• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
— فوٹو: وائٹ اسٹار

پاکستان پاپولیشن سمٹ: مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کرنا ہوگا، عطااللہ تارڑ

سمٹ کے پہلے دن پالیسی سازوں، ماہرین، سفارت کاروں اور قانون سازوں نے یہ متفقہ رائے ظاہر کی تھی کہ اگر خوراک کے طلب گار اسی طرح بڑھتے رہے تو خوشحالی ممکن نہیں۔
شائع December 2, 2025

پاکستان پاپولیشن سمٹ کے دوسرے اور آخری دن کا اسلام آباد میں ہو گیا، دن کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا۔

پاپولیشن کونسل کے ڈائریکٹر کمیونیکیشنز علی مظہر نے دوسرے دن کا افتتاح کیا، انہوں نے کہا کہ سمٹ کے پہلے دن کا فوکس بڑھتی ہوئی آبادی اور دستیاب وسائل کے درمیان موجود فرق پر تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک ہم آبادی کے نظم و نسق کے لیے بہتر اقدامات نہیں کرتے، ایک محفوظ اور تعلیم یافتہ پاکستان کا قیام ممکن نہیں۔

علی مظہر نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آبادی میں اضافے کے مسئلے سے نمٹنے میں اسلامی اسکالرز کے کردار پر بھی کافی گفتگو ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ’خاندانی منصوبہ بندی اور ہمارے معاشرتی رویے پر سب سے زیادہ اثر علما ہی کا ہوتا ہے‘۔

پاپولیشن کونسل کے سینئر ڈائریکٹر ڈاکٹر علی محمد میر نے آج کے پہلے سیشن کی صدارت کی۔

اس پینل میں وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی، جامعہ دارالعلوم کے نائب صدر مفتی زبیر اشرف عثمانی، شریعت اپیلٹ بینچ کے رکن ڈاکٹر قبلہ ایاز، رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا سید محمد عبد الخبیر آزاد اور اسکالر و قانونی ماہر حمیرا مسیح الدین شامل تھیں۔

وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے گفتگو کے آغاز میں ڈان میڈیا گروپ کی اس موضوع کو زیربحث لانے پر ڈان میڈیا کی تعریف کی، انہوں نے زور دیا کہ ان کے نزدیک سب سے اہم بات مسئلے کو تسلیم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اسے ایک بڑے چیلنج کے طور پر قبول نہیں کرتے، ہمیں مسائل کا سامنا رہے گا۔

وزیراطلاعات عطااللہ تارڑ نے سمٹ میں اظہار خیال کیا — فوٹو: وائٹ اسٹار
وزیراطلاعات عطااللہ تارڑ نے سمٹ میں اظہار خیال کیا — فوٹو: وائٹ اسٹار

انہوں نے خبردار کیا کہ ’سب سے پہلے اسے تسلیم کرنا اور سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے‘۔

وزیرِ اطلاعات نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ’زچگی کے بعد ڈپریشن ایک حقیقت ہے جسے سمجھنا اور ماننا چاہیے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ ذہنی صحت آبادی سے جڑے مسائل میں صحت کا ایک اہم پہلو ہے۔

عطا اللہ تارڑ نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اس حوالے سے قانون ساز اور پارلیمنٹ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ وسائل کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں سمجھ بوجھ ہونی چاہیے، کہ کس کے حقوق ہیں اور کس کی ذمہ داریاں ہیں‘۔

کچھ تجاویز دیتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے آبادی کے بحران پر ایک چارٹر بنانے کی بات کی اور پارلیمنٹ میں اس پر بحث کروانے کی سفارش کی۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک ہی طرح کی حکمتِ عملی ہر جگہ کام نہیں کرتی‘ اور اس بات پر زور دیا کہ آبادی کی منصوبہ بندی میں مذہب رکاوٹ نہیں۔

وزیر اطلاعات نے اس مسئلے پر ایک چارٹر مرتب کرنے کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے کی تجویز دی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ علامہ راغب نعیمی نے سمٹ سے اظہار خیال کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ علامہ راغب نعیمی نے سمٹ سے اظہار خیال کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین محمد راغب حسین نعیمی نے یاد دلایا کہ جولائی میں مشترکہ مفافات کونسل نے آبادی میں اضافے کے اسلامی نقطہ نظر پر بحث کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی تھی، جہاں ایک قرارداد منظور کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہماری قرارداد کی بنیاد یہ تھی کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں خاندانی نظام کا تحفظ، ماں اور بچے کی صحت کا خیال، پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’قرآن و سنت نے انسانی جان اور نسل کے تحفظ کو شریعت کا بنیادی مقصد قرار دیا ہے، اسی لیے جان کا تحفظ، ماں اور بچے کی بہتری، اور خاندانی منصوبہ بندی ایک اسلامی ذمہ داری ہے‘۔

شرکار نے سنجیدگی سے پینل ڈسکشن سنی — فوٹو: وائٹ اسٹار
شرکار نے سنجیدگی سے پینل ڈسکشن سنی — فوٹو: وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ شریعت کی روشنی میں بالخصوص بچوں کی صحت کے پیش نظر بچوں کے درمیان وقفہ رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام مکاتبِ فکر کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ اگر حمل کے دوران ماں کی صحت کو خطرہ ہو، ’ناقابلِ برداشت تکلیف‘ کا خدشہ ہو، دودھ پلانے کے مسائل ہوں، یا ماں کو متعدد پیچیدگیاں پیش آ سکتی ہوں، تو شریعت پیدائش کی منصوبہ بندی اور وقفے کی اجازت دیتی ہے۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے آگاہی کے لیے ایک سوشل میڈیا مہم چلانے کی بھی حمایت کی، انہوں نے کہا کہ اسلام کا بنیادی اصول اعتدال ہے، جو وسائل اور آبادی کے درمیان توازن کی بھی حمایت کرتا ہے۔

مولانا راغب نعیمی نے یقین دہانی کرائی کہ علما عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’نہ تو علما اس معاملے میں پیچھے ہیں، نہ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں میں وقفہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے‘۔

ڈاکٹر راغب نعیمی نے عوامی نشستوں، کالج و یونیورسٹی سطح پر مباحثوں، اور اس موضوع پر تھنک ٹینکس بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین عبدالخبیـر آزاد نے اس بات پر زور دیا کہ آبادی میں اضافے سے نمٹنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے، اور انہوں نے پاپولیشن کونسل کے ساتھ اپنی 15 سالہ وابستگی کا ذکر کیا۔

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد نے بھی سمٹ سے خطاب کیا — فوٹو:وائٹ اسٹار
چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد نے بھی سمٹ سے خطاب کیا — فوٹو:وائٹ اسٹار

اپنی کوششوں کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم نے یہ آگاہی دی کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے، اور پھر جب ہم نے ماں اور بچے کی صحت کی بات کی، تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ واقعی ایک نیک کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر ایسے موضوعات کو غیر ملکی ایجنڈا کہا جاتا ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی جان بہت قیمتی ہے۔

جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب صدر مفتی زبیر اشرف عثمانی نے بھی آبادی میں تیزی سے اضافے کے مسئلے پر شریعت کے موقف کو واضح کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’بڑھتی ہوئی آبادی مسئلہ نہیں، یہ ایک وسیلہ ہے‘، تاہم انہوں نے کہا کہ توازن پیدا کیا جا سکتا ہے کیونکہ بعض حالات میں پیدائش پر قابو کی اجازت ہے، جیسے جب عورت کی صحت کو خطرہ ہو‘۔

جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب صدر زبیر اشرف عثمانی نے بھی مذاکرے میں اظہار خیال کیا — فوٹو: وائٹ اسٹار
جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب صدر زبیر اشرف عثمانی نے بھی مذاکرے میں اظہار خیال کیا — فوٹو: وائٹ اسٹار

تاہم مفتی زبیر اشرف عثمانی نے کہا کہ اسلامی قوانین غربت یا بھوک کے خوف کی بنیاد پر خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت نہیں کرتے، اور نہ ہی اس صورت میں کہ والدین بیٹی کی پیدائش سے بچنا چاہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ آبادی میں اضافہ ایک مسئلہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک نے خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو صحیح طریقے سے استعمال کیا ہے۔

انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں آبادی کہیں زیادہ ہے لیکن انہوں نے اپنے وسائل کو سنبھالا ہے۔

— فوٹو: وائٹ اسٹار
— فوٹو: وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ ’اللہ نے ہمارے ملک کو اربوں کے خزانے دیے ہیں، لیکن ہم انہیں چند پیسوں کے عوض دوسروں کو بیچ رہے ہیں اور اپنے وسائل کا استعمال نہیں کر رہے‘۔

جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب صدر نے کہا کہ سنت نے بھی ہر چیز میں اعتدال پر زور دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ کے رکن ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اس معاملے میں پہل کرنے اور آبادی کے توازن کا تصور پیش کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل کی تعریف کی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ’60 کی دہائی میں اسے خاندانی منصوبہ بندی کہا جاتا تھا‘، ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ’رزق‘ کے تصور کو آبادی کے ساتھ جوڑنے کے بجائے آبادی کو صحت کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’علما کا اتفاق ہے کہ آبادی میں اضافے کو رزق کے ساتھ نہ جوڑیں بلکہ صحت کے ساتھ جوڑیں، کیونکہ اگر آپ پیدائش میں وقفہ نہیں رکھیں گے تو ماں اور بچہ دونوں متاثر ہوں گے‘۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی سمٹ سے اظہار خیال کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار
ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی سمٹ سے اظہار خیال کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’بچہ کمزور اور چھوٹا پیدا ہوگا، اور ماں کمزور ہو جائے گی، اور اسے بچوں کی پرورش اور انہیں بہتر مستقبل کی طرف لے جانے میں مشکلات پیش آئیں گی‘۔

قانونی ماہر حمیرا مسیح الدین نے یاد دلایا کہ جولائی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے پاپولیشن کونسل کے ساتھ ’حمل کے مسائل‘ پر مشاورت کی تھی، جس میں 47 مرد اور صرف 3 خواتین موجود تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ’لہٰذا میرے خیال میں اسے درست کرنے کی ضرورت ہے، عورتوں کی نمائندگی انتہائی اہم ہے‘۔

حمیرا مسیح الدین نے اسلام میں عورت کی اہمیت پر بھی زور دیا اور قرآن کی آیت کا حوالہ دیا جس میں مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا مددگار کہا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حمل کا ’بڑا بوجھ (جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی)عورت اٹھاتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہر حمل میں موت کا خطرہ حقیقت ہوتا ہے، جس شخص نے یہ خطرہ اٹھانا ہے اس سے مشورہ نہ کرنا ناقابلِ تصور ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے یقین نہیں آتا کہ شریعت کبھی اس طرح کی بات کی اجازت دے گی‘،یہ بات سن کر سامعین نے بھرپور داد دی۔

ماہر قانون حمیرا مسیح الدین نے بھی سمٹ سے خطاب کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار
ماہر قانون حمیرا مسیح الدین نے بھی سمٹ سے خطاب کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار

اسلام میں انصاف کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’اگر حمل کسی عورت پر مسلط کر دیا جائے تو اس میں انصاف کہاں ہوگا؟‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مشاورت اسلام میں ہر رشتے کا بنیادی اصول ہے‘۔

ماہر تعمیرات اور شہری منصوبہ ساز عارف حسن نے بھی سمٹ میں اظہار خیال کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار
ماہر تعمیرات اور شہری منصوبہ ساز عارف حسن نے بھی سمٹ میں اظہار خیال کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار

عارف حسن کی اربنائزیشن کے بدلتے رجحان کی نشاندہی

سمٹ کے نویں سیشن بعنوان ’2050 میں انتہائی شہری پاکستان کے لیے آبادی کے چیلنجز‘، میں آرکیٹیکٹ اور شہری منصوبہ ساز عارف حسن نے اربنائزیشن میں بڑھتے ہوئے رجحانات کی تفصیل پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ ’اہم رجحان سماجی نوعیت کا ہے، جو بلا شبہ اقتصادی تبدیلی کا نتیجہ ہے، بڑے خاندان کافی حد تک کم ہو گئے ہیں، بالخصوص شہری علاقوں میں چھوٹے خاندان ترقی کر کے مستحکم ہو چکے ہیں، اور اس سے چھوٹے خاندانوں میں موجود افراد کو کافی آزادی ملتی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین بغیر اس دباؤ کے کہ چاچا یا خالہ انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکیں، تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، شادی کے لیے بھی آزادی ہے کہ وہ جس سے چاہیں شادی کر سکیں، اگرچہ یہ رجحان مکمل طور پر مستحکم نہیں، لیکن کم آمدنی والے گروپوں میں بھی یہ واضح طور پر موجود ہے‘۔

عارف حسن نے کہا کہ چھوٹے خاندانوں کی جانب منتقلی نے ’رہائشی طریقہ کار کو بھی تبدیل کر دیا ہے‘۔

