ملے جو دیں سیاست سے - 5
روایت ہے کہ ’سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کے امتزاج کا بہترین نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے جماعت کی تاریخ پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ ارض پاک مذہبی تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور مذہبی جماعتیں، جنہیں عوام نے کبھی ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملک کی نظریاتی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہیں۔**
'سیاست ایک گٹر ہے'، یہ فقرہ ہم سب بہت بار سن چکے ہیں، لیکن مذہب اور سیاست کے تعلق پر بات کرنا کبھی گوارہ نہیں کرتے. اگر سیاست گٹر ہے تو ظاہر ہے اس میں گرنے والی ہر چیز غلیظ اور ذلیل ہی ہوگی. تاریخ گواہ ہے مذہب کے نام پر سیاست کی اجازت ہونے کا واحد ایک ہی مطلب اور نتیجہ نکلتا ہے، ذاتی اور سیاسی مفاد کیلئے مذہب جیسے عظیم اور مقدّس آئیڈیل کا ناجائز استعمال اور استحصال.
گو علامہ اقبال نے مذہب اور سیاست کے تعلق سے فرمایا تھا؛
"جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"
لیکن پاکستانی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں یقین ہے کہ علامہ اگر آج حیات ہوتے تو ضرور کرّاہ اٹھتے کہ؛
"ملے جو دیں سیاست سے تو آجاتی ہے چنگیزی!"
پاکستان کی تاریخ میں مذہبی سیاست کے داغدار کردار کو قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے اس سلسلہ مضامین کا آغاز کیا ہے، جماعت اسلامی کو بطور مثال پیش کر کے ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو اکٹھا کرنا مہلک ترین غلطی ہے اور جس کی سزا نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔

یہ اس بلاگ کا پانچواں حصّہ ہے، پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے حصّے کے لئے کلک کریں
29 اپریل 1955 کو مولانا مودودی کال کوٹھری سے رہا ہوئے۔ انکی جماعت کے دیگر گرفتار شدہ ارکان کو اس سے قبل رہا کیا جا چکا تھا۔ دستور سازی میں اسلام کو بنیادی حصہ بنانے کے لیے جماعت اور مولانا نے کئی برس سے کام شروع کر رکھا تھا اور قرارداد مقاصد بھی انہی کے منصوبوں کی ایک کڑی تھی۔
بعد میں جماعت نے مختلف مذہبی راہنماؤں کو اکٹھا کرکے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا۔ اسی سلسلے میں جماعت نے جولائی 1953 ء میں اسلامی دستور کا دن بھی منایا۔
اس سے پہلے مولانا اس موضوع پر پنجاب لاء کالج اور ریڈیو پاکستان پر تقاریر کر چکے تھے اور انہوں نے اپنے طور پر ایک اسلامی دستور کے خدوخال بھی تیار کیے تھے۔
جماعت کا یہ اصرار تھا کہ دستور سازی میں اسکی تجاویز کو بنیادی اہمیت دی جائے، حالانکہ جماعت کا ایک بھی رکن دستور ساز اسمبلی کا حصہ نہیں تھا۔ البتہ جماعت سے ہمدردی رکھنے والے افراد جیسے چوہدری محمد علی، اشتیاق حسین قریشی، عمر حیات ملک اور کچھ حد تک خواجہ نظام الدین کسی نہ کسی طور ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کے مستقل مکین رہے۔
سنہ 1955 میں چوہدری محمد علی وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس سال قانون ساز اسمبلی کے لیے منعقد ہونے والے انتخابات میں جماعت نے حصہ نہیں لیا، لیکن قانون سازی کے عمل میں اپنا مقدور بھر حصہ ضرور ڈالا۔
مئی 1955 میں جماعت کی ایماء پر چونتیس (34) اسمبلی ممبران نے حلف نامے پر دستخط کیے کہ نئے دستور میں اسلامی شقیں برقرار رکھی جائیں گی۔
