غذا میں سرمایہ کاری

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ساری دنیا میں حکومتی لیڈروں پر اقتصادی ترقی کا جنوں سوار ہے، پاکستانی لیڈر بھی ان سے الگ نہیں ہیں-

اقتصادی اعداد و شمار تقریباً روزانہ جمع کیے اور جانچے جاتے ہیں- اور جب یہ اعدادوشمار غلط سمت کی طرف جانے لگتے ہیں تو شرمندگی اور بیچینی کا سبب بنتے ہیں- کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہی طریقہ کار غذا کے اعدادوشمار کے لئے رکھا جاتا-

اس ہفتے ثبوتوں کے ساتھ دو بڑی اشاعت سامنے آئی ہیں، پہلی دی انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اسٹڈیز کی 'سینگ دی ان سین: بریکنگ دی لوگجیم آف مال نیوٹریشن ان پاکستان' ( Seeing  the Unseen: Breaking the Logjam of Malnutrition in Pakistan) اور دوسری آغا خان یونیورسٹی کی 'دی پولیٹیکل اکانومی آف انڈر نیوٹریشن ان پاکستان' (The Political Economy of Undernutrition in Pakistan)-

ان دونوں اسٹڈیز میں یہ بحث کی گئی ہے کہ معیشت میں اضافے کے باوجود غذائی معیار کیوں خراب ہوتا چلا گیا-

ان اسٹڈیز کے لئے فنڈنگ یو کے گورنمنٹ کے شعبہ براۓ بین القوامی ترقی نے مہیا کی-

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ہے جہاں اونچے درجے کی غذائی قلت ہے، یہاں چالیس فیصد بچے قد میں نامکمل افزائش کا شکار ہیں- اس کا مطلب ہے نامکمل قوت مدافعت، نامکمل دماغی افزائش، اور زندگی کے نامکمل امکانات اور ان سب کا مجموعہ بنتی ہے نامکمل اقتصادی ترقی-

ایک حالیہ مستند اسٹڈی کے مطابق اگر جنوبی ایشیا کی غذائی قلت کا لیول لاطینی امریکا جتنا بھی ہو جاۓ تو اسکی جی ڈی پی پیداوار میں گیارہ فیصد اضافہ ہو سکتا ہے-

بدقسمتی سے پاکستانی غذائی قلت کے اعدادوشمار غلط سمت میں جا رہے  ہیں- اس کے باوجود غذائی قلت کے حوالے سے کوئی شہہ سرخی نہیں لگائی جا رہی، سیاستدان اسکے لئے فکرمند نہیں ہیں، اور نا ہی سول سوسائٹی اس  حوالے سے کوئی شور مچا رہی ہے-

یہ واضح کرتے چلیں کہ سنہ انیس سو پچاسی میں غذائی قلت کی شرح بیالیس فیصد تھی جو اب بڑھ کر چوالیس فیصد ہو گئی ہے، یعنی اس دوران نامکمل افزائش والے بچوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے -- چھ ملین سے بارہ ملین یا یوں کہہ لیں پانچ سو سینتالیس بچے روزانہ-

تو پھر کوئی کارروائی یا غم و غصّہ کیوں نہیں؟

پہلی بات تو یہ کہ غذائی قلت کے اثرات نمایاں نہیں ہوتے- مثلاً جب تک غذائی قلت مہلک نہ ہو جاۓ نامکمل نمو والے بچے قد میں بھلے کم لیکن صحتمند ہی دکھتے ہیں، حالانکہ وہ ہوتے نہیں ہیں- ان کے دماغ چھوٹے، ہموار اور کم ٹھوس ہوتے ہیں اس لئے ان میں سیکھنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے-

بالکل اسی طرح ان کی قوت مدافعت بھی کمزور ہو چکی ہوتی ہے--- ان میں ناقص پانی اور صفائی سے پیدا ہونے والے بیکٹیریا اور وائرس کا سامنا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے نتیجتاً وہ اکثر بیمار رہتے ہیں-

دوسری بات یہ کہ غذائی قلت کا کوئی ذمہ دار نہیں- اس حوالے سے کوئی کارروائی کی جا سکتی ہے تو بس ہیلتھ سیکٹر کی طرف سے، اور یہ محکمہ بھی اکیلے غذائی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا-

سرکاری محکموں میں کوئی مرکزیت نہیں ہے، نہ غذائی بجٹ ہے، اور نا ہی غذا کے لئے کوئی حکومتی لیڈر مقرر ہے-

تیسرے یہ کہ شیرخوار بچے ووٹ نہیں دے سکتے، چناچہ وہ سیاست دان جو فوری انتخابی جیت کی تلاش میں ہیں ان کے نزدیک بچوں کی غذائی ضرورت کو اپنے ترقیاتی ایجنڈا میں سر فہرست رکھنا غیر ضروری ہے-

چوتھی بات یہ کہ غذائی بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ کلاس، جنس اور علاقائی غیر مساویت ہے-

پاکستان حکومت نے حال ہی میں عالمی تحریک براۓ غذائی پیمانہ کاری کے لئے دستخط کیے ہیں- یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت مسئلہ کی گہرائی کو سمجھتی ہے اور اس حوالے سے کچھ نمایاں کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے-

یہ ایک بہترین پہلا قدم ہے، مگر صرف پہلا قدم ہی ہے- اب مزید ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وفاقی سطح پر اور غذائی سرگرمیوں کے لئے ذمہ دار صوبوں میں ایک ہائی پروفائل عہدیدار متعین کرے-

اس کے علاوہ فنڈز قائم کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ زیادہ تر بیرونی ڈونر موجودہ غذائی سرگرمیوں کے لئے چندہ دیتے رہے ہیں- کیا ہوگا اگر انہوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے؟

اب یہ کہ کس طرح کے اقدامات کیے جانے چاہئیں؟

جیساکہ اقتصادی ترقی میں غذا کو اہم ان پٹ کے طور پر شامل کیا جاۓ، ایک غذائی بجٹ قائم کیا جاۓ اور اس کی فنڈنگ کی جاۓ، غذائی ضرورتوں کو صف اول پر رکھنے کے لئے گنجائش پیدا کی جاۓ، اس بات کو یقینی بنایا جاۓ کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بچوں کی غذائی ضرورت کے لئے مثبت استعمال کیا جاۓ، غذائی اعدادوشمار مسلسل حاصل کیے جائیں، (جب آپ اقتصادی اعدادوشمار کے لئے دس سال گزرنے کا انتظار نہیں کرتے تو پھر غذائی اعدادوشمار کے لئے ایسا کیوں؟)

حکومت کے لئے یہ سب کرنا ممکن ہے- خوراک کے شعبے میں پہلے بھی یہ ایسا کر چکی بات صرف اپنا دھیان اس طرف مرکوز کرنے کی ہے، مثلاً سالٹ  آئوڈائیزیشن (salt  iodisation) سنہ دو ہزار ایک میں سترہ فیصد سے سنہ دو ہزار گیارہ تک انہتر فیصد تک پہنچ گئی-

ان اقدامات کے لئے وقت بالکل درست ہے- سنہ دو ہزار دس اور سنہ دو ہزار گیارہ کے سیلاب کے بعد پاکستانیوں کو دائمی غذائی قلت کی کافی حد تک سمجھ آگئی ہے- نیشنل نیوٹریشن سروے آف 2011 کے مطابق یہ رجحان بدتر ہوتا جا رہا ہے-

اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کے لئے مالیاتی اور پالیسی کی گنجائش بڑھا دی ہے تاکہ صوبے غذائی قلت کو کم کرنے کے لئے متحرک اور جدید اقدامات کریں، اور آثار بتا رہے ہیں کہ وہ یہ سب کرنے کی تیاری پکڑ رہے ہیں-

حقیقت تو یہ ہے کہ اگلے پانچ سال حکومت کے لئے سرمایہ کاری کے بہترین مواقع فراہم کر رہے ہیں- پاکستانی آبادی کا تخمینہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سنہ دو ہزار تیس تک، نان-ورکنگ ایج افراد کے مقابلے میں ورکنگ ایج افراد کی تعداد انتہا پر ہوگی: یعنی ہر نوعمر یا عمر رسیدہ فرد کے لئے دو ورکنگ ایج افراد موجود ہوں گے-

اسے "آبادیاتی تقسیم" کہا جاتا ہے --- یعنی کام کرنے والے افراد کو پہلے سے کم افراد کی کفالت کرنا ہوگی-

لیکن یہاں لفظ "تقسیم" کے استعمال میں ایک اہم نکتہ بھی شامل ہے، یہ کہ وہ لوگ جو لیبر فورس میں داخل ہوں انہیں نوکریاں ملیں، اور یہ نوکریاں انہیں غربت سے باہر نکلنے میں مدد دیں-

لیکن یہ خیال اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتا جب تک، ایک شیرخوار کی حیثیت سے ان لیبر مارکیٹس کے امیدوار نامکمل نمو یا افزائش کا شکار رہیں گے- بالغ ہونے کے بعد وہ ایسی ملازمت حاصل نہیں کر پائیں گے جو پاکستان کی معیشت کو آگے بڑھا سکے اور انہیں اور ان کے خاندان کو غربت سے باہر نکال سکے- ہمیں سنہ دو ہزار تیس کے بجاۓ ابھی ان سب کا سدباب کرنا ہوگا-

عالمی تحریک براۓ غذائی پیمانہ کاری میں حکومت کی شمولیت قابل تحسین ہے- لیکن اب اس حوالے سے کچھ حقیقی وابستگی دیکھنا چاہیں گے، اور صرف عوامی اخراجات کے حوالے سے ہی نہیں- پاکستان کو عدم مساوات اور سیاسی رکاوٹوں سے بھی نمٹنا ضروری ہے جو بچوں تک اقتصادی ترقی کے فوائد پنہچنے کے بیچ حائل ہیں-

یہ اقتصادی ہوشیاری ہے اور ساتھ ہی ایک درست قدم بھی-


مصنفین بین الاقوامی اور قومی تحقیقی اداروں کے سینئر محققین ہیں.

ترجمہ: ناہید اسرار

حارث گزدر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شہلا زیدی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لارنس حداد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025