طالبان مذاکرات میں حکومت کو شہ مات دے دیں گے؟

اپ ڈیٹ 03 فروری 2014
ٹی ٹی پی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی کالعدم تنظیم نے انفرادی طور پر ہر ایک سے بات کی تھی اور اس کے لیے ان کی رضامندی حاصل کی تھی۔ —. فائل فوٹو اے پی
ٹی ٹی پی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی کالعدم تنظیم نے انفرادی طور پر ہر ایک سے بات کی تھی اور اس کے لیے ان کی رضامندی حاصل کی تھی۔ —. فائل فوٹو اے پی

یقیناً نواز شریف اپنا سر کھجاتے ہوئے حیرت کے سمندر میں غرق ہوں گے کہ ان کی اگلی چال کیا ہونی چاہیٔے۔

دوسری جانب عسکریت پسندوں کی قیادت قبائلی علاقوں میں کسی مقام پر مٹی کے کچے گھر میں شاید سبز قہوے کا لطف اُٹھارہے ہوں گے۔

یہ باریش افراد آرام کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، اس لیے کہ بہر صورت وہ ایک ایسی سیاسی قیادت کو باآسانی شہ مات دے دیں گے، جو متذبذب ہے اور اس کے پاس نہ تو کوئی مناسب معلومات اور نہ ہی مناسب صلاحیت رکھتی ہے۔

حکومت کی چار رکنی ٹیم سے مذاکرات کے لیے تحریک طالبان کی نمائندگی کرنے والے پانچ اراکین کی نامزدگی ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک زبردست سیاسی اقدام کے طور پر سامنے آیا ہے۔

ٹی ٹی پی کی نامزد کردہ کمیٹی اس اسکول آف تھاٹ کی نمائندگی کرتی ہے جو پاکستانی عسکریت کے ساتھ امن مذاکرات کی پرزور وکالت کرتا ہے۔

عسکریت پسندوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، جمیعت العلمائے اسلام فضل کے مضبوط رہنما اور مانسہرہ سے سابق رکن صوبائی اسمبلی مولوی کفایت اللہ، جمیعت العلمائے اسلام ایس کے رہنما مولانا سمیع الحق، جنہوں نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں دہشت گردوں کے ساتھ رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، بنوں سے جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر محمد ابراہیم اور معروف لال مسجد کے پیش امام مولانا عبدالعزیز کو نامزد کیا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی کالعدم تنظیم نے انفرادی طور پر ہر ایک سے بات کی تھی اور اس کے لیے ان کی رضامندی حاصل کی تھی۔

باریش افراد کے ہجوم میں کلین شیو عمران خان عجیب دکھائی دیں، لیکن اس وقت شاید دوسروں سے کہیں زیادہ انہوں نے واضح الفاظ میں اور پوری قوت کے ساتھ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا ہے۔

ناصرف یہ بلکہ انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو حکم دیا تھا کہ وہ خیبرپختونخوا کے ذریعے غیرملکی افواج کے لیے جانے والی رسد کو افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی زبردستی روک دیں۔

اس کے علاوہ ان کی پارٹی نے ہمارے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں پر ایک احتجاجی دھرنا دیا تھا۔

لہٰذا حکمت عملی اور سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو عسکریت پسندوں نے ایک آئیڈیل ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ امن کا قیام ممکن تھا، اب انہیں یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ اس کو عملی طور پرکردکھائیں۔

اب عسکریت پسندوں کو سنجیدگی یا عزم کی کمی کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اب ان کے منتخب کردہ ان کے لیے بات کریں گے اور سرکاری طور پر منتخب کردہ ٹیم کے ساتھ رابطے کے ذمہ دار ہوں گے، جس میں ان لوگوں کی اکثریت ہے، جن کے ذہن کی نظریاتی کڑیاں اپنے مجوزہ مذاکرات کاروں سے مختلف نہیں ہوسکتیں۔

یہ صورتحال ایسی ہے جس میں چت بھی اپنی ہے اور پٹ بھی اپنی۔ اگر سکے کا ایک رُخ ٹیل آیا تو بھی میں جیتا اور ہیڈ آیا تو تمہاری شکست۔ اس طرز کی سوچ رکھنے والے دونوں فریقین میں موجود ہیں۔ ایک مبصر کے بقول یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں انگلینڈ کے شہر لیور پول کی ٹیم لیورپول کے خلاف کھیل رہی ہے۔ لیکن ایسا ہر ایک کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا ہے۔

ٹی ٹی پی نے سیاسی جماعتوں کے اپنے بیانات کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اگر عمران خان آگے بڑھتے ہیں اور عسکریت پسندوں کی نمائندگی کرنے والی ٹیم کا حصہ بنتے ہیں ، تو ان کے لیے خطرہ ہے کہ انہیں مستقلاً طالبان خان نہ کہا جانے لگے، جس طرح ان کے مخالفین ان کی سیاسی طور پر تحقیر کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں ان کی پارٹی کی حکومت سرکاری ٹیم کے لیے رستم شاہ مہمند کے نام کی توثیق و حمایت کرچکی ہے۔

رستم شاہ مہمند جو سرکاری مذاکرات کار ہوں گے، کس طرح مذاکراتی میز کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے خود اپنی پارٹی کے رہنما کا سامنا کریں گے؟

تاہم عمران خان یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ان کی پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ ”یہ ان کے وقار کے منافی ہوگا۔“

جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم خاصے ہشیار نکلے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ان سے رابطہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس کوشش کا حصہ بننے کے لیے رضامند تھے، تاہم وہ حکومت اور طالبان کے درمیان صرف بطور ثالث کے طور پر ایسا کریں گے۔

مولانا سمیع الحق، جنہیں منتخب کیا گیا ہے،محض اس لیے ناراض ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف نے ان کے کالز کا جواب نہیں دیا۔

چنانچہ انہوں نے دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے، دوسرے الفاظ میں وہ اس وقت تک کوئی ذمہ داری نہیں لیں گے، جب تک کہ صورتحال واضح نہیں ہوجاتی۔

مولانا عبدالعزیز بھی ابہام کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مقدور بھر مدد کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایسا اس وقت کریں گے جب حکومت شریعت نافذ کرے یا پھر ایسا کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، وہ مذاکراتی ٹیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔

اس سے کچھ ہی پیچھے مولوی کفایت اللہ ہیں، اپنی نامزدگی کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ ٹی ٹی پی کے مرحوم رہنما ولی الرحمان کے ساتھ جے یو آئی ایف کے رابطہ کار فرد تھے۔

لیکن کیا یہ حکومتی پہل پر چھوڑ دیا جائے؟ کیا وزیراعظم امن کی پہل کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے؟

یا وہ اب کڑوی گولی نگل لیں گے اور ایسا کچھ کرگزریں گے جسے بظاہر ناقابلِ تصور سمجھا جارہا ہے، یعنی ایک فوجی آپریشن کا حکم دیں گے۔ اب تک ان کے اس اقدام کو سیاسی جماعتوں میں سے کم ازکم چار کی حمایت حاصل ہے، جنہیں اب مذاکراتی میز پر ان کی مخالف سمت میں بیٹھنے کے لیے عسکریت پسندوں نے منتخب کرلیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں