عام آدمی پارٹی اور تحریک انصاف
انڈیا کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں دارالحکومت دہلی میں "عام آدمی پارٹی" نے ستّر میں سے اٹھائیس نشستیں جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے دسمبر انیس سو ننانوے میں چلنے والی تحریک 'پریورتن' یعنی 'بہتری کے لئے تبدیلی' کے نعرے سے اپنی سماجی زندگی کا آغاز کیا. تحریک کا مقصد دہلی کے مختلف علاقوں میں رہنے والے رہائشیوں تک بجلی اور راشن کارڈز کی فراہمی تھا۔ اسی تحریک نے دو ہزار آٹھ میں ہونے والے راشن کارڈ اسکینڈل کابھانڈا بھی پھوڑا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنمائوں نے بھی گیارہ مئی کے انتخابات سے قبل اپنی ساری انتخابی مہم 'تبدیلی' ہی کا نعرہ لگا کر چلائی۔ کرکٹر پلٹ سیاستدان نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آکر ملک میں تبدیلی لائیں گے۔
لہذٰا اِن دونوں لیڈران کے مابین 'تبدیلی' کے نعرے کا استعمال مشترک ہوا۔ مگر بد قسمتی سے اروند تو دہلی میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس جیسی قومی جماعتوں کو پچھاڑتے ہوئے اٹھائیس نشستیں حاصل کرکے تبدیلی لے آئے لیکن کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کلین سویپ کرنے کے دعووں کے باوجود صرف خیبر پختونخوا میں ہی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم خان صاحب کی جماعت قومی اسمبلی کی اٹھائیس نشستوں پر بلا چلانے میں کامیاب ہوئی۔
اروند نے انّا ہزارے کی کرپشن سے پاک انڈیا تحریک میں بنیادی رول ادا کیا۔ مگر کچھ عرصہ بعد ہی دونوں کے بیچ کچھ اختلافات آڑے آگئے۔
دونوں کے بیچ اختلافات جان لوک پال بِل کی منظوری کے لئے چلائی جانے والی مہم کو سیاسی رنگ دینے یا نہ دینے پر ہوئے۔ معروف سماجی کارکن انّا ہزارے کا موئقف تھا کہ تحریک کو سیاست سے علیحدہ رکھا جائے۔ جبکہ اروند کا موئقف تھا کہ تحریک کو دیکھتے ہوئے لازمی ہے کہ اس میں سیاسی رنگ بھی شامل کیا جائے۔
اس تنازع کے نتیجے میں چھبیس نومبر دو ہزار بارہ کو ایک ایسی سیاسی جماعت وجود میں آئی جس نے چار دسمبر کو دارالحکومت دہلی میں ہونے والے انتخابات میں انڈیا کی بڑی سیاسی پارٹیوں کو پچھاڑ ڈالا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جھاڑو کا انتخابی نشان رکھنے والی سیاسی جماعت نے دہائیوں سے وجود میں آئی سیاسی جماعتوں کا صفایا کر دیا۔
پچیس اپریل انیس سو چھیانوے کو سیاسی اور معاشرتی برائیوں کے حل کے لئے معرض وجود میں آنے والی تحریک انصاف کی داغ بیل انیس سو بانوے کا کرکٹ ورلڈ کپ جتوانے والے کپتان عمران خان نے رکھّی۔
پرویز مشرف کے زیر نگرانی ہونے والے دو ہزار دو کے انتخابات میں کپتان اپنے آبائی علاقے میانوالی سے منتخب ہوئے اور پانچ سال تک اپنی سیاسی جماعت کی اکیلے ہی پارلیمان میں نمائندگی کرتے رہے۔
ملٹری رول کی مخالفت کرتے ہوئے کپتان صاحب دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں آل پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کا حصّہ بنے اور انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے پارلیمان میں اپنی اکلوتی نمائندگی بھی کھو بیٹھے۔
پانچ سال تک کپتان صاحب اپنی جماعت کو نچلی سطح کے لوگوں تک پہنچانے کی ناکام کوشش کرتے رہے جس کے بعد تحریک انصاف دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں پہلی نہیں، دوسری بھی نہیں بلکہ تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ تاہم صوبہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں نے لاج رکھی اور کپتان صاحب دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
سبزی خور مکینکل انجینئر اروند کجریوال کی وجہ شہرت جان لوک پال بل مسودے کی تیاری اور نچلی سطح تک معلومات کو جاننے کا ایکٹ بنا۔ مقابلے کے امتحان میں پاس ہونے کے بعد انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں جوائنٹ کمشنر کے عہدے پر تعینات رہنے والے اروند کو معلومات جاننے کے ایکٹ میں حصّہ لینے اور انڈیا کے غریب ترین آدمی کو طاقتور کرنے کے لئے کوششوں پر رامن مگساسے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
چار بہنوں کے اکلوتے بھائی عمران خان نیازی نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچیسن کالج سے حاصل کی۔ جس کے بعد لندن کے کیبلے کالج، آکسفورڈ سے فلسفہ، سیاسیات اور معاشیات میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
