ادائیگی کا وقت آگیا

شائع November 5, 2012

اب باری کرکٹ کے ان کھلاڑیوں کی ہے جنہوں نے ٹیکس چوری یا کم انکم ٹیکس ادا کرکے اپنی شہرت کو رسوائی سے دوچار کردیا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف روینیو کے انکم ٹیکس ڈویژن نے بیس کرکٹرز کو متوقع طور پر ایک سو ملین روپے کے انکم ٹیکس کی وصولی کے لیے نوٹسز جاری کیے ہیں۔

جاری مالی سال کے لیے مجموعی ٹیکسوں کا ہدف تقریباً دو اعشاریہ چار کھرب روپے ہے۔ اس مجموعی ٹیکس کو فیصد کی شرح سے دیکھیں تو یہ رقم بہت ہی معمولی ہے مگر دوسرے معنوں میں اس لیے نہایت اہم ہے کہ ٹیکس چوروں کے چہروں کو عوام کے سامنے لایا جاہا ہے۔

یہ آئیڈیا گزشتہ سال ایف بی آر کے انکم ٹیکس انویسٹی گیشن شعبہ نے پیش کیا تھا، جس کا مقصد ایسے بڑے بڑے دولتمند پاکستانیوں کے چہروں کو بے نقاب کرنا تھا جو یا تو انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے یا پھر آمدنی کے مقابلے میں بہت معمولی رقم ادا کرتے ہیں۔

گزشتہ ماہ نادرا ریکارڈ کے ذریعے ایسے دو اعشاریہ تین ملین پاکستانیوں کی فہرست تیار کی گئی تھیں، جن کے کئی بینک کھاتے ہیں، وہ باقاعدگی سے غیر ملکی دورے کرتے ہیں اورر نہایت پُرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ براہ راست ٹیکس کی ادائی کرنے والے نظام میں شامل نہیں۔

اس سے پہلے صرف یہ علم میں تھا کہ رو دھو کر ملک کے صرف تین ملین افراد ہی نیشنل ٹیکس نمبر رکھتے ہیں، جن میں سے آدھے ہی ایسے ہیں جو اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں۔

عالمی تناظر میں یہ نظام نہایت خرابیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ٹیکس نظام انتہائی غیر منصانہ، غیر شفاف اور خام ہے جو صرف عام آدمی پر ٹیکسوں کا دباؤ ڈالتا بڑھاتا جارہا ہے۔

حکومت کو کوئی غرض نہیں کہ امیر آدمی اپنے ذمہ عائد انکم ٹیکس درست طریقے سے ادا کررہا ہے یا نہیں، ہمیں تو اپنے ٹیکسوں کے ذریعے حکومتوں کے اخراجات برداشت کرنے ہی ہیں۔

تو جب ایک دولت مند اپنے ذمہ عائد انکم ٹیکس ادا نہیں کرتا تو اس بوجھ کا بہت بڑا حصہ بلواسطہ ٹیکسوں، جیسے سیلز ٹیکس، کسٹم دیوٹی اور دیگر محصولات کی شکل میں، عوام پر منتقل کردیا جاتا ہے۔

ایک عام اندازے کے مطابق اس وقت حکومت ہر تین روپے براہ راست عائد ایک  ٹیکس سے جب کہ سات روپے ہر بلواسطہ یا ان ڈائریکٹ ٹیکس سے وصول کررہی ہے۔

اگر یہ صورتِ حال بہت زیادہ بری نہیں تو پھر کیوں ہر سال ٹیکس وصولی کی مجموعی شرح تباہ کن تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ صورتِ حال حکومت کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اخراجات پورے کرنے کے لیے مقامی مارکیٹ سے قرض اٹھائے۔ ایسے میں افراطِ زر کی بڑھتی شرح کا دباؤ پڑتا ہے جس سے نجی سرمایہ کاری میں رکاوٹ آتی ہے۔

کم آمدنی والوں کے لیے زیادہ ٹیکس اور زیادہ افراطِ زر کی ہی دُہری مصیبت نہیں، اس کا ایک تیسرا رخ بھی ہے۔

اس صورتِ حال کے باعث نجی شعبے کی پیداواری صلاحیت کم ہونے لگتی ہے جس سے درکار ضرورت کے مطابق ملازمتوں کے مواقع بھی کم ہوجاتے ہیں۔

یہ تاریک صورتِ حال تب تک بدستور برقرار رہے گی جب تک توانائی کا بحران اور سرکیولر ڈیبٹ جیسے عناصر موجود ہیں۔

اس وقت ٹیرف اسٹرکچر کے باعث امیر لوگوں کو سبسڈی والی بجلی مل رہی ہے۔ یہ اور بات کہ اس کے باوجود اکثر امیر صارفین اس کم قیمت باسہولت بجلی کا پورا بل بھی نہیں ادا کرتے۔

دوسری طرف بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات ہیں، جنہیں پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لیے جاتے ہیں یا پھر بلواسطہ ٹیکس لگادیے جاتے ہیں۔

ایف بی آر کو چاہیے کہ بڑے ٹیکس نادہندگان کو رسوائی کے ذریعے ادائی پر مجبور کرنے کے اس سلسلے کو، خود کو ٹیکس ادائی سے ماورا سمجھنے والوں بشمول بڑے بڑے سیاستدانوں اور میڈیا، تک بھی وسعت دے۔

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025