عظیم ٹیسٹ بلے باز کون؟

شائع December 30, 2013 اپ ڈیٹ January 12, 2014

کیلس کی ریٹائرمنٹ کے اعلان کے ساتھ ہی ان کا ہم عصر عظیم ہندوستانی بلے باز سچن ٹنڈولکر سے موازنہ شروع کردیا گیا اور ایک بار پھر کرکٹ حلقوں میں اس بحث کا آغاز ہو چکا ہے کہ آیا کیلس ٹنڈولکر سے زیادہ عظیم تھے یا نہیں۔

بظاہر 200 ٹیسٹ اور 50 ٹیسٹ سنچریوں کے ساتھ ٹنڈولکر دیگر کھلاڑیوں سے کافی بہتر دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر کیلس سے تقابلی جائزے میں اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو پروٹیز کھلاڑی خاصے بہتر نظر آتے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیائے کرکٹ نت نئے اسٹارز کو اپنی بانہوں میں سمو رہی تھی، افریقہ کے سرزمین سے ایسے نوجوان کی آمد ہوئی جس نے اپنے کھیل کے ذریعے نہ صرف گیند بازوں کو لگام ڈالی بلکہ اپنی باؤلنگ سے بھی کئی مواقعوں پر بلے بازوں کے قدم ڈگمگا دیے۔

جی ہاں یہ جاک کیلس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے جنہیں کرکٹ کے تمام حلقے بجا طور پر موجودہ دور کا بہترین آل راؤنڈر قرار دیتے ہیں۔

جنوبی افریقہ کے اس کرکٹر نے گزشتہ دنوں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے سب کو چونکا دیا کیونکہ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ اب بھی کچھ سال شائقین کو اپنے کھیل سے محظوظ کر سکتے تھے اور اگلے ہی میچ میں کیلس نے اس بات کو ثابت کرتے ہوئے ہندوستان کے خلاف ایک اہم موقع پر سنچری اسکور کر کے اپنی ٹیم کو جیت کی راہ پر گامزن کر دیا۔

کرکٹ کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا بلے باز ہو جس کے کیریئر کی آخری اننگ تین ہندسوں پر مشتمل ہو اور جسے اس یادگار انداز میں کرکٹ کو الوداع کہنا نصیب ہوا ہو۔

کیلس کے کیریئر پر نظر دوڑائی جائے تو اعداد وشمار ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جہاں 168 ٹیسٹ میچوں میں انہوں نے 55 رنز فی اننگ سے زائد کی اوسط اور 45 سنچریوں کی مدد سے 13 ہزار 289 رنز بنائے جو سچن ٹنڈولکر اور رکی پونٹنگ کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کا سب سے بڑا اسکور ہے۔

اگر ٹنڈولکر سے موازنے کی بات کی جائے تو ریکارڈ بک اس بات کی واضح دلیل ہیے کہ پروٹیز آل راؤنڈر ہر شعبے میں ہندوستان بلے باز سے برتر رہے اور ان میں سے زیادہ تر رنز انہوں نے بلے بازوں کے لیے جہنم تصور کیے جانے والی پچز پر کیں جو انہیں دیگر کھلاڑیوں سے قدرے ممتاز کرتی ہیں۔

اس کے مقابلے میں ٹنڈولکر نے زیادہ تر ہندوستان کی وکٹوں پر رنز کے انبار لگائے جو بلے بازوں کے لیے جنت تصور کی جاتی ہیں۔

دونوں ہی کھلاڑیوں نے اپنے کیریئر میں زیادہ تر چوتھے نمبر پر بلے بازی کی اور اس حوالے سے پرفارمنس کا مزید اندازہ درج ذیل چارٹ سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اعدادوشمار بشکریہ کرک انفو
اعدادوشمار بشکریہ کرک انفو

کیلس نے اکثر مواقعوں پر جب ٹیم کو ان کی ضرورت تھی ٹیم کے لیے اننگ کھیلیں، خصوصاً 20 رنز کے اندر دو وکٹیں گرنے کے بعد ان کی بلے بازی کی اوسط ٹنڈولکر سے کہیں زیادہ ہے جبکہ 50 رنز کے اندر اندر جب ان کی میدان میں آمد ہوئی تو جنوبی افریقی بلے باز نے انڈین بیٹسمین سے بہتر پرفارم کیا۔

لیکن اعدادوشمار کے علاوہ ان کی باؤلنگ اور سلپ میں چابکدست فیلڈنگ ٹنڈولکر کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک مکمل کرکٹر تصور کیا جاتا ہے۔

کیلس کی سب سے بڑی خوبی ایک ایسے دور میں ابھر کر سامنے آنا تھا جب کرکٹ میں برائن لارا، سچن ٹنڈولکر، انضمام الحق، مارک ٹیلر، مارک وا اور ان جیسے دیگر کھلاڑیوں کا طوطی بولتا تھا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ انہیں رکی پونٹنگ اور راہول ڈراوڈ جیسے مستقبل کے اسٹارز کی مسابقت کا بھی سامنا تھا جنہوں نے تقریباً ان کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھا۔

تاہم پہلی دفعہ وہ عالمی منظر نامے پر اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب انہوں نے 1997 میں میلبورن کے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے خلاف مشکل موقع پر 101 رنز کی اننگ کھیل کر اپنی ٹیم کو میچ ڈرا کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

اس کے بعد ایک طرف وہ اپنے بلے سے رنز کے انبار لگاتے رہے تو دوسری جانب متعدد اہم مواقعوں پر ان کی باؤلنگ نے جنوبی افریقہ کو فتح سے ہمکنار کرایا۔

متحمل مزاج، بردباری، باآسانی بلے بازی اور باؤلنگ کے اضافی گر کی بدولت وہ اپنے ہم عصروں برائن لارا، سچن، ڈراوڈ، انضمام، پونٹنگ اور دیگر تمام بلے بازوں سے بلند تر نظر آتے ہیں۔

لیکن افسوس ناک امر یہ کہ اس کھلاڑی کو اپنے دور کے دیگر بڑے کھلاڑیوں کے مقابلے میں وہ مقام نہ مل سکا جس کا وہ صحیح معنوں میں حقدار تھا اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ کرکٹ کے کچھ حلقوں کی جانب سے 15 سال سے زائد مدت تک کرکٹ شائقین کو لطف اندوز کرنے والے اس کھلاڑی کو خود غرض کے خطاب سے نواز دیا گیا۔

کیلس کا اوپر درج دیگر کھلاڑیوں سے موازنہ کیا جائے تو لارا کے سوا تمام ہی کھلاڑی اپنے اختتامی سالوں میں زبوں حالی کا شکار دکھائی دیے اور کچھ تو کئی عرصے تک ٹیم پر بوجھ بھی بنے رہے جن میں ٹنڈولکر اور پونٹنگ سرفہرست ہیں۔

دوسری بات کہ یہ تمام لیجنڈز آخری وقت تک اپنی اس صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے جس کے لیے انہیں دنیا بھر میں مانا جاتا تھا اور وہی خوبی ان کی سب سے بڑی خامی بھی بن گئی تھی، جیسے پونٹنگ پل شاٹ پر آؤٹ اور دیوار کے نام سے مشہور ڈراوڈ اپنی وکٹیں محفوظ نہ رکھ پاتے تھے۔

تیسرا اور اہم ترین پہلو یہ کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے کرکٹ سے کنارہ کشی کا فیصلہ عوام اور متعلقہ بورڈ کے دباؤ یا محض ذاتی ریکارڈ کی تکمیل کے بعد کیا۔

لیکن کیلس کا معاملہ اس سے خاصا مختلف نظر آتا ہے جہاں آخری وقت تک اس بلے باز کی کوئی کمزوری ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکی جبکہ ان کی ناکامی کا دورانیہ ان کھلاڑیوں کی نسبت قدرے کم ہے۔

سب سے اہم بات یہ کہ کیلس نے محض ذاتی ریکارڈ کی تکمیل کے لیے ٹیم کے گلے پڑنے کی روایت کو بھی پس پشت ڈالتے ہوئے نوجوانوں کھلاڑیوں کے لیے جگہ خالی کر دی حالانکہ اگر وہ محض دو سال اور کھیل جاتے تو یقیناً بہت سے ریکارڈ ان کی دسترس میں تھے۔

سترہ سالہ کیریئر میں کیلس ںے خود کو بہترین ٹیم پلیئر ثابت کیا جہاں نہ وہ کبھی کسی تنازع کا شکار رہے اور نہ ہی کپتانی کے پیچھے بھاگتے دکھائی دیے جبکہ ان کے ساتھی کھلاڑیوں کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے۔

اسمتھ کو جس موقع پر ٹیم کی کپتانی سونپی گئی، اس لمحے کیلس ٹیم کے اہم ترین رکن تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کپتان کو اپنی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا اور اگر آج جنوبی افریقہ عالمی نمبر ایک کے منصب پر فائض ہے تو اس میں یقیناً اسمتھ کے ساتھ ساتھ کیلس کا بھی نمایاں کردار ہے۔

کرکٹ کے عظیم ترین آل راؤنڈر کا منصب تو یقیناً سر گیری سوبرز کے پاس ہے لیکن اگر سوبرز کے بعد اگر کوئی نام نظر آتا تو وہ کیلس ہی ہے جس نے اعداد وشمار میں سوبرز کو بھی کافی پیچھے چھوڑ دیا اور اسی لیے ماضی کے عظیم کرکٹر ای این چیپل بھی ان کے لیے یہ جملے ادا کرنے پر مجبور ہو گئے۔

'کیلس کا ٹیسٹ ریکارڈ انتہائی شاندار ہے، 55 سے زائد کی بیٹنگ اوسط، تقریباً تین سو وکٹیں اور دو سو کیچ، ان کی آل راؤنڈر کارکردگی کے اعدادوشمار اتنے اعلیٰ ہیں کہ گیری سوبرز جیسا عظیم کھلاڑی بھی ان کے قریب تر نہیں'۔

جنوبی افریقی کرکٹر کا ریکارڈ ٹوٹے گا یا نہیں، یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن اگر موجودہ دور کی کرکٹ اور ٹی ٹوئنٹی کی مار دھاڑ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آنے والے وقتوں میں شاید کیلس کا کوئی ہمسر پیدا نہ ہو۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025