ایک اچھوتا خیال
یہ ایک اشتہار ہے جسے نہ میں فاسٹ فارورڈ کرنا چاہتا ہوں اور نا ہی اس کی آواز بند کرنا چاہتا ہوں- یہ اشتہار میں بار بار دیکھنا اور سننا چاہتا ہوں-
اس کے آغاز میں ایک جواں عورت کو دکھایا گیا ہے جو ایک بڑی تقریب کے لئے تیار ہو رہی ہے اس کے ساتھ ایک چھوٹی بچی بھی ہے- ‘پھیروں’ (شادی کی رسم) سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ ایک شادی کی تقریب ہے-
رسم کے دوران، چھوٹی بچی کہتی ہے، “ماما ، ماما! مجھے بھی گول گول گھومنا ہے-”
یہ اشتہار، زیورات کے برانڈ ‘تنشق’ کا تھا، جو ٹاٹا گروپ کی ملکیت ہے، اس کے اختتام میں آپ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ اس عورت کی دوسری شادی ہے-
“آج سے آپ کو ڈیڈی بلاؤں؟”، چھوٹی بچی نے دولہا سے پوچھا-
گوری شندے، جنہوں نے یہ کمرشل اور مشہور فلم انگلش ونگلش دونوں ڈائریکٹ کیے ہیں، اس ‘آخری جملے‘ کے بارے میں کہتی ہیں؛
“اصل میں ہم نے کمرشل کی آخری لائن “ڈیڈی بلاؤں؟” پر آپس میں کافی بحث کی، ہمارا گروپ کافی زہین لوگوں پر مشتمل ہے اور ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ سننے میں کیسا لگے گا، کیا ہم آخر میں اس شخص کو بچی گود میں اٹھا کر لے جاتے ہوۓ دکھائیں، وغیرہ- چنانچہ، ہم لوگ باہر گۓ اور یہ خیال ان لوگوں پر آزمایا جو ہمارے اوسط میڈیا اور اشتہاری حلقوں میں سے نہیں تھے اور ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ خیال پیش کرنا ضروری ہے کہ یہ دوسری شادی ہے- کچھ لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ شادی کی تجدید ہے- چناچہ، ہم نے جان بوجھ کے یہ اختتام چنا تاکہ نکتہ واضح ہو جاۓ- ہم اسے مبہم نہیں رکھنا چاہتے تھے-”
انڈیا میں، طلاق اور دوسری شادی وہاں کے سماجی منظر نامے کا حصّہ ہے لیکن اس پر عوامی سطح پر بحث نہیں کی جاتی- یہ بڑا خاموش سلسلہ ہوتا ہے جسکا فیملی اور لوگ ذکر نہیں کرتے-
یہ اشتہار، اس مسئلے کو لوگوں کے بیچ لے جاتا ہے. ایک ایسی چیز جو گھسی پٹی روایات کو چیلنج کرتی ہے، جہاں ایک عورت جس کا پچھلی شادی سے ایک بچہ بھی ہو، دوبارہ شادی نہیں کر سکتی-
جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میں کھاپ لینڈ (جرگہ قسم کا نظام جہاں نچلی ذاتوں پر نظر رکھی جاتی ہے) سے تھوڑا فاصلے پر رہتا ہوں، ذات گروہوں کے چھوٹے چھوٹے سازشی گروپ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ عورتیں کیسا لباس پہنیں گی، کس سے شادی کریں گی اور ان کے پاس موبائل فون ہونا چاہیے یا نہیں- وہ جوڑے جو ان فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں مارے جاتے ہیں-
اگر کھپس اور ان کے اصول شدّت پسندانہ ہیں تو بڑے بڑے انڈین شہروں میں مختلف قسم کے تعلقات کو چھپا کر پرائیویسی میں رکھا جاتا ہے، ان پر کھل کر بات نہیں کی جاتی جس طرح اس اشتہار میں پیش کیا گیا ہے-
“یہ اشتہار غیر معمولی ہے، اور ممکن ہے ابھی کچھ امید باقی ہو- یہ کوشش یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ کچھ مختلف کرنے کے لئے آپ کو تھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے، اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایڈورٹائزر آسان انتخابات سے آگے کچھ کرنے سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں”، پبلشر اور مصنف اروشی بتالیہ کہتی ہیں-
یہ اشتہار اس کارپوریٹ معمول سے مختلف ہے جہاں بیچنا بیچنا اور صرف بیچنا ہی پوری اشتہاری مہم کا مقصد ہوتا ہے- یہ اشتہار ٹاٹا زیورات کی تشہیر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم اسی دوران تخلیقی کام بھی کر سکتے ہیں-
زیادہ تر کارپوریٹ اشتہارات وہی گھسے پٹے ہوتے ہیں کہ عورت کھانا پکا رہی ہے اور مرد کو خوردنی تیل کا تازہ ترین ورژن پیش کیا جاتا ہے، ایسے اشتہارات میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گۓ ہیں-
اور، ہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ جب تک کوئی خوبصورت سی لڑکی کسی کار کے جدید ماڈل کی تشہیر نہیں کرے گی لوگ اسے نہیں خریدیں گے-
میرے نزدیک، شادی کرنا یا نا کرنا، ایک بار کرنا دو بار کرنا یا کئی بار کرنا، بنا شادی کے ایک ساتھ رہنا، بچے پیدا کرنا یا نہ کرنا، یہ سب ایک فرد کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے-
سماج کو ان تعلقات کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں- درحقیقت رشتوں میں صحیح غلط کچھ نہیں ہوتا یہ صرف آپ کی پسند کا معاملہ ہے-
ترجمہ: ناہید اسرار












لائیو ٹی وی