انیس سو اکہتر میں نیازی صاحب نے برمنگھم کے مقام پر انگلینڈ کے خلاف اپنے انٹرنیشنل ٹیسٹ کرئیر کا آغاز کیا اور تین سال بعد انگلینڈ میں ہی نوٹنگھم کے مقام پر انگلینڈ کے خلاف ہی اپنا پہلا انٹرنیشنل ایک روزہ میچ بھی کھیلا۔
قسمت کی کرنی ایسی ہوئی کہ خان صاحب نے شادی بھی انگلینڈ کے امیر ترین افراد میں سے ایک کی بیٹی جمائما گولڈ سمتھ سے کی۔ جو کہ مسلمان ہونے کے بعد جمائما خان ہوگئیں۔
کپتان صاحب نے بہت سارے کرکٹ کے انعامات اپنے نام کروائے۔ جس میں کرکٹ ورلڈ کپ انیس سو بانوے سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ انیس سو تراسی میں کپتان صاحب کو صدارتی پرائیڈ آف پرفارمینس اور انیس سو بانوے میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
اروند نے سن دو ہزار میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لئے سرکار سے اس شرط پر چھٹیاں حاصل کیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کم از کم تین سال تک اروند مستعفٰی نہیں ہونگے اور مستعفٰی ہونے کی صورت میں اروند کو تین سال کی تنخواہ جرمانے کے طور پر ادا کرنی پڑیگی۔
تاہم اروند نے اٹھارہ ماہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے بعد اٹھارہ ماہ کی رخصت (بغیر تنخواہ) لے لی۔ جس کے بعد حکومت اور اروند کے مابین تنازع کھڑا ہوگیا۔ اروند کا موئقف تھا کہ چونکہ انہوں نے انّا ہزارے کی کرپشن سے پاک انڈیا تحریک میں حصّہ لیا ہے۔ اس لئے حکومت کی جانب سے یہ تنازع کھڑا کیا گیا۔ جبکہ وہ معاہدے کے مطابق تین سال تک اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ تاہم دو ہزار گیارہ میں اروند نے اپنے دوستوں سے ادھار لیکر حکومت کو جرمانہ ادا کیا اور اس مصیبت سے جان چھڑوانے میں کامیاب ہوئے۔
کپتان صاحب نے انیس سو چورانوے میں پوری دنیا سے اکٹھے ہونے والے پچیس ملین ڈالرز سے پاکستان کا اکلوتا اور پہلا کینسر ہسپتال تعمیر کیا اور اپنی مرحوم والدہ شوکت خانم کے نام سے منصوب کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج اس ہسپتال کو ملک کا ایک بہترین اور کرپشن سے پاک ادارہ تصوّر کیا جاتا ہے۔ دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں اٹھائیس نشستیں حاصل کرنے کے بعد اروند کجریوال اور ان کی پارٹی اس شش و پنج میں مبتلا تھی کہ دہلی میں حکومت بنانے کے لئے انڈیا میں بر سر اقتدار جماعت کانگریس سے الحاق کیا جائے یا نہیں اور اس مقصد کے لئے عام آدمی پارٹی نے ریفرنڈم کروایا جو کہ ایس ایم ایس، کالز اور ویب سائٹس کے ذریعے کیا گیا۔ پارٹی کی جانب سے دو ٹیلیفون نمبرز مہیا کئے گئے تھے۔
اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی نے پچیس لاکھ سے زائد پمفلٹس بھی چھاپے جن کے ذریعے دہلی کے گھر گھر جا کر دہلی والوں کی مرضی جانی گئی۔ شدید سردیوں میں عام آدمی پارٹی نے دہلی میں رہنے والے ایک عام آدمی کی مشکلات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ان سے ان کی قیمتی رائے حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے۔
دوسری جانب کپتان صاحب اپنی جماعت کو ووٹ دینے والوں کو بیشتر اوقات مشکل میں ڈال دیتے ہیں اور دسمبر کی شدید سردیوں میں آئے روز دھرنوں اور تحریکوں کا اعلان کرتے رہتے ہیں جس کی ایک مثال نیٹو سپلائی کی بندش کے لئے دھرنا ہے۔ جس کے نتیجے میں امریکہ نے خیبر پختونخوا کے راستے ہونے والی نیٹوسپلائی بند کردی۔
تحریک انصاف کے کپتان کی رہنمائی میں ہونے والے دھرنوں کے نتیجے میں بند ہونے والی نیٹو سپلائی کی بندش کے بعد امریکی سینیٹ میں ایک ایکٹ منظوری کے لئے پیش کیا گیا، جس کے مطابق جب تک امریکی وزیر دفاع اس بات کی ضمانت نہیں دیتے کہ افغانستان سے پاکستان کے راستے لایا جانے والا امریکی فوجی ساز و سامان صحیح سلامت آرہا ہے۔ اس وقت تک پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم جاری نہیں کی جائے گی۔ اللہ نہ کرے کے امریکی سینیٹ اس ایکٹ کو منظور کر لے، ورنہ دو ہزار چودہ پندرہ کا بجٹ بنانے والے عارضہ قلب میں مبتلا اسحاق ڈار بجٹ پر توجہ کم دیں گے اور کپتان کو گالیاں زیادہ۔
