پی ٹی آئی کے اندر بغاوت سلگ رہی ہے؟
خیبر پختونخوا میں گیارہ مہینے سے اقتدار میں رہنے والی پاکستان تحریک انصاف پہلے پی پریشانی میں مبتلا ہے۔
صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے باغی ارکان کی تعداد اب بیس تک جاپہنچی ہے، مزید اس گروپ میں شامل ہونے والے ہیں، اور قومی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمنٹیرینز کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی ایسی ہے جنہیں خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک سےشکایات ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے باغی ارکان کو پارٹی کی مرکزی قیادت سے کابینہ میں حالیہ اضافے کے معاملے پر شکایات ہیں، اور پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی پرویز خٹک کے رویے پر تنقید کررہے ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے باغی اراکین پرویز خٹک سے بات کرنا نہیں چاہتے ہیں اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے براہِ راست بات کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ایک اہم باغی رکن کے الفاظ میں کہ وہی پارٹی کے معاملات میں فیصلہ کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں باغی اراکین کی تعداد کے متعلق اب خیال کیا جارہا ہے کہ چودہ ہو گئی ہے، جو پہلے عمران خان سے بات کرچکے ہیں۔ وہ وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ایک رکن نے اعتماد کے ساتھ بتایا کہ وزیراعلٰی کے حوالے سے ان کے صبر کا پیمانہ چھلک چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اراکین بھی ایک فارورڈ بلاک تشکیل دے سکتے ہیں، اور پارٹی کے چیئرمین اس بات سے واقف ہیں۔
پارٹی کے اندر مسائل اس وقت شروع ہوئے جب کہ پچھلے سال جون میں وزیروں کے پہلے گروپ نے حلف اُٹھایا تھا۔ وزارت کے لیے امیدیں باندھنے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی، جنہوں نے اس پر ناخوش ہوکر شکوہ شکایت شروع کردی تھی۔
پرویز خٹک نے مشیروں، خصوصی معاونین، پارلیمانی سیکریٹریوں اور ضلعی ترقیاتی مشاورتی کمیٹیوں کے چیئرمین کے عہدوں پر لوگوں کی ایک بے مثال تعداد کو فوری طور پر مقرر کرکے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
جلد ہی پارلیمانی کمیٹیوں کی مضحکہ خیز بڑی تعداد ایک نیا چیلنج بن گئی۔
اس لیے کہ حکومت کو بہت سی قائمہ کمیٹیوں کے اراکین کی کافی تعداد دستیاب نہیں ہورہی تھی، اس لیے کہ بہت سے تو ان کی قیادت کررہے تھے۔
کچھ پارلیمانی سیکریٹریز کو قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین کے عہدے پر بھیج دیا گیا، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں تھا۔
کابینہ میں ردّوبدل سے دوبارہ قیاس آرائیاں چاروں طرف گردش کرنے لگیں، بظاہر کارکردگی کو اہم عنصر قرار دیا جارہا تھا۔
لیکن وزیرِ صحت کی تبدیلی نے کچھ تنازعہ پیدا کردیا، یہ نئے وزراء کی کابینہ میں شمولیت تھی جس کے سبب ان لوگوں کے درمیان شوروغوغا شروع ہوگیا تھا جنہیں نظرانداز کردیا گیا تھا، جو کابینہ میں اپنی جگہ کی امید کررہے تھے۔
یہ قیاس آرائی کافی نہیں تھی، جلد ہی وزیرِ اعلیٰ اور عمران خان کے حمایت یافتہ خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری کے درمیان ایک جنگ سی شروع ہوگئی، یہ بھی افواہیں گردش کررہی تھیں کہ پرویز خٹک اسلام آباد میں پارٹی کی بااثر شخصیت کی براہِ راست مداخلت سے خوش نہیں ہیں۔
قیاس آرائیاں اس لیے بھی تھم نہیں سکیں، کہ وزیرِ اعلٰی نے اپنے ذاتی وفاداروں پر مشتمل ایک گروپ بنالیا تھا، تاکہ پارٹی کے اندر انہیں ہٹانے کی کسی بھی اقدام کو روکا جاسکے۔
ظاہر ہے کہ یہ پارٹی اقتدار کی سیاست میں نئی تھی اور اس کے بہت سے اراکین، چند ایک کو چھوڑ کر عزائم اور توقعات لے کر نئی اسمبلی میں آئے تھے۔
وہ پہلے ہی نظم و ضبط کے بارے میں سوالات کررہے تھے، کہ اس کا نفاذ کہاں ہے اور پارٹی کس راستے پر چل رہی ہے۔ پارٹی کے رہنماؤں کو یاد نہیں کہ ان کی سینٹرل ایگزیکٹیو کونسل کا آخری اجلاس کب ہوا تھا۔ اہم پالیسی فیصلے کور کمیٹی میں لیے جاتے ہیں، جس کے اراکین کی تعداد پندرہ سے بڑھ کر سینتس ہوگئی ہے۔
یہ کیسے ہوا، کوئی نہیں جانتا۔ جبکہ کور کمیٹی کے اراکین کو خفیہ بیلٹ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے، اس کے اراکین کی تعداد میں اضافہ پارٹی کے آئین کی منظوری کے بغیر کیسے ہوگیا۔
پارٹی کے سینئر رہنماء کے مطابق یہ نامزدگیاں پارٹی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے کی گئی تھیں، انہیں یہ اختیار سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے آخری اجلاس میں دیا گیا تھا، کہ جب اور جہاں ضروری سمجھیں نامزدگیاں کرسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مذکورہ رہنماء کو اس اجلاس کی تاریخ یاد نہیں تھی۔
خیبرپختونخوا کی کابینہ میں نامزدگیوں کے حوالے سے پارٹی کے رہنما زور دیتے ہیں کہ اس معاملہ عمران خان اور پرویز خٹک کے درمیان طے پایا تھا، اور اسلام آباد کی بااثر شخصیت اس معاملے میں ملؤث نہیں تھی۔
اس مرحلے پر ان لوگوں سے جو کابینہ میں حالیہ اضافے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، پرویز خٹک کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ عمران خان نے خود کیا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ باغی اراکین براہِ راست عمران خان سے بات چیت کرکے معاملے کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے، مسلم لیگ نون جو عمران خان کی حکومت کو پریشان کرنے اور اسے گرانے کی خواہشمند ہے، اس تنازعے میں پڑے بغیر اس کو نہایت خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کے اراکین کی ایک بڑی تعداد اور باغی گروپ کا سامنے آنے سے خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔
یہاں تک کہ باغی گروپ کے بغیر بھی اگر مسلم لیگ نون چاہے تو با آسانی صوابی گروپ کے ذریعے حکومت کی چھٹی کراسکتی تھی، جس کے لیڈر شہرام تراکئی کو کابینہ میں تازہ ترین ردوبدل کے بعد سینئر وزیر بنا کر صحت کی وزارت کا قلم دان دے دیا گیا ہے۔
جمیعت علمائے اسلام فضل، کے ساتھ شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی اور دیگر پارٹیوں کا کے پی اسمبلی میں موجود ایک گچھہ مل کر پی ٹی آئی کے قدموں کے نیچے سے قالین کھینچنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔
لیکن مسلم لیگ نون اب تک اس معاملے میں پڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کے پی حکومت کرنے کے لحاظ سے آسان صوبہ نہیں ہے، اس خطے میں تشدد نے ریاست کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
مسلم لیگ نون پی ٹی آئی کی حکومت کو پانچ سالوں کے دوران اپنے ہاتھوں آہستہ آہستہ مرتے دیکھنا چاہتی ہے۔