دیہی علاقوں میں بدلتے ہوئے رجحانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’پیداوار کے طریقے، مشین کاری، کھاد کا استعمال، مڈل مین اکانومی، اس سب نے ایسی معیشت پیدا کی ہے جہاں نقد رقم کی شدید ضرورت ہے، اور دیہی علاقوں میں وہ رقم دستیاب نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک دھکیلنے والا عنصر بن گیا ہے‘۔

قومی ہاؤسنگ پالیسی کے بارے میں پوچھے جانے پر عارف حسن نے کہا کہ ان کے خیال میں ’غریبوں کے لیے کوئی ہاؤسنگ پالیسی موجود نہیں‘، انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تقریباً ہمیشہ نجی شعبے کے ذریعے ہی ہوتا ہے‘۔

انہوں نے قیمت برداشت کرنے کی صلاحیت کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ غریبوں کے لیے دستیاب جگہ صرف شہر کے مضافات میں ہے، انہیں شہر کے مضافات یا ماحولیاتی طور پر خراب علاقوں میں دھکیل دیا جاتا ہے‘۔

عارف حسن نے بتایا کہ پرانے کچی آبادیوں کو ہائی رائز میں تبدیل کر دیا گیا کیونکہ غیر رسمی شعبے نے اس میں سرمایہ کاری کی۔

’حکومتوں نے مکانات نہیں بنائے‘

عارف حسن نے یاد دلایا کہ اگرچہ کئی حکومتوں نے متعدد مکانات بنانے کا وعدہ کیا، لیکن کسی نے بھی مکانات نہیں بنائے۔

پی پی پی کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے ’ایک کمرے والے مکانات‘ بنانے کے منصوبے کے بارے میں عارف حسن نے کہا کہ ’دیکھنا ہوگا کہ یہ کیسے کام کرتا ہے‘۔

سوسائٹی کو درپیش اہم مسائل کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ سیلاب ہے، انہوں نے آبادی کی کثافت پر قابو پانے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے زمین کی بڑی اصلاحات ضروری ہیں۔

کراچی کیلئے طویل مدتی منصوبہ بندی

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ان کا شہر ’بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ‘ کا سامنا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے مسائل میں ایک عام مشترکہ عنصر بڑھتی ہوئی آبادی ہے، کراچی، شاید، پاکستان کا واحد کاسموپولیٹن شہر، اس کا سب سے زیادہ اثر برداشت کرتا ہے‘۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بھی سمٹ سے خطاب کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بھی سمٹ سے خطاب کیا— فوٹو: وائٹ اسٹار

مرتضیٰ وہاب نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1951 میں کراچی کی آبادی 10 لاکھ تھی، 1995 میں یہ 85 لاکھ ہو گئی، اور 2023 کی مردم شماری کے مطابق ’ہماری آبادی 2 کروڑ 3 لاکھ ہے اور اس تعداد پر بھی بحث جاری ہے‘۔

نیویارک اور لندن جیسے شہروں کے آبادی کے بڑھاؤ کے موازنہ میں مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ دنیا میں کوئی شہر نہیں ہے جہاں آبادی 20 گنا بڑھ چکی ہو، یہ ظاہر کرتا ہے کہ شاید ریاست نے بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے کو ترجیح نہیں دی، اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ریاست نے لوگوں کے رہنے کے لیے متبادل جگہیں تیار نہیں کیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کے تمام حصوں سے لوگ کراچی آتے ہیں‘، انہوں نے تجویز دی کہ ریاست کو مزید شہروں کی ترقی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ یہ کراچی کے متبادل بن سکیں۔

واضح رہے کہ ڈان میڈیا کے زیرِ اہتمام اس سمٹ میں سیاستدان، ماہرِ معاشیات، ترقیاتی ماہرین، نجی شعبے کے رہنما اور مختلف شعبوں کے ماہرین شریک ہیں، تاکہ ایک مشترکہ وژن تیار کیا جا سکے، کیونکہ تیز رفتار آبادی میں اضافہ صحت کے نظام، خوراک اور پانی کی سلامتی، اور روزگار پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔

پیر کو پالیسی سازوں، ماہرین، سفارت کاروں اور قانون سازوں نے اس بات پر متفقہ رائے ظاہر کی کہ اگر خوراک کے طلب گار اسی طرح بڑھتے رہے تو خوشحالی ممکن نہیں، ان کا کہنا تھا کہ وسائل کے تناظر میں آبادی کا مؤثر نظم و نسق کیے بغیر حکومت کی تمام کوششیں، چاہے وہ ترقی، پیش رفت یا سماجی بہبود کے لیے ہوں، بے فائدہ ثابت ہوں گی۔