29 فروری 1956 کو اسمبلی نے پاکستان کا پہلا دستور منظور کیا، جسے مارچ میں نافذ کیا گیا۔ اس دستور میں ملک کا نام (مودودی صاحب کی خواہشات کے مطابق) 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' رکھا گیا اور تمام قوانین کو مذہب کی کسوٹی پر پرکھے جانے کا عندیہ دیا گیا۔
اس دستور میں اگرچہ مولانا کی زیادہ تر خواہشات کو عملی شکل نہ ملی لیکن وقت کے تقاضے کے مطابق جماعت کی جانب سے دستور کے 'اسلامی' ہونے کی نوید سنائی گئی۔ کچھ ہی ماہ بعد چوہدری محمد علی کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور انکی جگہ حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بنے۔
اپریل 1958 میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت نے چھیانوے میں سے انیس نشستیں جیتیں۔ اس جیت نے کچھ دیر کے لیے جماعت کے حوصلے بلند کیے لیکن اکتوبر میں فوج نے تختہ الٹ دیا اور جماعت کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔
اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کرنے کی ایک وجہ جماعت اسلامی جیسی تنظیموں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بھی بتائی، بعد میں جنرل ایوب کی حکومت نے بھی اسلام کو جدیدیت کی جانب مائل کرنے کا اعادہ کیا۔
سنہ 62 کے دستور میں 1956 کے دستور کی اسلامی شقیں برقرار رکھی گئیں البتہ ملک کے نام سے 'اسلامی' کا دم چھلّہ اتار کر صرف 'جمہوریہ پاکستان' مقرر کیا گیا۔ حسب توقع جماعت نے اس پر خوب واویلا کیا اور ایک سال بعد نام کو تبدیل کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کر دیا گیا۔
جماعت کی حرکتوں سے عاجز آ کر 1962 میں وفاقی کابینہ نے جماعت کے متعلق ایک رپورٹ مرتب کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جماعت اسلامی دراصل ایک فتنہ ہے اور اس میں 'اخوان المسلمون' بننے کے جراثیم موجود ہیں۔
اس فتنے سے نمٹنے کے لیے جو تراکیب پیش کی گئیں، وہ ہو بہو وہی تھیں جو صدر ناصر نے مصر میں اخوان کے خلاف استعمال کی تھیں۔ اس ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس رپورٹ پر کبھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔
کابینہ میں موجود جماعت سے ہمدردی رکھنے والے وزراء (حکیم محمد سعید، اے کے بروہی، افضل چیمہ) نے صدر ایوب کو قائل کیا کہ وہ مودودی صاحب سے مصالحت کر کے دیکھیں۔
1962 میں صدر ایوب نے لاہور میں مولانا سے ملاقات کی اور ان کو مشورہ دیا کہ سیاست کی بجائے مذہبی میدان میں اپنا کام جاری رکھیں اور ان کو بہاولپور اسلامی یونیورسٹی کی سربراہی کی دعوت بھی دی گئی۔ مولانا نے ان شرائط کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی بغاوت جاری رکھی۔
1964 ء میں حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور جماعت پر پابندی عائد کر کے اسکے سربراہان کو قید کر دیا گیا۔ اسی اثنا ء میں صدارتی انتخابات کا شوشا اٹھا تو جماعت نے ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کیا۔
سن 1964 ء میں مولانا نے محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں جو بیان دیے، ان پر ایک نظر ڈالیں:
’عوام کو اس معاملے میں غافل نہیں رہنا چاہئے، اگر ان کی کوتاہی سے ان کے نمائندوں نے غاط فیصلہ کیا (اور مس فاطمہ جناح کو صدر منتخب نہ کیا) تو پھر خدا بھی رحم نہیں کرے گا‘۔
’ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ مس فاطمہ جناح کو صدر منتخب کر کے موجودہ حکمرانوں کو آئینی طریق سے اقتدار سے علیحدہ کریں۔‘
