انڈیا ان کراچی

شائع October 10, 2013 اپ ڈیٹ May 15, 2015

فوٹو -- اختر بلوچ --.

is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/114378101" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے کور گروپس کے صوبائی رابطہ کار تھے۔ کمیشن کا دفتر اسٹیٹ لائف بلڈنگ نمبر 5 الاکو ہاؤس عبداللہ ہارون روڈ پر واقع ہے۔ ہمارے مہربان استاد جناب حُسین نقی صاحب لاہور سے تشریف لائے تھے اور دفتر میں موجود تھے۔ وہ کسی صاحب کو فون پر دفتر کا پتہ کچھ یوں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے؛ "بھئی آپ وکٹوریہ روڈ پر آجائیں۔ دوسری جانب ایلفنسٹن اسٹریٹ ہے۔ یہاں پر انڈین لائف انشورنس کی بلڈنگ میں ہمارا دفتر ہے"۔ دوسری جانب فون پر موجود صاحب غالباََ سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ میں نے نقی صاحب سے درخواست کی کہ اگر ان کی اجازت ہو تو میں پتہ سمجھا دوں۔ انھوں نے فون میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ اگر آپ کلفٹن کی جانب سے آ رہے ہیں تو عبداللہ ہارون روڈ پر آ جائیں۔ زینب مارکیٹ کے سگنل سے آگے آئیں تو اسٹیٹ لائف بلڈنگ نمبر 5 پر آ جائیں۔ اگر صدر کی جانب سے آ رہے ہیں تو زیب النساء اسٹریٹ پر آجائیں۔ سگنل کے بعد دائیں جانب گلی میں مڑ جائیں۔ وہیں یہ بلڈنگ ہے۔ ان صاحب نے ایک لمبی پُر سکون سانس لے کر فون بند کر دیا۔ نقی صاحب نے ہم سے پوچھا،  "تو اب یہ نام ہیں ان سڑکوں کے"؟ ہم نے جواب دیا "جی ہاں"۔ وہ اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے کہ یہ انڈین لائف انشورنس کمپنی کی عمارت نہیں ہے۔ ہم سمجھے کوئی یاداشت کا معاملہ ہوگا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ جب ہم وکٹوریہ میوزیم کی عمارت ایلفنسٹن اسڑیٹ (زیب النساء اسٹریٹ) پر تلاش کر رہے تھے تو ہمیں لگا کہ HRCP کے کاشان کاشف کی گاڑی الاکو ہاؤس میں داخل ہوئی ہے۔ گو کہ ہفتہ کا دن تھا اور اس دن دفتر بند ہوتا ہے پھر بھی ہم نے سوچا چلو کاشان صاحب سے ملنے چلیں۔ عمارت میں چُھٹی کی وجہ سے مکمل سناٹا تھا۔ ہم نے سوچا کاشان کو ملنے سے پہلے ذرا عمارت کو دیکھ لیں، شاید یہیں کہیں وکٹوریہ میوزیم کے آثار مل جائیں۔ عمارت کے اندر دائیں جانب قدیم لکڑیوں کی سیڑیاں اور شکستہ کمرے موجود تھے۔ تھوڑا آگے بڑھے تو ایک قدیم سا گیٹ نظر آیا۔ گیٹ کے اوپر ایک پتھر کی تختی لگی ہوئی تھی۔ غور سے دیکھا تو دھندلے حروف میں انڈین لائف انشورنس کے الفاظ کندہ تھے۔ ہم نے جھٹ سے اس کی تصویر بنالی۔ اتنے میں ایک صاحب نے خود کو اسٹیٹ لائف کا گارڈ ظاہر کر کے ہمیں تصویریں بنانے سے منع کردیا۔

فوٹو -- اختر بلوچ --. بعد میں معلوم ہوا کہ وہ صاحب انڈین لائف انشورنس کمپنی کی اوپر والی منزل پر واقع ایک شکستہ گھر میں رہتے ہیں۔ انھیں خدشہ یہ تھا کہ کہیں عمارت کو ثقافتی ورثہ قرار نہیں دے دیا جائے اور انھیں جگہ خالی نہ کرنی پڑے۔ خیر ہم من ہی من میں اس بات پر شرمندہ ہوئے کہ ہم نے نقی صاحب کی یادداشت پر شک کیا۔ کچھ عرصے قبل اردو یونیورسٹی عبدالحق کیمپس کے شعبہ صحافت سے وابستہ ایک نوجوان استاد طیب ججوی نے جو ہمارے بلاگز کے ریڈر ہیں نے بتایا کہ ان کی بہن جس کالج میں پڑھتی ہیں اس میں ایک پرانی تختی پر کسی انگریز کا نام لکھا ہے۔ طیب نے کہا انھوں نے بہن کو اپنا موبائل کیمرہ دیا تھا تاکہ وہ اس تختی کی تصویر بنالیں لیکن بد قسمتی سے تصویر صحیح نہیں بنی۔ ہم نے اُن سے کالج کا پتہ معلوم کیا۔ تو انھوں نے کہا کہ یہ کالج برنس روڈ پر واقع ہے۔ جہاں گذشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مقبول باقر پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ یہ جگہ ہمارے گھر کے بالکل قریب ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں آج کل الیکٹرونک میڈیا نے چھاپہ مار مہمیں شروع کی ہوئی ہیں۔ اس کے سبب کسی تاریخی مقام کی تصویر بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں. ہمارے ایک صحافی دوست اشرف خان سے ایک گفتگو کے دوران جب ہم نے اس بات کا ذکر کیا تو انھوں نے ہنستے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا؛ "ارے بھائی وہ لوگ جو فوٹو بنانے سے روکتے ہیں۔ ان کے بھی کچھ مفادات ہوتے ہیں اور کچھ میڈیا کا انداز بھی جارحانہ ہوتا جارہا ہے"۔ ہمیں اس موقع پر احمد فراز کا ایک شعر یاد آگیا؛ کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں اب ہم نے سوچا کہ اس کالج میں اس وقت جایا جائے جب کالج بند ہو۔ چوکیدار سے 'معاملات' طے کر کے اندر جاکر اطمینان سے تصویریں بنا لیں گے۔

فوٹو -- اختر بلوچ --. ایک شام وہاں سے گذر رہے تھے تو دیکھا کہ کالج کے مرکزی گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹا گیٹ کھلا ہے، ہم اندر داخل ہو گئے۔ اندر کوئی نظر نہیں آیا، آگے بڑھے تو ایک تختی نظر آئی۔ ہم نے فوراََ اس کی تصویر بنا ڈالی۔

فوٹو -- اختر بلوچ --. اب ہم عمارت کے دائیں بائیں دیکھنے لگے۔ اتنی دیر میں ایک نوجوان ہمارے پاس آئے۔ انھوں نے شائستہ لہجے میں ہماری آمد کی وجہ معلوم کی۔ ہم نے انھیں بتایا کہ ہم پرانی تاریخی عمارتوں پر لکھ رہے ہیں۔ اس لیے یہاں آئے ہیں۔ انھوں نے کندھے اچکائے اور چلے گئے۔ ہم نے بھی سکون کا سانس لیا۔ جلدی جلدی دو تین اور تختیوں کی تصویریں بنا لیں۔ اچانک کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو پہلے والے نوجوان کے ساتھ ایک اور نوجوان کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نمایاں تھے۔ ان کے سوال کرنے سے پہلے ہی ہم نے اپنی آمد کا مقصد بتا دیا۔ نوجوان نے غصیلے لہجے میں کہا کہ ہم فوراََ تصویریں بنانا بند کریں۔ اگر تصویریں بنانی ہیں تو دن میں پرنسپل کی اجازت لے کر بنائیں۔

فوٹو -- اختر بلوچ --. ہمارا کام ادھورا رہا لیکن اگلے دن پرنسپل سے ملنے کا ارادہ ظاہر کر کے عمارت سے باہر نکل آئے۔ اس کالج کا نام اب گورنمٹ کالج فار ویمن شارع لیاقت ہے لیکن اندر لگی ہوئی تختیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کالج کا نام CARNEIRO Indian Girls High School 1933 ہے۔ ایک تختی پر پاٹھ شالہ بھی لکھا ہے۔

فوٹو -- اختر بلوچ --. محمودہ رضویہ 1947 میں اپنی مطبوعہ کتاب کے صفحہ نمبر 119 پر کالج اور اسکول کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ لڑکیوں کے لیے وشن دیوی ہائی اسکول، کارنیرو گرلز ہائی اسکول، شاردا مندر ہائی اسکول اور بھنپت مل آریا پُتری پاٹھ شالا کے نام سے لڑکیوں کے اسکول تھے۔

فوٹو -- اختر بلوچ --. بینکوں کے حوالے سے محمودہ رضویہ اپنی کتاب میں کراچی کے مشہور بینکوں کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ نیشنل بینک آف انڈیا، چارٹرڈ بینک آف انڈیا، امپیریل بینک آف انڈیا کا شمار نامی گرامی بینکوں میں ہوتا تھا۔ ایک دن پریس کلب میں دوستوں سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ ایک دوست عزیز سنگر نے جو ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے تاریخی مقامات کے حوالے سے بے شمار دستاویزی فلمیں بنا چکے ہیں ہم سے پوچھا۔ ہاں بھائی اگلا بلاگ کس پر ہے؟ ہم نے بتایا کراچی میں ہندوستان کے نام سے منسوب پُرانی عمارتوں پر۔ انھوں نے فوراََ ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ سٹی کورٹ کے بالکل سامنے بینک آف انڈیا کی عمارت ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی غالباََ بینک آف انڈیا تھا۔

