کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے گزشتہ روز جمعرات کو کہا کہ بی بی سی کے پروگرام میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل سے متعلق جن دو افراد کی شناخت ظاہر کی گئی تھی، ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پارٹی نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین کے خلاف دستاویزی فلم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا اس میڈیا ٹرائل کا مقصد عدالتوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں جاری قتل کی تفتیش میں مداخلت کرنا ہے۔

بی بی سی کے ٹی وی پروگرام نیوز نائٹ میں براڈ کاسٹر نے دو پاکستانی طالب عملوں محسن علی سید اور محمد کاشف خان کامران کو اس مقدمہ میں مشتبہ قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں 16 ستمبر 2010ء کو قتل کے چند گھنٹوں کے بعد برطانیہ چھوڑ کر سری لنکا چلے گئے تھے اور پھر وہ 19 ستمبر کو کراچی پہنچے جہاں پر انہیں حراست میں لے لیا گیا۔

یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے ایک سینیئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن میں ایم کیو ایم کے عالمی ہیڈکوارٹرز کے قریب چاقو کا وار کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر مقبول صدیقی نے یہ واضح کیا کہ ان کی جماعت کا ان دو مشتبہ افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ برطانوی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان افراد کو سزا دیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم عاطف صدیقی کو بھی نہیں جانتی، جسے ان دونوں افراد کو برطانوی ویزے دلوانے کے معاملے میں ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم کے رہنما نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ دونوں افراد اگر ڈاکٹر عمران فاروق قتل میں مطلوب تھے تو انہیں برطانوی انتظامیہ نے ملک چھوڑنے کی اجازت کیوں دی۔

ڈاکٹر فاروق ستار اور بیرسٹر فروغ اے نسیم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ایم کیو ایم کو برطانیہ میں نشانہ بنایا جارہا ہے، الطاف حیسن سکے جمع کرنے کا شوق رکھتے ہیں، لیکن برطانوی تفتیش کارروں نے ان سکوں اور ان کی بیٹی کے لیپ ٹاپ کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔

اس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے بی بی سی کی رپورٹ کو مسترد کرتے کہا کہ ایم کیو ایم آزادیٔ اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے، لیکن بی بی سی کے پروگرام کا مقصد جھوٹ اور پراپیگنڈا کرنا تھا اور ہمارے خیال میں یہ ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حیسن کے خلاف میڈیا ٹرائل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ قیاس آرائی پر مبنی ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں بی بی سی کے پروگرام میں منی لانڈرنگ سے متعلق الزامات کا جواب دیا تھا اور بی بی سی ایم کیو ایم کے خلاف گمراہ کن معلومات پیش کررہی ہے اور ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

پراسیکیوٹر کی درخواست:

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی پراسیکیوٹر نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ محسن علی سید اور محمد کاشف خان کامران کو تلاش کرے، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ پاکستانی حراست میں ہیں۔

اس مقدمے کی تفتیش میں چار ہزار سے بھی زائد افراد کا انٹرویو لیا گیا، لیکن ابھی تک صرف افتخار حسین نامی ایک شخص کو حراست میں لیا گیا جو ایم کیو ایم کے سربراہ کے بھتیجے ہیں۔

افتخار حسین کو قتل کی سازش کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا جو اب پولیس کی ضمانت پر ہیں اور ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ انہیں غلط معلومات کی بنا پر حراست میں لیا گیا تھا۔

بیرسٹر نسیم نے کہا افتخار حسین جو ذہنی طور پر نارمل نہیں ہیں اور ان کو پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ نومبر 2011ء میں لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس کے سربراہ ہوگن ہوے کا کہنا تھا کہ ان گرفتاریوں پر پاکستانی حکام سے رابطہ کیا گیا تھا۔

لیکن پاکستانی حکومت نے ان گرفتاریوں کی تردید کی تھی اور حکام نے برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروسز کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

بی بی سی کو پاکستان میں ذرائع سے حاصل ہونے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان محسن اور کامران دونوں نے لندن آف منیجمنٹ سائنسز(ایل اے ایم ایس) میں داخلے کی بنیاد پر برطانیہ کا ویزا حاصل کیا تھا۔

ان دستاویزات میں شامل دیگر دو افراد میں سے ایک کراچی بزنس مین معظم علی خان ہیں، جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں ویزے کی درخواست جمع کرائی تھی، اور 2010ء میں افتخار حسین سے رابطہ کیا تھا۔

دوسرے عاطف صدیقی جو کراچی میں تعلیمی مشریر ہیں، ان کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ اس کارروائی میں ان کا بھی حصہ ہے۔ عاطف صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ مفرور افراد کے ایجنٹ نہیں تھے اور دونوں مشتبہ افراد کو نہیں جانتے۔

محسن علی سید فروری 2010ء میں برطانیہ گئے تھے اور محمد کاشف خان کامران اسی سال ستمبر سے قبل برطانیہ گیا تھا۔

فون ریکارڈز سے یہ نشاندہی ہوئی تھی کہ ان دونوں کے درمیان روابط موجود تھے، یہ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ عمران فاروق کی نگرانی کررہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں