فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اس ملک سے روٹھنے والی چیزوں کی فہرست طول ہی پکڑے جا رہی ہے، امن، برداشت، رواداری تو کافی عرصۂ ہوۓ بچھڑ چکے تھے ثقافت بھی اب اپنا بوریا بستر گول کرنے میں لگی ہوئی ہے.

برصغیر میں لاہور کا نام کئی اور حوالوں کے علاوہ اس خطہ کی ثقافت میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کی بدولت بھی ایک زندہ مثال کے طور پر جانا جاتا ہے. انہی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ایک میلہ 'بسنت' نامی بھی تھا.

ادھر پنجاب کے کھلیانوں میں سرسوں پھوٹی ادھر فضا میں رنگ بکھر جاتے تھے اگرچہ اس تہوار کے موقعہ پر بھی ثقافت پر پابندیاں لگانے والے روایتی گروہ اپنے اپنے مشن پر نکل کھڑے ہوتے تھے کہ اس میلہ کو بھی جکڑ دیا جائے لیکن یہ تہوار لاہور کے باسیوں میں اتنا رچ بس گیا تھا کے انھیں ہر مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا.

آہستہ آہستہ لاہور کے ہونٹوں پر سجی اس خوبصورت مسکراہٹ کی خبر چار دانگ پھیل گئی اور بسنت کا موسم آتے ہی شہر غیر ملکی سیاحوں سے بھرنے لگتا. ایسے ثقافتی میلے اپنے ساتھ کاروباری سرگرمیوں کی بھی آبیاری کرتے ہیں اس لئے ڈور گڈی والوں کی چاندی تو ہوتی ہی تھی ساتھ ہی ساتھ دس پندرہ ایسے بلاواسطہ کاروبار بھی تھے جو اس میلے کی بدولت پھل پھول رہے تھے.

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ رنگوں سے سجے آسمان کو نظر لگ گئی، ایک ثقافتی میلہ 'خونی کھیل ' کہلانے لگا اور اس موسم کی پیلاہٹ نے سرخی کی چادر اوڑھ لی اور جو کام کوئی نہ کر سکا وہ کام پیسے کی ہوس نے کر دکھایا!

بازار میں آنے والی چند ڈوروں نے نہ صرف معصوم شہریوں کے گلے کاٹنا شروع کر دیے بلکہ ساتھ ہی اس تہوار کی شاہ رگ بھی کاٹ دی. اب فروری مارچ کا مہینہ رنگوں سے نہیں سجتا بلکہ ایک عجیب سی اداسی آسمان پر ڈیرے ڈالے اپنے ماضی کا ماتم کرتی محسوس ہوتی ہے. حکومت نے اپنی روایتی نااہلی اور 'غربت نہیں غریب ہی مٹاؤ' جیسی پالیسی کے تحت ہی اس تہوار کو خونی کھیل بنانے والوں کے بجائے بسنت کا ہی دم گھونٹ دیا ...خس کم جہاں پاک ، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری !!!

بجائے یہ کہ ڈور کی اس خاص قسم کے کاروبار کو روکا جاتا اور اسکو ایک انتظام کے تحت لایا جاتا اور انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لئے پالیسی سازی کی جاتی.

جس وقت اس تہوار پر خونی ہوس نے حملہ کیا تھا اس وقت تو پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا بھی اپنے قدم جما چکا تھا اسے استعمال کر کے لوگوں میں نہ صرف شعور کو اجاگر کیا جاتا بلکہ 'کیمیکل' اور دھاتی ڈور کے بنانے، بیچنے اور استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کر کے انکی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی جس سے یقیناً اس کے آگے بند باندھا جا سکتا تھا.

کچھ عرصۂ کے لئے اس تہوار کو چھتوں سے ہٹا کر پارکوں اور کھلے میدانوں میں لے جایا جا سکتا تھا. ڈور کی خرید و فروخت کو حکومتی کنٹرول میں لیا جا سکتا تھا لیکن اس سب کے بجائے آسان حل ڈھونڈا گیا اور جس وقت اس تہوار کی خوشبو دنیا بھر سمیت پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی پھیلنا شروع ہونے لگی ہی تھی کے یہ مسکراہٹ دم توڑ گئی، بلکہ نوچ لی گئی!

کیا ہم نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر ملک میں کسی کھیل میں ایسی چیز در آئے تو بجائے اسکی روک تھام کرنے کے اس کھیل کی بازی ہی الٹا دی جائے گی؟ پھر تو یہ سلسلہ کہیں رکنے والا نہیں آج اسکا شکار بسنت ہے کل کوئی اور کھیل ہو گا ، افسوس اسکا ہے کہ بسنت کے ختم ہونے کے ساتھ ایک کھیل ہی نہیں ختم ہوا بلکہ ایک تاریخ اور ثقافت کو بھی دفن کر دیا گیا ہے.

پنجاب کی موجودہ نگران حکومت نے اس تہوار کی بھاپ ہی اپنے منہ سے نکالی تھی کہ ایسا شور اور غلغلہ اٹھا کہ انہوں نے بھی چپ سادھ لی یہ سوچے اور دیکھے بغیر کے کس قسم کے اقدامات یا پالیسی کا اعلان کیا جا رہا ہے بس آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر 'نہیں نہیں' کی رٹ لگانا شروع کر دی تاکہ اتنا شور مچے کہ کوئی دوسری آواز نہ سنی جا سکے خیر اس رویہ کو کیا رونا یہ ترکیب تو اب ہمارے قومی مزاج کا حصّہ ہے.

ثقافت روح کی غذا ہے، اور ایسی 'غذاؤں' کی ضرورت تو ان قوموں کے لئے ویسے بھی بڑھ جاتی ہے جنکی روح دہشت گردی، جنونیت اور شدت پسندی سے تار تار ہو. اقدامات اور تدابیر سے لاہور ہی نہیں پاکستان کو بھی اسکا یہ سرمایا لوٹا دیجئے. آسمان کو اسکے رنگ اس سے پہلے واپس کر دیجیے کہ وہ بسنت کی شوخی ہی بھول جائے اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ تہوار ایک بھولی بسری یاد بن کے رہ جائے!


  علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں