نظریاتی سرحدیں اور پارلیمنٹ
پاکستان کی افواج پاکستان کی جغرافیایی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہیں یہ جملہ پڑھتے پڑھتے بالوں میں سفیدی اترنے کو ہے لیکن یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آسکی کہ ایسا دنیا سے انوکھا کون سا نظریہ مجھ سے زیادہ سفید سر والوں نےدریافت کیا تھا کہ جس کی سرحدیں بھی ہیں اور ان سرحدوں کو اپنی حفاظت کے لیے باقاعدہ فوجوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
باقاعدہ فوج کو باقاعدہ پڑھنے اور سمجھنے کا دعوی کرنے والےدفاعی تجزیہ نگار یہ لکھتے ہیں کہ اب نظریے کی سرحدوں کی حفاظت باقاعدہ فوج نے بےقاعدہ فوج کے حوالے کر دی ہے جو القاعدہ کے ساتھ مل کے یہ فرض سرانجام دیتی ہے۔ لیکن وہ تجزیہ کار بھی یہ نہیں بتاتے کے اس نظریے کی سرحدیں کہاں سے کہاں تک پھیلی ہیں۔
کوئی استاد تو سمجھانے کی جرات نہیں کرتا لیکن جہاں تک ہم اپنے محافظوں کے طریقہ وردات اور دعووں کو دیکھ اور پڑھ کر سمجھے ہیں یہ نظریہ ہمارے سیاست دانوں کی خواب گاہوں سے لیکر تابہ خاک کاشغر پھیلا ہوا ہے (اس جملے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے سیاستدان نیل کے ساحل پہ سوتے ہیں)۔
دلیل اس دعوے کی یہ کہ نظریے کی حفاظت کے ذمےدار ایک طرف تو سیاستدانوں کی خوابگاہوں کی خبریں کبھی ان کے اور کبھی ہم سب کے سامنے لاتے ہیں تو دوسری طرف ان کے غیر سرکاری ترجمان قبلہ ذید ذمان حامد سو سے ذیادہ ملکوں میں ان محافظوں کے خفیہ طور پر کام کرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اب اس کا کیا کیجے کہ دنیا میں ابھی ملک ہیں ہی سو سے کچھ زیادہ اور ہوتے تو شاید وہاں بھی یہ محافظ موجود ہوتے۔
میں نے اس نظریے سے زیادہ کام کی شے آج تک نہیں دیکھی۔ اس کی مدد سے ٹی وی پروگرام سنسر کیے جا سکتے ہیں، شلواروں کی اونچائی مقرر کی جا سکتی ہے، عوامی حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں، طالبان بناےٴ جا سکتے ہیں، پکڑے جا سکتے ہیں، بیچے جا سکتے ہیں، ان سے امن معاہدے کیے جا سکتے ہیں غرض کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان کو برآمد کیے جانے والے آلوؤں اور حرّیت پسندوں کا بھاؤ بھی اسی نظریے کے تحت طے ہوتا ہے۔ وزارت خارجہ اسی کی وجہ سے کمپوچیہ، شمالی آئرلینڈ اور جنوبی قبرص جیسی بڑی طاقتوں سے پاکستان کے تعلقات کی نگرانی کرتی ہے کیونکہ امریکا اور چین جیسے معمولی ملکوں سے نظریے کے محافظ خود نمٹ لیتے ہیں۔
ہماری منتخب پارلیمان کچھ عرصہ پہلے تک اگر اس نظریےٴ سے چھیڑ چھاڑ کرے تواسے آٹھ دس سال کے لیے معطل کر دیا جاتا تھا لیکن یہ تب کی بات ہے کہ جب ہم ابھی روشن خیال نہیں ہوے تھے اور اسلام کا مطلب امریکا سے نہیں روس سے لڑنا تھا۔
امریکہ کے ساۓ میں ہی سہی پارلیمان نے یہ کوشش تو کی کہ اس نظریے کے موجدوں کے علاوہ صحافیوں، تجزیہ کاروں، اور دیگر ماہرین سے بھی راۓ لی جاۓ کہ ایسا نظریہ جس کے محافظ خواب دیکھنے والوں کو مجرم گردانتے ہوں ہونا بھی چاہیے یا نہیں۔
اچھی بات ہو گی کہ پارلیمان جو فیصلہ کرے لوگوں کو بھی بتاۓ کیونکہ ہم جیسے لوگ جغرافیہ کے پرچے میں افغانستان کو اس وقت بھی علیحدہ ملک لکھتے رہے جب نہ پارلیمان کو اس کے پاکستان کا پانچواں صوبہ ہونے پر اعتراض تھا نہ امریکہ کو۔ اب امتحان پارلیمان کا ہے۔ اسے تاریخ بدلنی ہے۔ یوں نہ ہو کہ تاریخ پرانی طرز پر لکھی جاتی رہے اور جغرافیہ پھر بدل جاۓ۔
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں












لائیو ٹی وی