایک پختہ گھرکا مالک بن گیا ہے۔ جس سے اس کے بچوں میں تحفظ کا احساس بڑھا ہے اور موسمی سختیوں سے بھی یہ پختہ گھر اس کو محفوظ رکھے گا۔ اس کا کہنا تھاکہ قرض بغیر کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی سفارش کے مل رہا ہے۔

میرا کزن جو کہ کئی مرتبہ یورپ جانے کی کوشش کے بعد سالوں سے بے روز گار تھا۔ اس نے بھی تعمیرات میں استعمال ہونے والے میٹریل کا کام شروع کردیا تھا۔ اس کے مطابق ان چھوٹے گھروں کی تعمیر سے اس کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ سریا، سیمنٹ، کریش اور اینٹوں کی طلب بڑھ گئی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اب ان کے لئے گاوں ہی لندن امریکا ہے۔

گاؤں سے رشتہ داروں سے مل کر لاہور پہنچا جہاں بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ اور ہم کراچی والوں کے لئے یہ صورتحال بھی عجیب تھی کہ بارش کے باوجود لاہوری اپنے اپنے روز مرہ کے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں میں نے میزبان کو گاؤں میں گھروں کی تعمیر کا احوال سنایا

میزبان نے بات سنی اور اپنے ڈرائیور کو مخاطب کیا یاسر تم نے بھی تو ابھی اپنے گھر کی تعمیر کی ہے۔ ڈرائیور نے بتایا کہ صاحب میں نے بھی حکومت پنجاب سے قرض لے کر اپنا نیا گھربنایا ہے۔ کئی سال پیسے پیسے جوڑ کر ایک پلاٹ لیا تھا۔اور اب سوچ رہا تھا کہ پھر پیسے جوڑ کر اس پر گھر بناوں گا۔ مگر بھلا ہو پنجاب حکومت کا جس نے قرض دے کر گھر بنانے میں مدد کی۔ لاہور میں جتنا گھر کا کرایہ دیتا تھا اتنی ہی قسط دیتا ہوں۔

میزبان کی باتیں سن کر موجودہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے والد میاں نواز شریف کی 1999میں متعارف کرائی گئی پاکستان ہاوسنگ اسکیم کا احوال بھی یاد آگیا۔ اس اسکیم کو ملک میں معاشی ترقی اور خوشحالی لانے کے لئے متعارف کرایا گیا تھا۔ مگر مارشل لاء لگنے کی وجہ سے ادھورا چھوڑ دیا گیا اور جو فلیٹس کسی حد تک بن چکے تھے ان کو فروخت کیا گیا۔ ایسوسی ایشن بلڈرز اینڈ ڈویلپرز آباد کے مطابق اس وقت ملک میں سالانہ 40 سے 50لاکھ گھروں کی قلت کا سامنہ ہوتا ہے۔ اور گھروں کی قلت کم آمدنی والے طبقات میں بہت زیادہ ہے۔ گھروں کی اس اسکیم سے معیشت کو کیا فائدہ ہوگا اس کا جائزہ لینے سے قبل اس اسکیم کے چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔

اپنی چھت اپنا گھر اسکیم

گھراور اپنی چھت انسانی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی انسانی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے اپنی چھت اپنا گھر اسکیم متعارف کرائی ہے۔

کم آمدنی والے افراد کے لئے محفوظ رہائش ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ دبائیوں سے شرح سود بلند ترین سطح پر ہونے کی وجہ سے لوگ نہ تو اپنے گھروں کی تعمیر کرسکتے ہیں اور نہ قرض لے کر گھروں کی ضروری مرمت کی جاسکتی ہے۔ جبکہ قرض کی شرائط بھی سخت ہونے کی وجہ سے کم آمدنی والے محنت کش طبقے کے لئے ایک باعزت رہائش مسئلہ بنتی جارہی تھی اور وہ کرائے پر بوسیدہ گھروں میں رہنے پر مجبور تھے۔ اس کے علاوہ تعمیراتی لاگت بھی لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی تھی۔

