معین اختر— تصویری یادوں میں

23 اپريل 2013

پاکستان کے ورسٹائل اداکار معین اختر کی کچھ دلچسپ یادوں پر مشتمل میڈیا گیلری۔

ان کا خیال تھا کہ اظہار رائے کی آزادی ٹی وی پر موجود نہیں جس کے باعث پاکستان میں مزاح کا معیار بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ان کا خیال تھا کہ اظہار رائے کی آزادی ٹی وی پر موجود نہیں جس کے باعث پاکستان میں مزاح کا معیار بری طرح متاثر ہوا ہے۔
سنجیدہ مزاج والد اور مدبر و دین دار والدہ سمیت خاندان میں کسی بھی شخص میں فنون لطیفہ کا شوق موجود نہیں تھا اس کے باوجود وہ پاکستان ٹی وی پر ایسے انداز میں چھائے کہ اب تک اس کی مثال نہیں ملتی۔
سنجیدہ مزاج والد اور مدبر و دین دار والدہ سمیت خاندان میں کسی بھی شخص میں فنون لطیفہ کا شوق موجود نہیں تھا اس کے باوجود وہ پاکستان ٹی وی پر ایسے انداز میں چھائے کہ اب تک اس کی مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ مزاجاً میں بہت سنجیدہ شخص ہوں، میں مزاح کے شعبے میں حادثاتی طور پر داخل ہوگیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مزاجاً میں بہت سنجیدہ شخص ہوں، میں مزاح کے شعبے میں حادثاتی طور پر داخل ہوگیا تھا۔
وہ پی ٹی وی کو بہت سراہتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی نے مجھے تیار کیا، اس نے میری زبان ٹھیک کی اور مجھے سیکھایا کہ کس طرح کیمرے کا سامنا کرنا چاہئے۔
وہ پی ٹی وی کو بہت سراہتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی نے مجھے تیار کیا، اس نے میری زبان ٹھیک کی اور مجھے سیکھایا کہ کس طرح کیمرے کا سامنا کرنا چاہئے۔
اداکاری کی ہر صنف میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے معین اختر 24 دسمبر 1950ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔
اداکاری کی ہر صنف میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے معین اختر 24 دسمبر 1950ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔
معین اختر خود بھی کافی سنجیدہ مزاج انسان تھے، اس بات کا وہ خود بھی اعتراف کرتے تھے۔
معین اختر خود بھی کافی سنجیدہ مزاج انسان تھے، اس بات کا وہ خود بھی اعتراف کرتے تھے۔
وہ موجودہ عہد کے مزاحیہ ڈراموں سے مطمئن نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اب لگتا ہے کہ ہمارے ڈراموں میں ذومعنی فقروں کی بھرمار ہوگئی ہے اور اس سے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں مزاح دم توڑ رہا ہے۔
وہ موجودہ عہد کے مزاحیہ ڈراموں سے مطمئن نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اب لگتا ہے کہ ہمارے ڈراموں میں ذومعنی فقروں کی بھرمار ہوگئی ہے اور اس سے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں مزاح دم توڑ رہا ہے۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں معین اختر ٹی وی اور انٹرٹینمنٹ گروپس کو معتصب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں جب میرا بائی پاس ہوا تو مجھے ڈر تھا کہ اب لوگ مجھے بھول جائیں گے۔ ٹی وی اور انٹرٹینمنٹ گروپس نے بھی کہنا شروع کردیا تھا کہ اب میرا وقت ختم ہوچکا ہے۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں معین اختر ٹی وی اور انٹرٹینمنٹ گروپس کو معتصب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں جب میرا بائی پاس ہوا تو مجھے ڈر تھا کہ اب لوگ مجھے بھول جائیں گے۔ ٹی وی اور انٹرٹینمنٹ گروپس نے بھی کہنا شروع کردیا تھا کہ اب میرا وقت ختم ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پیسے کیلئے ٹی وی پر کام نہیں کرتے، کیونکہ وہ پہلے ہی شہرت و دولت حاصل کرچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پیسے کیلئے ٹی وی پر کام نہیں کرتے، کیونکہ وہ پہلے ہی شہرت و دولت حاصل کرچکے ہیں۔
انہوں نے اپنی فنکارانہ زندگی کا آغاز انیس سو چھیاسٹھ میں سولہ سال کی عمر میں چھ ستمبر کو پاکستان کے پہلے یوم دفاع کی ایک تقریب سے کیا اور حاظرین کے دل جیت لیے۔
انہوں نے اپنی فنکارانہ زندگی کا آغاز انیس سو چھیاسٹھ میں سولہ سال کی عمر میں چھ ستمبر کو پاکستان کے پہلے یوم دفاع کی ایک تقریب سے کیا اور حاظرین کے دل جیت لیے۔
معین اختر جیسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ ان کو بھلانا بھی آسان نہیں۔
معین اختر جیسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ ان کو بھلانا بھی آسان نہیں۔