فائل فوٹو۔۔۔۔۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔۔۔۔۔

ہر تھوڑی دیر میں ایک بار، فوج کی وسیع کاروباری سلطنت کے کچھ معاملات، مختصر مدت کے لیے جانچ پڑتال کے تحت آتے ہیں اوراس کے بعد، نہایت تیزی سے عوامی ریڈار پر سے غائب ہوجاتے ہیں۔

 لیکن پیر کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع سے جو بات سامنے آئی وہ بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔

 کمیٹی کے ایک رکن نے سیکریٹری دفاع سے سوال کیا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)  کے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر وزارتِ دفاع کے بجائے فوج کے سربراہ کیوں کرتے ہیں؟

یہ سوال بالخصوص اس لیے بھی اہم تھا، کیونکہ فوج کے نظام میں، مراعات اور سہولتوں کے حوالے سے جو خرابیاں ہیں، ڈی ایچ اے ان تمام معاملات کی نمائندگی کرتا ہے۔

حال ہی میں مسلم لیگ نون نے ڈی ایچ اے اسلام آباد کے معاملے پر قومی اسمبلی میں مزاحمت کا اظہار بھی کیا تھا۔

قانون سازی میں توسیع انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ دوسری ہاؤسنگ اسکیمیں مہنگی زمینیں تیار کر کے فوجی افسران کے حوالے کردیں۔

ڈی ایچ اے ماڈل ایک ایسا نظام ہے جو معاشرے کے اس طبقے کی خدمت کے لیے بنایا گیا جن کی ناز برداریاں پہلے ہی کچھ کم نہیں ہیں۔

آغاز کرتے ہیں اس نظریے سے جو ڈی ایچ اے کی پشت پر کار فرما ہے:

 اس کے قیام کا مقصد فوجی افسران کو سب سے قیمتی شے یعنی زمین میں سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنا تھا۔ یہ نظریے کے طور پر بھی کافی قابلِ اعتراض ہے تاہم حقیقت اس سے بھی کہیں زیادہ پریشان کُن ہے۔

آج ذرا ڈی ایچ اے کا ایک عمومی سروے کر کے دیکھ لیں، صاف پتا چل جائے گا کہ کتنے سابق فوجی افسران اور کتنے سویلین وہاں مقیم ہیں۔

 اگر ان کا شرح فیصد میں تناسب نکالیں گے تو اکثریت 'سویلین' کے حق میں ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ ڈی ایچ اے پر انتظامی نگرانی تو قائم ہے فوج کی جبکہ وہاں کی زیادہ تر قانونی ملکیت ہے سویلین دولتمندوں کے پاس۔

اس کی وجہ سیدھی سادی ہے: ڈی ایچ اے میں رہائشی لاگت بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے اکثر افسران ریاست کی طرف سے دیے گئے پلاٹ فروخت کردیتے ہیں یا مکانات کرائے پر اٹھادیتے ہیں۔

 ڈی ایچ اے کے پیچھے حقیقی ترکیب یہ کار فرما ہے کہ زمینوں کو کوڑیوں کے مول حاصل کر لیا جائے (ویسے بھی کون سی ایسی لینڈ اتھارٹی ہوگی جو فوج کی بولی پر مزاحمت کرسکے؟)

بعد ازاں اس زمین کو عوام کے پیسوں سے ڈویلپ کیا جاتا ہے، پلاٹ تیار کیے جاتے ہیں اور منظورِ نظر کو تحفے کے طور پر الاٹ کر دیے جاتے ہیں۔

تعریف کے مطابق، چاہے رقم نجی کاروبار کے ذریعے پیدا کی جائے یا قومی خزانے سے موصول ہو، تمام رقم ایک پبلک ٹرسٹ کے زریعے فوج کے اختیار میں رہتی ہے۔

ایسی وضاحت کے متعدد طریقے ہیں کہ جن کی بنا پر ڈی ایچ اے کے ڈیزائن اور 'ادارتی بدعنوانی' کے نشانات باہم دور نہیں ہوں گے۔

بریگیڈئیر یا میجر جنرل کےمساوی، نجی شعبے میں وسط سے سینئر سطح پر کام کرنے والے ایک بینکار کا کہنا ہے کہ تمام عمر نجی شعبے میں کام کرنے کے باوجود، ہم وہ سب کچھ حاصل نہیں کرپاتے جو معمول کے مطابق بڑی تعداد میں فوجیوں کو مل جاتا ہے۔

  اگرچہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کی دیکھ بھال کا خاص خیال رکھے جنہوں نے اپنی زندگی وطنِ عزیز کے دفاع پر صرف کردی، یقینی طور پر لاکھوں بٹورنا مساوات کا حصہ نہیں ہوسکتا۔

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے بارے میں مزید چھان بین موروثی ناانصافیوں کو بے نقاب کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں