انڈیا ان کراچی
فوٹو -- اختر بلوچ --.
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/114378101" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے کور گروپس کے صوبائی رابطہ کار تھے۔ کمیشن کا دفتر اسٹیٹ لائف بلڈنگ نمبر 5 الاکو ہاؤس عبداللہ ہارون روڈ پر واقع ہے۔ ہمارے مہربان استاد جناب حُسین نقی صاحب لاہور سے تشریف لائے تھے اور دفتر میں موجود تھے۔ وہ کسی صاحب کو فون پر دفتر کا پتہ کچھ یوں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے؛ "بھئی آپ وکٹوریہ روڈ پر آجائیں۔ دوسری جانب ایلفنسٹن اسٹریٹ ہے۔ یہاں پر انڈین لائف انشورنس کی بلڈنگ میں ہمارا دفتر ہے"۔ دوسری جانب فون پر موجود صاحب غالباََ سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ میں نے نقی صاحب سے درخواست کی کہ اگر ان کی اجازت ہو تو میں پتہ سمجھا دوں۔ انھوں نے فون میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ اگر آپ کلفٹن کی جانب سے آ رہے ہیں تو عبداللہ ہارون روڈ پر آ جائیں۔ زینب مارکیٹ کے سگنل سے آگے آئیں تو اسٹیٹ لائف بلڈنگ نمبر 5 پر آ جائیں۔ اگر صدر کی جانب سے آ رہے ہیں تو زیب النساء اسٹریٹ پر آجائیں۔ سگنل کے بعد دائیں جانب گلی میں مڑ جائیں۔ وہیں یہ بلڈنگ ہے۔ ان صاحب نے ایک لمبی پُر سکون سانس لے کر فون بند کر دیا۔ نقی صاحب نے ہم سے پوچھا، "تو اب یہ نام ہیں ان سڑکوں کے"؟ ہم نے جواب دیا "جی ہاں"۔ وہ اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے کہ یہ انڈین لائف انشورنس کمپنی کی عمارت نہیں ہے۔ ہم سمجھے کوئی یاداشت کا معاملہ ہوگا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ جب ہم وکٹوریہ میوزیم کی عمارت ایلفنسٹن اسڑیٹ (زیب النساء اسٹریٹ) پر تلاش کر رہے تھے تو ہمیں لگا کہ HRCP کے کاشان کاشف کی گاڑی الاکو ہاؤس میں داخل ہوئی ہے۔ گو کہ ہفتہ کا دن تھا اور اس دن دفتر بند ہوتا ہے پھر بھی ہم نے سوچا چلو کاشان صاحب سے ملنے چلیں۔ عمارت میں چُھٹی کی وجہ سے مکمل سناٹا تھا۔ ہم نے سوچا کاشان کو ملنے سے پہلے ذرا عمارت کو دیکھ لیں، شاید یہیں کہیں وکٹوریہ میوزیم کے آثار مل جائیں۔ عمارت کے اندر دائیں جانب قدیم لکڑیوں کی سیڑیاں اور شکستہ کمرے موجود تھے۔ تھوڑا آگے بڑھے تو ایک قدیم سا گیٹ نظر آیا۔ گیٹ کے اوپر ایک پتھر کی تختی لگی ہوئی تھی۔ غور سے دیکھا تو دھندلے حروف میں انڈین لائف انشورنس کے الفاظ کندہ تھے۔ ہم نے جھٹ سے اس کی تصویر بنالی۔ اتنے میں ایک صاحب نے خود کو اسٹیٹ لائف کا گارڈ ظاہر کر کے ہمیں تصویریں بنانے سے منع کردیا۔
فوٹو -- اختر بلوچ --. بعد میں معلوم ہوا کہ وہ صاحب انڈین لائف انشورنس کمپنی کی اوپر والی منزل پر واقع ایک شکستہ گھر میں رہتے ہیں۔ انھیں خدشہ یہ تھا کہ کہیں عمارت کو ثقافتی ورثہ قرار نہیں دے دیا جائے اور انھیں جگہ خالی نہ کرنی پڑے۔ خیر ہم من ہی من میں اس بات پر شرمندہ ہوئے کہ ہم نے نقی صاحب کی یادداشت پر شک کیا۔ کچھ عرصے قبل اردو یونیورسٹی عبدالحق کیمپس کے شعبہ صحافت سے وابستہ ایک نوجوان استاد طیب ججوی نے جو ہمارے بلاگز کے ریڈر ہیں نے بتایا کہ ان کی بہن جس کالج میں پڑھتی ہیں اس میں ایک پرانی تختی پر کسی انگریز کا نام لکھا ہے۔ طیب نے کہا انھوں نے بہن کو اپنا موبائل کیمرہ دیا تھا تاکہ وہ اس تختی کی تصویر بنالیں لیکن بد قسمتی سے تصویر صحیح نہیں بنی۔ ہم نے اُن سے کالج کا پتہ معلوم کیا۔ تو انھوں نے کہا کہ یہ کالج برنس روڈ پر واقع ہے۔ جہاں گذشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مقبول باقر پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ یہ جگہ ہمارے گھر کے بالکل قریب ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں آج کل الیکٹرونک میڈیا نے چھاپہ مار مہمیں شروع کی ہوئی ہیں۔ اس کے سبب کسی تاریخی مقام کی تصویر بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں. ہمارے ایک صحافی دوست اشرف خان سے ایک گفتگو کے دوران جب ہم نے اس بات کا ذکر کیا تو انھوں نے ہنستے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا؛ "ارے بھائی وہ لوگ جو فوٹو بنانے سے روکتے ہیں۔ ان کے بھی کچھ مفادات ہوتے ہیں اور کچھ میڈیا کا انداز بھی جارحانہ ہوتا جارہا ہے"۔ ہمیں اس موقع پر احمد فراز کا ایک شعر یاد آگیا؛ کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں اب ہم نے سوچا کہ اس کالج میں اس وقت جایا جائے جب کالج بند ہو۔ چوکیدار سے 'معاملات' طے کر کے اندر جاکر اطمینان سے تصویریں بنا لیں گے۔