گھروں کی قلت کو دور کرنےکے لئے حکومت پنجاب نے اپنی چھت اپنا گھر اسکیم متعارف کرائی ہے۔ جس کا ہدف کم آمدنی والے محنت کش طبقات ہیں۔ یہ افراد یا تو بوسیدہ گھروں کو کرائے پر لے کر یا کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور تھے۔

گزشتہ سال اگست میں اپنا گھر اپنی چھت اسکیم کو متعارف کرایا گیا۔ جس میں روایتی قرض کے نظام کی جگہ آسان اور سود سے پاک فناسنگ اسکیم متعارف کرائی گئی ہے۔

اس اسکیم میں کوئی بھی جس کے شناختی کارڈ پر پنجاب کا پتہ ہو، اس کی ملکیت میں کم از کم پانچ مرلے شہری رہائشی زمین یا دس مرلے دیہی زمین ہو۔ وہ کسی قرض کا نادہندہ نہ ہو اور اس کا مجرمانہ ریکارڈ نہ ہو وہ پندرہ لاکھ روپے تک قرض گھر بنانے کے لئے لے سکتا ہے۔

اسکیم پر عمل درآمد

اپنی چھت اپنا گھر اسکیم کو متعارف کرائے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے۔ اس دوران صوبہ پنجاب کے تقریبا تمام اضلاع میں گھروں کی تعمیر کے لئے قرضوں کے اجراء کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اور اب تک حکومت پنجاب نے 124 ارب روپے کا قرض جاری کردیا ہے۔ ابتک ایک لاکھ سے زائد افراد کو قرضہ جاری ہوگیا ہے۔ جس میں سے 26 ہزار سے زائد مکانات کی تعمیرمکمل ہوگٹی ہے۔ 67 ہزارمکانات زیر تعمیر ہیں۔ حکومت پنجاب قرضوں کے اجرا اور گھروں کی تعمیر کے حوالے سے ضلع کی سطح پر نگرانی کررہی ہے۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ پورے پنجاب میں مساوی سطح پر کم لاگت کے گھروں کی تعمیر مکمل ہو۔ اپنے گھر بنانے کے لئے قرض لینے والوں میں 13 فیصد خواتین ہیں۔ اس میں 57فیصد شہری اور 43 فیصد دیہی علاقے شامل ہیں۔

روایتی بینکاری کے معیار اور سود سے پاک

جب میں یہ تحریر کر رہا تھا تو مجھےسال 2008 میں اپنی اسٹوری یاد آگئی جو کہ مجھے سرجانی ٹاون کے سماجی رہنما نذیر ساجد نے بتائی تھی اور اس اسٹوری کو کور کیا تھا۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں کم آمدنی والوں کے لئے سرجانی کی رہائشی اسکیم متعارف کرائی گئی تھی۔ جس میں کم آمدنی والے افراد کو ساٹھ گز کے پلاٹس پر گھر تعمیر کر کے دینا تھے۔ گھروں کی بکنگ کرانے والوں کو ہاؤس بلڈنگ نے تیس ہزار روپے کا قرضہ بھی دیا تھا۔ مگر ٹھیکیدار گھروں کو نامکمل چھوڑ کر چلا گیا اور بکنگ کرانے والے افراد نامکمل گھروں پر رہنے میں مجبور تھے۔ اسی صورتحال میں قرض پر سود کی رقم بڑھتی رہی اور بڑھتےبڑھتے تیس ہزار کے قرض پرسود ایک لاکھ روپے سے تجاوز کر گیا۔ جس کی ادائیگی کی سکت ان غریبوں میں نہ تھی اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے ان کے گھروں کی نیلامی شروع کردی تھی۔ گھر چھن جانے کے خوف سےیہ محنت کش بیماریوں کا بھی شکار ہورہے تھے۔ اس اسٹوری کے بعد ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کو ان گھروں کی نیلامی سے روک دیا گیا۔ یعنی گھر کے لئےسود سے کس قدر مشکلات ہوسکتی ہیں۔