انڈیا کی عام آدمی پارٹی کی جانب سے کئے گئے ریفرنڈم کے نتیجے میں عام آدمی پارٹی نے دہلی میں حکومت بنانے کے لئے کانگریس سے بیرونی اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اِن دونوں پارٹیوں کے درمیان کسی بھی جماعت کا عہدیدار بات چیت شروع کرنے سے گریزاں ہے اور اِن حالات میں دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ وِچولن (رشتے کروانے والی) کا کردار نبھا رہے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کی جانب اٹھارہ نکات پر مبنی رشتہ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی جماعتوں کو بھجوایا گیا۔ تاہم کانگریس نے بغیر کسی شرط کے یہ رشتہ قبول کرنے کا جوابی خط وچولن کو ارسال کیا۔ جس کے بعد میڈیا کے ذریعے سامنے آیا کہ یہ دونوں پارٹیاں رشتہ ازدواج میں بندھنے کے لئے تیار ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان ایسے حالات سے تو لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس ایک ایسے ازدواجی رشتے میں بندھنے جا رہے ہیں جو کہ صرف اور صرف دکھاوی ہوگا اور یہ رشتہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو دیکھے بغیر طے کیا گیا ہے۔
صوبہ پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ہونے والی مہنگائی کے خلاف ریلی لاہور کے ناصر باغ سے شروع ہوئی اور مال روڈ سے ہوتی ہوئی چیئرنگ کراس پر اختتام پزیر ہوئی۔ جس میں تحریک انصاف کے مطابق لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ تاہم وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس ریلی پر بیان دیا کہ عمران خان کی ریلی مال روڈ کی پیالی میں بند ہوگئی۔
جو بھی کہیں، خان صاحب اپنے جیالوں کو اس شدید سردی میں بھی آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے اور کبھی خیبر پختونخوا میں نیٹو سپلائی بند کرنے کے لئے دھرنے کا اعلان کرتے ہیں اور کبھی وفاقی دارالحکومت میں قومی اسمبلی کی جانب مارچ کے لئے حاضر ہونے کے احکامات صادر فرماتے ہیں۔ کبھی سردیوں میں پنجاب کے لاہوریوں کو چھٹی کے دن مہنگائی کے خلاف ریلی میں شرکت کے لئے دعوت دی جاتی ہے اور کبھی خان صاحب شدید آگ برساتے سورج کی گرمی میں فاٹا کی جانب امن مارچ کرواتے ہیں۔
جہاں تک دہلی کی بات ہے تو آگے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ دونوں سمدھی پارلیمان میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھتے ہیں اور کیا کانگریس دہلی میں اقلیتی جماعت ہونے کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے یا کمزور سمدھی ہونے کے ناطے عام آدمی پارٹی کے فیصلوں کو تسلیم کرتی ہے۔
ابھی یہ رشتہ تکمیل کے مراحل طے کر ہی رہا ہے تو یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ کانگریس عام آدمی پارٹی سے الحاق ختم کردے گی اور کانگریس کے رہنما جناردن دیوودی کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ کانگریس اس الحاق کو ختم کرنے کے لئے سنجیدگی سے سوچ رہی ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ بیرونی اتحاد کبھی بھی غیر مشروط نہیں ہوتا۔ کانگریس کے ہی ایک اور لیڈر شکیل احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ عام آدمی پارٹی ان کے دشمن کی دشمن ہے۔
گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف دو ہزار دو کے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی پارلیمان کی نسبت بھاری تعداد میں ہے اور آج تحریک انصاف کی نمائندگی اکلوتے خان صاحب ہی نہیں کر رہے بلکہ اس مرتبہ تحریک انصاف کی پینتیس ممبران کی فوج نیشنل اسمبلی میں موجود ہے۔
ہندوستان میں تو ابھی صرف پانچ ریاستوں میں انتخابات ہوئے ہیں۔ لیکن انڈین سیاسی پنڈت پیشین گوئی کر رہے ہیں کہ عام آدمی پارٹی باقی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کو ناکوں چنے چبوائے گی اور پارلیمان میں عام آدمی پارٹی کے ممبران بھاری تعداد میں موجود ہونگے۔
مہنگائی کے خلاف ہونے والی ریلی کو تجزیہ کار تحریک انصاف کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے لئے سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف پنجاب اور سندھ میں آنے والے بلدیاتی انتخابات میں گیارہ مئی کے انتخابات کی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو سخت مقابلہ دے گی۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (5) بند ہیں