فوٹو -- اختر بلوچ --. ہم سٹی کورٹ کے سامنے بینک آف انڈیا کی عمارت تلاش کرنے پہنچے۔ جو نشانیاں انہوں نے بتائی تھیں وہ عمارت نظر آ گئی لیکن بلڈنگ کی پیشانی کو پاکستان کے ایک نجی بینک کے بورڈ نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ بینک آف انڈیا کا نام کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔

فوٹو -- اختر بلوچ --. مزید قریب جا کر دیکھا تو 'بینک آف انڈیا' دھندلے حرفوں میں لکھا نظر آیا۔ اس عمارت کا نام اب کورٹ ویو بلڈنگ ہے۔ اب ہم اسٹیٹ بینک پہنچے۔ اس کی جدید عمارت سے جڑی ہوئی ایک پرانی عمارت کے اوپر اسٹیٹ بینک میوزیم لکھا تھا۔ لیکن اس کے پیچھے 'امپیریل بینک آف انڈیا' کے الفاظ ہمیں دیکھ کر کسی شریر بچے کی طرح مُنہ چڑا رہے تھے۔

  اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان      کے کونسل ممبر کی  حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (18) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Oct 10, 2013 03:49pm
اختر صاحب بہت خوب، البتہ آپ خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں. یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر محبان ملت، جانثاران پاکستان، اور مجاہدین اسلام کی نظر میں یہ سب آگیا تو وہ ان تاریخی حقائق کو کھرچ کھرچ کر ختم کر دیں گے. یہ لوگ حج کے لیے رشوت دے کر پاس پورٹ بنوانے کو برا نہیں سمجھتے، اور عمرا کا ویزا رشوت سے حاصل کرتے ہیں، لیکن کسی عمارت پے انڈیا کا نام اور ہندئوں کے نام لکھے ہوں تو ان کے تیلی لگ جاتی ہے. اللہ آپ کو عمر اور ان کو عقل دے.
محمد اشرف سولنگي Oct 10, 2013 04:58pm
اصل ۾ انهن تاريخي عمارتن سان هٿ چراند ۽ انهن جا نالا تبديل ڪرڻ وارو ڪم ڪندڙ اهي ماڻهو آهن جيڪي اسانکي پاڪستان جي آزادي کان پوءِ مليا يا آيا آهن، جيڪي اڄ ڪله ڪراچي تي مالڪي جا ڪوڙي دعوا ڪن ٿا،پر بلوچ صاحب توهان انهن جگهن کي پهنجي بلاڪ ذريعي نه رڳو حقيقت ماڻهن تائي پهچايو ٿا پر تاريخ کي اسان تائين پهچايو ٿا.......................
danish Oct 10, 2013 06:31pm
wa akhter bhai. kamal likha he... aur bohat ache malomat de he.
Wahab Hassan Oct 10, 2013 07:57pm
Sir Great Blog. You are doing a good job . india or pakistan key taluqat kese bhi hon but old streets ke naam change kerny ke bajaye new buildings tameer kerni chahye or jesa ke aap ne CARNEIRO Indian Girls High School 1933 ke bary me likha jjis ka naam tabdeel kerky Government college for women hogaya. it shouldn't happened. because these are our precious Heritage . Mind Blowing Blog
کمال ایوب Oct 10, 2013 08:04pm
اختر بلوچ گزشتہ بلاگز کی طرح آپ کا یہ ریسرچ پر مبنی بلاگ بہت عمدہ ہے۔
Bilal Jafri Oct 10, 2013 09:17pm
Slaam Balouch Sahib, Bahut Acha likha hai... apki research aor idea bahut acha hai, Kabhi Karachi ke Under pasess, Flyover, aor old streets per bhi likho, Karachi ki kai old streets ke name change kr deye gay hain, Goth, Mohaloon, Colonies, aor Resedensy Socityion ke name change kr deye gay hain.... Umeed hai Meri tajveez pr nazar sani kreingay. Thanks , Bilal Jafri
Ali Oct 10, 2013 10:07pm
نفیس اور مشکل موضوع پر تحقیق کا انتخاب کیا
tayyabjajjvi Oct 11, 2013 09:42am
zabardast ge .kafi information hai ..hamare nujawano k leye aur ap nay mere zikar b krdia ..us ka b shukria
Razzak Abro Oct 11, 2013 01:54pm
Good write up by Akthar Balouch. I think Akthar sahib, as well as Dawn.com, were doing very important job, by documenting remains of our lost history. Keep it up.
