افغانستان: تیرہ سالوں میں پہلا پولیو کیس

اپ ڈیٹ 11 فروری 2014
افغانستان کی وزیر صحت ثریا دلیل نے کہا کہ پاکستانی طالبان کی مخالفت ان کے ملک میں پولیو کے خاتمے کی مہم کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ —. فائل فوٹو
افغانستان کی وزیر صحت ثریا دلیل نے کہا کہ پاکستانی طالبان کی مخالفت ان کے ملک میں پولیو کے خاتمے کی مہم کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ —. فائل فوٹو

2001ء میں طالبان کی حکومت کے زوال کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پولیو کا پہلا کیس سامنے آیا ہے۔

تین سال عمر کی ایک بچی کے پولیو میں مبتلا ہونے کے بعد افغان وزارت صحت نے پورے شہر میں پولیو ویکسین کی خوراک پلانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

یوں تو پولیو کا پوری دنیا سے خاتمہ ہو چکا ہے لیکن افغانستان، پاکستان اور شمالی نائجیریا میں بچوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور کردینے والی یہ موذی بیماری اب بھی موجود ہے۔

ان تینوں ملکوں میں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے انسدادِ پولیو مہم میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ سے پولیو کے خاتمے کے پروگرام متاثر ہورہا ہے۔

تاہم افغانستان میں طالبان نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے پولیو کے خاتمے کے لیے ویکسین پلانے کے پروگرام کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد سے حالیہ برسوں کے دوران وہاں پولیو کے کیسز میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی۔

افغانستان بھر میں 2011ء کے دوران پولیو کے 80 کیس سامنے آئے تھے جبکہ 2013ء میں یہ تعداد 13 تھی۔

اب کابل میں ایک نیا کیس سامنے آنے سے محکمہ صحت کے افسران کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔

واضح رہے کہ پولیو سے متاثرہ لڑکی کا تعلق انتہائی مفلس کمیونٹی كوچی سے ہے۔ کوچی پہلے خانہ بدوش تھے اور اب یہ کابل کے مشرق میں ایک پہاڑی پر آباد ہیں۔

ہیلتھ ورکرز پولیو ویکسین پلوانے کے لیے اس کمیونٹی کے ہر گھر کا وزٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کوچی برادری کے گھروں میں پانی اور بجلی کا کوئی انتظام نہیں ہے اور بہت سے لوگ تو کابل کی سردی میں اب بھی خیموں میں رہتے ہیں ۔

ہیلتھ ورکرز بچوں کو پولیو کی دوا پلانے کے بعد ان کی انگلی پر سیاہی سے نشان بناتے ہیں اور گھر کی دیوار پر تاریخ لکھتے ہیں۔ یہ طریقہ اگرچہ پرانا ہے لیکن ملک بھر میں اس مہم سے وابستہ ہزاروں رضاکار اس بیماری پر قابو پانے میں تقریباً کامیاب رہے ہیں ۔

سکینہ نام کی اس لڑکی میں پولیو کے وائرس کا علم اس وقت ہوا جب وہ معذور ہو گئی۔

سکینہ کے والد ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور اکثر پاکستان سے ملحقہ سرحدی علاقے میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی بیٹی کو علاج کے لیے وہیں لے گئے ہیں ۔

سکینہ کے چچا محمد اعظم نے بتایا کہ ”سکینہ نے کہا کہ اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں دشواری اور تکلیف ہورہی ہے۔ دوسرے بچے کھیل رہے ہیں لیکن میں نہیں کھیل سکتی۔“

افغانستان اور پاکستان میں پولیو کا وائرس ایک ہی طرز کا ہے۔ ہر سال 15 لاکھ بچے سرحد پار کرتے ہیں اور ایسے حالات میں اس وائرس کے سرحد پار پھیلاؤ کو روکنا ممکن نہیں ہے۔

افغانستان میں گزشتہ سال پولیو کے جتنے بھی کیسز سامنے آئے تھے وہ تمام پاکستان کی سرحد سے منسلک علاقوں میں دیکھے گئے تھے ۔

افغانستان نے سرحد پر ہیلتھ ورکروں کو تعینات کردیا ہے جو سرحد پار کرنے والے تمام بچوں کو چیک کرتے ہیں اور بچوں کو پولیو ویکسین کی خوراک پلاتے ہیں۔

لیکن لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو باضابطہ مقامات سے سرحد پار نہیں کرتے ہیں بلکہ پہاڑیوں اور ریگستانی علاقوں کے کچے راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔

افغانستانی طالبان نے جدید دواؤں کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے لیکن پاکستانی طالبان اور نائجیریا میں سرگرم بوکو حرام نامی مذہبی شدت پسند گروپ اسے مغربی قوموں کا ہتھکنڈا کہتے ہیں۔

پاکستان طالبان پولیو کے خاتمے کے پروگرام میں حصہ لینے والے رضاکاروں اور ہیلتھ ورکروں پر حملہ کرکے انہیں ہلاک کرنے سے ساتھ ساتھ یہ پروپیگنڈہ بھی کر رہے ہیں کہ پولیو ویکسین کے ذریعے لوگوں کو نامرد بنایا جا رہا ہے۔

پاکستانی طالبان کی جانب سے پولیو کے خاتمے کے پروگرام کی مخالفت اور افغانستان کے کچھ حصوں میں جاری خانہ جنگی پولیو کو دنیا سے ختم کرنے کی عالمی مہم میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

افغانستان کی وزیر صحت ثریا دلیل نے کہا کہ پاکستانی طالبان کی مخالفت ان کے ملک میں پولیو کے خاتمے کی مہم کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی طور پر پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی اس مختصر مہم کے بعد معمول کی مہم جاری رہے گی۔ تاکہ اس وائرس کے خلاف دباؤ میں اضافہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ کیس الگ تھلگ ہے اور کوئی نیا کیس سامنے نہیں آئے گا۔

”کابل کا یہ نیا کیس ہم پر واضح کرتا ہے کہ پولیو کے خاتمے کے لیے ہماری کوششیں ابھی رکنی نہیں چاہیٔیں۔ اور ہمیں ہر بچے کو، چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہو، پولیو ویکسین پلوانے کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کردینی چاہیٔیں۔“

بشکریہ: بی بی سی

تبصرے (0) بند ہیں