پاکستان میں تین ایسے بڑے مواقع آۓ جب مڈل کلاس نے قدامت پسندی کے خول سے باہر نکل کر اپنی 'انقلابی' سیاسی سوچ کا اظہار کیا-

اس سیاسی دعوے کا پہلا مظاہرہ، سنہ دو ہزار ساٹھ کی دہائی کے اختتام میں ہوا، جب نوجوانوں نے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کی سربراہی میں پاکستانی ملٹری-انڈسٹریل گٹھ جوڑ کے خلاف احتجاج کیا-

مڈل کلاس کے کلی طور پر قدامت پسند نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے، یہ امید کی جا رہی تھی کہ یہ کلاس مین سٹریم ایوب مخالف مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر سیکولر-کیپٹلسٹ فوجی آمریت کی مخالفت کرے گی، لیکن بہت سے نوجوان مرد و خواتین جو ایوب مخالف مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے اچانک بائیں بازو کی جانب مڑ گۓ-

ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے پی پی پی، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن اور نیشنل عوامی پارٹی جیسی تنظیموں کے بڑے پیمانے پر تشہیر کیے گۓ اشتراکی اور سماجی جمہوریت جیسے نظریات کو قبول کر لیا تھا-

دائیں بازو کے نظریات اور پاکستانی نوجوان مڈل کلاس کے درمیان یہ رومانس سنہ انیس سو چوہتر تک قائم رہا، یا پھر اس وقت تک جب اس نظریے کے محبوب ذولفقار علی بھٹو نے آھستہ آھستہ بائیں بازو کی مبالغہ آمیزی کا چوغہ اتار کر عملی سیاست کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا-

یہی وہ وقت تھا جب تعلیمی اداروں میں بائیں بازو کے متوسط طبقہ گروہ آپس کی لڑائی اور مایوسی کا شکار ہونے لگے، اس سے پیدا ہونے والے خلا کو اسلامی جمیعت طلبہ جیسی تنظیموں نے پر کر دیا-

ان اداروں میں آئی جے ٹی کی بڑھتی ہوئی طاقت، بھٹو مخالف اور بائیں بازو مخالف احساسات کی علامت تھی، جو آھستہ آھستہ ملک کی شہری مڈل کلاس کے اندر پیدا ہونا شروع ہو گۓ تھے، اس کی بڑی وجہ بھٹو کا بڑھتا ہوا مطلق العنان رویہ اور انکی نامکمل سوشلسٹ پالیسیان تھیں-

وہ مڈل کلاس طبقہ جس نے سنہ انیس سو ساٹھ اور انیس سو ستر کی ابتدائی دہائی میں ترقی پسند اعلانئے کی آواز کیساتھ آواز ملائی تھی، سنہ انیس سو چھہتر میں ایک بار اٹھی لیکن اس بار ایک اسلامی سیاسی اور اقتصادی نظام کے حصول کے لئے-

اور اس طرح مڈل کلاس مظاہروں کے دوسرے دور کا آغاز ہوا، جو بھٹو مخالف دائیں بازو کی تحریک کے ساتھ عروج پر پنہچ گیا-

دلچسپ بات یہ کہ ایوب مخالف تحریک کے دوران مڈل کلاس طبقے نے فوج اور صنعتی عناصر کو نشانہ بنایا تھا، اس بار وہی صنعتی عناصر کھلے عام بھٹو مخالف تحریک کی سرپرستی اور فنڈنگ مہیا کر رہے تھے-

اس کا انجام بھٹو حکومت کے خلاف فوجی بغاوت پر ہوا اور اس طرح پاکستان کے تیسرے فوج آمر، ضیاء الحق، کی آمد ہوئی جنہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تحریک کی اسلامی طرز اپنا لی-

انیس سو اسی کی دہائی میں مڈل کلاس دو حصّوں میں تقسیم رہی، ایک ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامی پالیسیوں اور تیسری دنیا کے جاگیر دارانہ نظام کے آزاد ورژن سے مزین سیاسی و اقتصادی ڈھانچے کی حمایت میں اور دوسرا اس کی مخالفت میں-