اپنی چھت اپنا گھر قرض اسکیم کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے۔ جس میں ایسے افراد جو کہ بینکاری کے قرض کے معیار پر پورے نہ اترتے ہوں گھروں کی تعمیر کا قرضہ دیا جائے۔ روایتی بینکوں میں گھر کی تعمیر کے قرض کے لئے سب سے پہلی شرط دو سے تین سال کی ملازمت یا کاروبار، ماہانہ آمدنی کی کم از کم شرح 50ہزار روپے یا اس سے زائد، جائیداد بینک کے نام رہن رکھنا اور بینک کواس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ آمدنی کے مطابق درخواست گزار کو کتنا قرض دینا ہے۔ روایتی بینک قرض دیں یا نہ دیں مگر اس درخواست پر ہزاروں روپے پرسیسنگ فیس بھی ادا کرنا ہوتی ہے۔ روز مرہ اجرت کمانے والا دیہاڑی دار محنت کش ان شرائط کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

یعنی یہ اسکیم ان افراد کے لئے بھی ہے جو عام بینکاری کے معیارات کے مطابق قرض کے اہل قرار نہیں پاتے ہیں۔

اس اسکیم میں بینکوں کی طرح کا سود بھی نہیں ہے۔ بینکوں کے قرض پرسود میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی بھی وقت قرض لینے والے کی ماہانہ قسط میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مگر اس اسکیم میں سود کا تصور ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے قرض لینے والوں کی ماہانہ قسط یکساں رہتی ہے۔

اس اسکیم کی سب سے اہم بات بلاسودی قرضہ اور اضافی چارجز کا نہ ہونا ہے۔ پندرہ لاکھ روپے کا قرض نو سال میں واپس کرنا ہے وہ بھی بغیر کسی سود کے اس طرح زیادہ سے زیادہ ماہانہ قسط تقریبا 14000روپے بنتی ہے۔ یہ رقم نہ صرف ماہانہ کرائے سے مساوی یا کم ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کا خواب دیکھنے والے محنت کشوں کو سود کی مد میں بھی ایک بڑی بچت فراہم کرتی ہے۔ اگر اس قرض پر سود کو شامل کرلیا جائے تو یہی قسط 23 ہزار روپے سے تجاوز کرجائے گی۔ اس طرح صرف ماہانہ قسط کی مد میں نو ہزار روپے کی نمایاں بچت ہے۔ اور قرض کی مدت ختم ہونے پر 15لاکھ روپے کے قرض کے بدلے تقریبا 25 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ یعنی تقریبا دس لاکھ روپے کی بچت ہورہی ہے۔

معیار زندگی میں اضافہ

دنیا بھر میں محفوظ اور ذاتی رہائش کو انسانی بنیادی حقوق مانا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 38 میں ہاؤسنگ کو بنیادی انسانی حق مانا گیا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے سسٹین ایبلیٹی ڈویلپمنٹ گولز میں بھی محفوظ، افورڈایبل ہاؤسنگ اہم انسانی ضرورت تسلیم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں نےخود اپنے گاؤں میں محنت کشوں کے گھروں کی سابقہ اور حالیہ حالت کا جائزہ لیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر کسی فرد کو معیاری رہائش مل جائے تو اس میں احساس تحفظ، احساس عزت نفس اجاگر ہوتا ہے۔ اپنی ملکیت میں گھر ہونے سے صفائی ستھرائی کی سہولت، صاف پانی کی دستیابی اور نکاسی آب کی صورتحال بھی بہتر ہوتی ہے۔ جس سے صحت میں بہتری آتی ہے۔

اپنا محفوظ گھر موسمی سختیوں سے بھی بچاتا ہے۔ جس سے گھر کے افراد کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں بیماری میں کمی ہوتی ہے۔ جو کہ علاج پر خرچہ کم کرنے کے ساتھ ساتھ یومیہ اجرت کمانے والے فرد کو کام کے لئے زیادہ دستیباب رہنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔

معاشی سرگرمیوں میں اضافہ اور روز گار

معیشت کو چلانے کے لئے تعمیراتی صنعت کا اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ یہ معیشت میں روز گار کے مواقع پیدا کرنے کے علاوہ معاشی سرگرمیوں کو بڑھاتا ہے۔ جس سے معاشرے میں اثاثوں کی تشکیل بھی ہوتی ہے۔

برصغیر میں مسلم باد شاہوں کی جانب سے بنوائی گئی تعمیرات نہ صرف ان کے جمالیاتی ذوق کا آئینہ تھیں بلکہ اس کے زریعے مقامی معیشت اور امن کے زمانے میں سپاہ کو مصروف رکھنے کا ایک ذریعہ بھی تھیں۔ مغلوں کی بعض تعمیرات کی وجہ عام طور پر سمجھ نہیں آتی ہے مگر اس کی اصل وجہ رعایا کو روز گار فراہم کرنا بھی تھا۔

آج ہم مغل اور دیگر بادشاہوں کی تعمیرات دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ یہ بڑی بڑی اور بظاہر غیر ضروری تعمیرات کی وجہ کیا ہے۔ تو اس وقت جب بادشاہ جنگ پر نہیں ہوتے تھے۔ اور اپنی افواج کو کام کاج پر لگانا ہوتا تو وہ تعمیرات کو ترجیح دیتے جس سے سپاہ مصروف بھی رہتی اور انہیں روز گار بھی ملتا رہتا۔ اور یہی وجہ تھی کہ جس وقت انگریز ہندوستان آئے اس وقت برصغیر کا عالمی معیشت میں حصہ 27فیصد سے زائد تھا۔

ایسی ہی ایک مثال نواب واجد علی شاہ کا تعمیر کردہ امام بارگاہ آصفی بھی ہے۔ اودھ یعنی آج کے لکھنو کے نواب واجد علی شاہ نے 1784 میں سخت قحط کے دوران روزگار فراہم کرنے کے لئے امام باڑہ آصفی تعمیر کرایا جو کہ لوگوں کو روز گار فراہم کرنے کا ایک ذریعہ بنا۔ اس امام باڑے کی تعمیر میں بیس ہزار محنت کشوں نے کی۔ چونکہ قحط سے معززین بھی متاثرہوئے تھے اور ان کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچانے کے لئے رات میں بھی تعمیراتی سرگرمیوں جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے اورمحنت مزدوری کر کے مشکل وقت گزراتے۔

ہم جدید معیشتوں کو بھی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ تعمیراتی صنعت نے ان کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کی سپر پاور امریکا، چین روس کو دیکھ لیں ان کی ترقی میں تعمیرات بہت اہمیت کی حامل رہیں۔ یہی تعمیراتی صنعت ہے جس نے آج متحدہ عرب امارات کو علاقائی تجارت اور خدمات کا مرکز بنادیا ہے۔

کم قیمت گھروں کی تعمیر کے لئےقرض سے مقامی معیشت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لاگت بچانے کے لئے زیادہ تر مقامی میٹریل، سریا، سیمنٹ، رنگ و روغن، سینٹری، پلمبنگ، بجلی کی فٹنگ سب کچھ مقامی استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ اگر یہی رقم پر طبقہ امراء کے گھروں کی تعمیر کے لئے فراہم کی جائے تو وہ لگژری کے لئے درآمدی سامان کا استعمال کرتے ہیں۔ جس سے زرمبادلہ بیرون ملک منتقل ہونے کے علاوہ مقامی صنعتی سرگرمی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے محنت کش طبقے کے لئے گھروں کی قرض اسکیم نے نہ صرف مجموعی ہاؤسنگ میں بہتری آنے سے اس طبقے کے افراد کا معیار زندگی بلند ہوگا اس کے ساتھ ساتھ ملک میں مقامی کاروباری سرگرمیوں سے معیشت کا پہیہ بھی گھومنے لگے گا۔ اس سے ملک میں آبادی کے کمزور طبقات میں اثاثوں کی تشکیل، محفوظرہائش، صحت مند ماحول کی ترویج ممکن ہوگی۔ اور محنت کشوں کو غربت سے نکلنے کا اہم موقع مل سکے گا۔


یہ تحریر بامعاوضہ شراکت کے تحت پیش کی گئی ہے۔