فوٹو -- اختر بلوچ --. ایک شام وہاں سے گذر رہے تھے تو دیکھا کہ کالج کے مرکزی گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹا گیٹ کھلا ہے، ہم اندر داخل ہو گئے۔ اندر کوئی نظر نہیں آیا، آگے بڑھے تو ایک تختی نظر آئی۔ ہم نے فوراََ اس کی تصویر بنا ڈالی۔
فوٹو -- اختر بلوچ --. اب ہم عمارت کے دائیں بائیں دیکھنے لگے۔ اتنی دیر میں ایک نوجوان ہمارے پاس آئے۔ انھوں نے شائستہ لہجے میں ہماری آمد کی وجہ معلوم کی۔ ہم نے انھیں بتایا کہ ہم پرانی تاریخی عمارتوں پر لکھ رہے ہیں۔ اس لیے یہاں آئے ہیں۔ انھوں نے کندھے اچکائے اور چلے گئے۔ ہم نے بھی سکون کا سانس لیا۔ جلدی جلدی دو تین اور تختیوں کی تصویریں بنا لیں۔ اچانک کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو پہلے والے نوجوان کے ساتھ ایک اور نوجوان کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نمایاں تھے۔ ان کے سوال کرنے سے پہلے ہی ہم نے اپنی آمد کا مقصد بتا دیا۔ نوجوان نے غصیلے لہجے میں کہا کہ ہم فوراََ تصویریں بنانا بند کریں۔ اگر تصویریں بنانی ہیں تو دن میں پرنسپل کی اجازت لے کر بنائیں۔
فوٹو -- اختر بلوچ --. ہمارا کام ادھورا رہا لیکن اگلے دن پرنسپل سے ملنے کا ارادہ ظاہر کر کے عمارت سے باہر نکل آئے۔ اس کالج کا نام اب گورنمٹ کالج فار ویمن شارع لیاقت ہے لیکن اندر لگی ہوئی تختیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کالج کا نام CARNEIRO Indian Girls High School 1933 ہے۔ ایک تختی پر پاٹھ شالہ بھی لکھا ہے۔
فوٹو -- اختر بلوچ --. محمودہ رضویہ 1947 میں اپنی مطبوعہ کتاب کے صفحہ نمبر 119 پر کالج اور اسکول کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ لڑکیوں کے لیے وشن دیوی ہائی اسکول، کارنیرو گرلز ہائی اسکول، شاردا مندر ہائی اسکول اور بھنپت مل آریا پُتری پاٹھ شالا کے نام سے لڑکیوں کے اسکول تھے۔
فوٹو -- اختر بلوچ --. بینکوں کے حوالے سے محمودہ رضویہ اپنی کتاب میں کراچی کے مشہور بینکوں کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ نیشنل بینک آف انڈیا، چارٹرڈ بینک آف انڈیا، امپیریل بینک آف انڈیا کا شمار نامی گرامی بینکوں میں ہوتا تھا۔ ایک دن پریس کلب میں دوستوں سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ ایک دوست عزیز سنگر نے جو ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے تاریخی مقامات کے حوالے سے بے شمار دستاویزی فلمیں بنا چکے ہیں ہم سے پوچھا۔ ہاں بھائی اگلا بلاگ کس پر ہے؟ ہم نے بتایا کراچی میں ہندوستان کے نام سے منسوب پُرانی عمارتوں پر۔ انھوں نے فوراََ ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ سٹی کورٹ کے بالکل سامنے بینک آف انڈیا کی عمارت ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی غالباََ بینک آف انڈیا تھا۔
فوٹو -- اختر بلوچ --. ہم سٹی کورٹ کے سامنے بینک آف انڈیا کی عمارت تلاش کرنے پہنچے۔ جو نشانیاں انہوں نے بتائی تھیں وہ عمارت نظر آ گئی لیکن بلڈنگ کی پیشانی کو پاکستان کے ایک نجی بینک کے بورڈ نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ بینک آف انڈیا کا نام کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔
فوٹو -- اختر بلوچ --. مزید قریب جا کر دیکھا تو 'بینک آف انڈیا' دھندلے حرفوں میں لکھا نظر آیا۔ اس عمارت کا نام اب کورٹ ویو بلڈنگ ہے۔ اب ہم اسٹیٹ بینک پہنچے۔ اس کی جدید عمارت سے جڑی ہوئی ایک پرانی عمارت کے اوپر اسٹیٹ بینک میوزیم لکھا تھا۔ لیکن اس کے پیچھے 'امپیریل بینک آف انڈیا' کے الفاظ ہمیں دیکھ کر کسی شریر بچے کی طرح مُنہ چڑا رہے تھے۔
اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں












لائیو ٹی وی
تبصرے (18) بند ہیں