تعلیمی اداروں اور سڑکوں پر قدامت پرست اور ترقی پسند دھڑوں کی آپس میں جنگ جاری رہی، سنہ انیس سو اٹھاسی میں ضیاء الحق کی موت اور جمہوریت کی بحالی تک مڈل کلاس تھک گئی تھی- چناچہ سنہ انیس سو نوے میں اس طبقے کی طرف سے بہت کم سیاسی سرگرمی دیکھنے میں آئی. بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نادانستہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بڑے کاروبار میں ضیاء کی نظریاتی باقیات کے ہاتھوں کھلونا بنے رہے-

کراچی کا اردو بولنے والا متوسط طبقہ، ایم کیو ایم کا شیدائی ہو کر سیاسی ہنگامہ آرائی میں الجھتا چلا گیا، نتیجتاً ایم کیو ایم کے ممکنہ عسکری ونگ کے خلاف ریاستی آپریشن کیا گیا-

یہی وہ زمانہ تھا جب پاکستان کی ایک نئی مڈل کلاس نسل سماجی اور مذہبی قدامت پرستی سے متاثر ہونے لگی اور اس طبقے نے (خصوصاً پنجاب میں) اپنے روایتی قدامت پسندانہ فطرت کی طرف واپس کھسکنا شروع کر دیا-

یہ رجحان، امریکا میں 9/11 کے المناک واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی الجھن اور شناختی بحران میں مزید نمایاں ہو گیا- آھستہ آھستہ مڈل کلاس نوجوان مرد و خواتین کی ایک بڑی تعداد، ڈرائنگ روم اور ٹیلی ویژن کے مبلغین کی سربراہی میں چلنے والے چھوٹے چھوٹے انتہائی قدامت پرست گروہوں میں دلچسپی لینے لگے-

جیسے جیسے دہائی سنہ دو ہزار، فوجی آمر پرویز مشرف کی کاسمیٹک 'اعتدال' کے پردے میں آگے بڑھتی گئی، میڈیا اور ریاست دونوں ہی اسلامایزشن کے بڑھتے ہوے رجحان پر رہے اور یہ رجحان پاک-افغان سرحد کے پہاڑوں سے اٹھ کر پاکستانی شہری ڈرائنگ روموں میں اپنی جگہ بنانے لگا-

پھلتے پھولتے الیکٹرانک میڈیا نے مڈل کلاس میں دوبارہ جنم لیتی قدامت پرستی کو مذہبیت کے پرچاروں کی مدد سے فروغ دینا شروع کر دیا- یہ حضرات نظریاتی اور تجارتی طور پر مڈل کلاس کے جوش اور سیاسی جھکاؤ کے معاون ثابت ہوۓ-

اور اس طرح مڈل کلاس ہلچل کے تیسرے دور کا آغاز ہوا-

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار یہ تحریک ملک کی مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کی بجاۓ سوشل میڈیا پر چلائی گئی- مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ سائبر اور ٹی وی لابنگ جو خود کو متبادل تحریک کے طور پر پیش کر رہے ہیں، بڑی حد تک منطقی سوچ، بیساختہ رویے اور قدامت پسند نظریاتی ذہنیت پر استوار ایک ایسی عمارت ہے جس کی اصل تعمیر کئی دہائی پہلے 'اسٹیبلشمنٹ' اور پاکستان کی سیاسی-مذہبی پارٹیوں نے کی تھی-

جب تک مڈل کلاس کا یہ حصّہ، انہیں نامنظور کرنے کی بجاۓ، پاکستان کے مین سٹریم سیاسی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوۓ کام کرنے کا فیصلہ نہیں کر لیتا، اور جمہوری نشونما میں حصّہ نہیں لیتا، یہ ایک کانٹے کی طرح چبھتا رہے گا اور اس کی حیثیت ایک فتنے سے زیادہ اور کچھ نہ ہوگی-

بہت زیادہ ہوا تو یہ ٹی وی لاؤنج انقلاب کے چودھری بن جائیں گے، یا اگر بہت برا ہوا تو ایک عذر خواہ بن کر نادانستہ طور پر ملک کے شہروں اور قصبوں میں ہونے والی مذہبی جنونیت اور فرقہ وارانہ تشدد کی تائید کرتے رہیں گے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

khadim abbas Dec 07, 2013 03:14pm
great sir..