عبدالحئی Oct 11, 2013 02:02pm
تاریخ انسانوں، قوموں نسلوں اورمذہبی وابستگیوں سے بالاتر ہے. تاریخ صرف تاریخ ہوتی ہے.اگرجس طرح‌ہمارے معاشرے میں ہوا ہے کہ ہم نے تاریخی عمارتوں کے نام تبدیل کردیئے یا ان عمارتوں کی شکل تبدیل کرکے اپنی تاریخ بنانا چاہی لیکن ایسے افعال تاریخ نہیں بنتی.تاریخ بنانے کے لیئے آپ کو نہ صرف اپنی خدمات دینی ہوگی. بلکلہ سرمایہ بھی . اگر ہم کراچی کی پرانی عمارتوں پر نظر ڈالیں تو ان میں لائیبریاں ہیں. اسکولز ہیں.میٹرنٹی ہومز ہیں. جن کے قیام کا سہرا عمومآ ہندوئوں، پارسیوں،اور عیسائیوں کے سرپر جاتا ہے.یہ سہرے اتارنے کی ضرورت نہیں بلکہ نیے سہرے سجانے کی ضرورت ہے.تقسیم سے قبل کراچی میں جانوروں کے لیئے پانی کی سبیلیں‌ ہوتی تھیں جو اب غائب ہوگئی ہیں. ہم نے اپنی سبیلیں بنائی ہیں. ان سبیلوں پر شروع میں اسٹیل کے گلاس رکھے ہوتے تھے. بعد میں ان گلاسوں میں سراغ کرکے انہیں زنجیر لگادی گئی اور اب یہ گلاس غائب ہوگئے ہیں.ماضی سے سیکھنا چاہئے لیکن ہم نہ جانے کب سیکھیں گے.
Yasir Oct 11, 2013 03:08pm
Recently Indian government with the collaboration of UNESCO, setting a side the religion, has restored the tomb of Shahjahan in New Dehli. It took to govt. five years to restore it in original shape. But, the attitude of government with heritage and British era architecture is entirely different here.
jamshed bukhari Oct 11, 2013 04:28pm
اختر بلوچ بلا شبھ اچھا لکھ رہے یے
ماہر بلوچ Oct 11, 2013 05:20pm
بہت اعلیٰ !!!! باانصاف چیز لکھی ہے۔۔ ہر ایک لفظ اپنے لیے کیے گئے ریسرچ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔ اگلے آرٹیک کے پڑھنے کا انتظار ہے۔۔۔
عثمان Oct 13, 2013 03:31pm
گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک دوست نازش بروہی سے بات ہو رہی تھی. اس دوران دوستوں نے کراچی کے بعض مقامات کے ناموں پر حیرت کا اظہار کیا اور طے پایا کہ اس بارے میں تحقیق کے لئے اختر بلوچ صاحب سے زیادہ موزوں کوئی نہیں.کچھ نام عجیب و غریب ہونے کے باوجود سمجھ میں آتے ہیں مثلا متعدد جگہ پر کالا بورڈ، بڑا بورڈ مگر چند مقامات جن کے عجیب و غریب ناموں کی منطق سمجھ میں نہیں آتی ہیں وہ ہیں: گولی مار، مچھر کالونی، ناگن چورنگی، گیدڑ کالونی، بیوہ کالونی، کنواری کالونی .. ایک بلاگ اس پر بھی..
khobaib hayat Oct 13, 2013 09:57pm
bohot umdah
balouchah Oct 15, 2013 05:59pm
جناب عثمان صاحب، بہت بہت شکریہ. ہم آپ کے دی ہوئی ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن فی الحال ہم کراچی کی قدیم عمارات جن کے نام تقصیم ہند کے بعد بدل دیے گئے پر کام کر رہے ہیں. اس مہم کے بعد ہم نئی کراچی پر لکھنا شروع کریں گے. نازش بروہی ایک بہت بڑی شخصیت ہیں اور یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہے کہ انھوں نے مجھے اس قابل سمجھا . http://urdu.dawn.com/2013/09/26/yahoodi-masjid-akhtar-baloch-aq/ اگر آپ نے نہیں پڑہا تو میرا یہ بلاگ بھی پڑھ لیجیے گا
balouchah Oct 15, 2013 06:15pm
یمین الاسلام زبیری صاحب، بہت شکریہ آپ وہ فرد ہیں جس نے میرے پہلے بلاگ پر جو چیل چوک پر تھا اور اُس میں یہودی مسجد کا ذکر تھا تو آپ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہودی مسجد بھول نہ جانا. میں نے دیر آید درست آید کے مصداق یہودی مسجد پر بلاآخر بلاگ لکھ دیا اور اُس پر آپ نے اپنی رائے بھی دی. میں آپ کا بہت احسان مند ہوں دل بہت خوش ہوا راہ پر خار دیکھ کر ان آبلوں سے پاوئوں کے گھبرا گیا تھا میں
Saeed Baloch Oct 19, 2013 08:50am
very nice historical structural knoledge of Karachi .

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025