• KHI: Partly Cloudy 26.4°C
  • LHR: Cloudy 13.7°C
  • ISB: Cloudy 18.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 26.4°C
  • LHR: Cloudy 13.7°C
  • ISB: Cloudy 18.8°C

موت بھی برابر نہیں

شائع February 6, 2014

حالیہ وقتوں میں دہشت گرد حملوں کی شدت میں ہولناک اور فکر انگیز حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی تشویشناک حد تک بڑھی ہے- پاکستان میں دہشت گرد حملے پچھلے دس سال سے ہو رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں/متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی کے معاملے کسی بھی حکومت نے سنجیدگی اور ترجیحی بنیادوں پر نہیں لیا-

دہشت گرد حملوں کے متاثرین کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛

پہلے تو پولیس، فوج، حکومتی یا ریاستی اداروں میں کام کرنے والے افراد؛

دوسرے وہ شہری جنہیں محض خوف اور دہشت پھیلانے کے لئے نشانہ بنایا جاتا یا گیا ہے

تیسرے وہ معصوم شہری جو صرف اس وجہ سے ان حملوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں کہ وہ کسی پولیس والے، فوجی یا کسی دوسرے حکومتی یا ریاستی ادارے کے فرد یا افراد پر ہونے والے حملے کی جگہ پر بدقسمتی سے موجود ہوتے ہیں-

جہاں تک ریاستی ملازمین یا افسران کا معاملہ ہے، متاثرہ افراد کے خاندانوں کے لئے معاوضے کا اعلان عام طور پر کر دیا جاتا ہے- سرکاری ملازمین اور افسروں کے لئے چاہے محدود حد سہی پر کچھ اقدامات تو اٹھا ہی لئے جاتے ہیں لیکن ان دہشت گرد حملوں کی لپیٹ میں آنے والے عام شہریوں کے لئے صورتحال خاصی حد تک مختلف ہے-

اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آنے والے چند عام شہریوں کو کبھی کوئی معاوضہ دیا ہی نہیں گیا- وفاقی حکومت کے علاوہ چند صوبائی حکومتوں نے بھی مختلف موقعوں پر معاوضہ کی منظوری دی ہے- پر یہ اقدامات بھی تنازعات سے آزاد نہیں رہے، جس کی کسی حد تک وجہ یہ بھی ہے کہ معاوضے کے تعین کے لئے کسی واضح پالیسی کا نہ ہونا یا یہ کہ اس حوالے سے اہلیت کے معیار کا متعین نہ ہونا بھی ہے-

مثال کے طور پر، جب کراچی میں عباس ٹاؤن میں دھماکا ہوا تو یہ خبریں آئیں تھیں کہ سندھ حکومت نے ہر مرنے والے کے قانونی وارث کے لئے ڈیڑھ ملین روپے کے معاوضے کا اعلان کیا ہے- ساتھ ہی اس تباہ کن حملے کے نتیجے میں تباہ ہونے والی دوکانوں اور فلیٹوں کی دوبارہ تعمیر کا بھی اعلان کیا گیا- دوسری جانب، دیگر دہشت گردی کے حملوں کے متاثرین کو نسبتاً کم معاوضہ دیا گیا، جو کہ دو لاکھ سے پانچ لاکھ فی خاندان تک تھا-

آئین کا آرٹیکل 25، بعض قانونی دفعات کے ساتھ ساتھ، صوابدید اس طرح کے من مانے استعمال سے شہریوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتا ہے- قانون کی دیگر دفعات میں بنیادی حق، ایک جیسے حالات کے لوگوں کو ایک ہی طرح کا برتاؤ کرنے کا تصور پیش کرتا ہے، لیکن چند مخصوص قسم کے لوگوں کے ساتھ مختلف قسم کا برتاؤ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب اس برتاؤ کے لئے 'آسانی سے سمجھ آنے والا فرق' موجود ہو-

عام الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ایک جیسے حالات کے تمام لوگوں کے ساتھ ایک ہی جیسا برتاؤ کیا جائے-

مثال کے طور پر، دہشت گرد حملوں کے نتیجے ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو 500,000 روپے معاوضہ دیے جانے کا فیصلہ ہو سکتا ہے- لیکن اسی کے ساتھ حکومت فیصلہ کر سکتی ہے کہ حملوں میں ہلاک ہونے والے پولیس افسران کے خاندانوں کو نسبتاً زیادہ معاوضہ اور دیگر مراعات دی جائیں-

یہ ان کی قربانیوں اور کوششوں کے اعتراف اور کارکنوں کا مورال اونچا رکھنے کے لئے کیا جائے گا- اس کے نتیجے میں ایک ہی جیسے حالات کے متاثرہ پولیس افسران اور شہریوں کو دی جانے والی معاوضے کی رقم ایک دوسرے سے مختلف ہو گی، اور اسی طرح آسانی سے سمجھ آنے والے فرق کی بنیاد پر کے طور پر ایک مناسب درجہ بندی کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے-

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کسی واضح معیار اور معاوضے کی ادائیگی کے تعین کی غیر موجودگی کی وجہ سے اکثر متاثرہ شہریوں کے درمیان مختلف معاوضے کی ادائیگی غیر آئینی دکھائی دیتی ہے-

ایسا لگتا ہے کہ قانون نے صوابدیدی اختیارات کے استعمال کے حوالے سے مختلف وجوہات کی وجہ سے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، جن میں ذاتی پسند، اقرباء پروری اور بدعنوانی شامل ہیں- اس طرح کے امتیازی سلوک سے شہری آبادی میں بددلی، بیچینی اور ناراضگی پھیل سکتی ہے- اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل ہے کہ سرکاری امداد کے سب سے زیادہ مستحق لوگوں کو مناسب یا کسی بھی قسم کی امداد کی فراہمی میں زبردست مشکلات پیدا ہو جائیں-

لہٰذا ایک جامع پالیسی کا تشکیل دیا جانا اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس کا اطلاق اور عملی نفاذ بہت ضروری ہے- ایسے وقتوں میں جب ریاست کی اپنے شہریوں کی حفاظت، ان کی فلاح اور دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، سرکاری مشینری میں اعتماد کی مزید کمی سے بچنے کے لئے معاوضہ دینے کے عمل کو کارگر بنانے کے لئے ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے-

دہشت گردی کی اس فضا میں ایسے اقدامات نہ صرف شہریوں کی زندگیوں میں حکومت کی موجودگی کو یقینی بنائیں گے بلکہ انہیں یکجہتی اور عزم کے اشاروں کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے-

اصل میں سرکاری حکام اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب وہ ان لوگوں کی حالت زار پر ہمدردی اور خلوص کی نگاہ ڈالیں- آخر میں ڈیوڈ لیویتھن کے الفاظ؛

"وہ چیز جو ہمیں جانوروں سے جدا کرتی ہے، جو ہمیں افراتفری میں جانے سے روکے ہوئے ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کا ماتم کر سکتے ہیں جن سے ہم کبھی ملے بھی نہ ہوں"-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

باسل نبی ملک
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025