’موجودہ حالات و کوائف میں اپوزیشن کی طرف سے مس فاطمہ جناح کی جگہ کسی متقی پرہیزگار مرد کو صدارتی امیدوار بنایا جاتا تو یہ گناہ ہوتا‘۔
یاد رہے کہ یہ وہی مولانا ہیں جنہوں نے سن 1940 ء میں آزادی ء نسواں کے علم برداروں کے خلاف "پردہ" کے نام سے کتاب لکھی۔ اس 'شاہکار' کتاب کے چند 'زرّین' اقتباسات پیش خدمت ہیں، پڑھنے والوں سے گزارش ہے کے وہ خود فیصلہ کریں کہ بیسویں صدی میں ایسے دقیانوسی خیالات رکھنے والے ملّا اور ان کے نظریات کی جدید دنیا میں کوئی جگہ ہے؟
صفحہ 97 "عدل کا تقاضا کیا ہے؟ کیا عدل یہ ہے کہ عورت سے ان فطری ذمہ داریوں کی بجا آوری کا بھی مطالبہ کیا جائے جن میں مرد اس کا شریک نہیں ہے اور پھر ان تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے جن کو سنبھالنے کے لیے مرد فطرت کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے؟ اس سے کہا جائے کہ تو وہ ساری مصیبتیں بھی برداشت کر جو فطرت نے تیرے اوپر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آ کر روزی کمانے کی مشقتیں بھی اٹھا، سیاست اور عدالت اور صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت اور قیام امن اور مدافعت وطن کی خدمتوں میں بھی برابر کا حصہ لے؟ یہ عدل نہیں، ظلم ہے، مساوات نہیں، صریح نامساوات ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ عورت کے ذمے تمدن کے ہلکے اور سبک کام سپرد کیے جائیں اور اس کے سپرد یہ خدمت کی جائے کہ وہ خاندان کی پرورش اور اسکی حفاظت کرے۔ عورت پر بیرون خانہ کی ذمہ داریاں ڈالنا ظلم ہے۔"
صفحہ 98 "بچہ جننے اور پالنے کی خدمت کا عورت کے سپرد ہونا ایک فیصلہ کن حقیقت ہے۔ ایک صالح تمدن وہی ہو سکتا ہے جو اس فیصلہ کو جوں کا توں قبول کرے۔ پھر عورت کو اس کے صحیح مقام پر رکھ کر اسے معاشرت میں عزت کا مرتبہ دے۔ اس کے جائز تمدنی و معاشی حقوق تسلیم کرے، اس پر صرف گھر کی ذمہ داریوں کا بار ڈالے اور بیرون خانہ کی ذمہ داریاں اور خاندان کی قوامیت مرد کے سپرد کر دے۔ جو تمدن اس تقسیم کو مٹانے کی کوشش کرے گا، اس تمدن کی بربادی یقینی ہے۔"
صفحہ 164 "جو شخص اسلامی قانون کے مقاصد کو سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ عقل عام بھی رکھتا ہے، اس کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ عورتوں کو کھلے چہروں کے ساتھ باہر پھرنے کی عام اجازت دینا ان مقاصد کے بالکل خلاف ہے"۔
اپنے سیاسی مفاد کی خاطر نظریات کی اس طرح تبدیلی دیکھنے پر اگر سہیل وڑائچ صاحب کو موقعہ ملا ہوتا تو ضرور چلّا اٹھتے: ’مولانا! کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘
ستمبر سنہ 1965ء میں پاک-ہند جنگ چھڑ گئی تو ایوب خان نے اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کو اسلام آباد طلب کیا اور مل کر اس یلغار کا مقابلہ کرنے کا پیغام دیا۔
اس موقعے پر مودودی صاحب کو قائل کیا گیا کہ وہ ہندوستان کے خلاف جہاد کا اعلان ریڈیو پاکستان کے ذریعے کریں۔ اپنا سیاسی ستارہ عروج پاتے دیکھ کر جماعت نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تبصرے کرنے شروع کر دیے اور پاکستان کو دیگر اسلامی ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی تبلیغ کی گئی۔
حسین حقانی کی تازہ ترین کتاب کے مطابق 1965 کی جنگ کے بعد امریکی امداد کی واضح کمی کے باعث ملک معاشی بحران کا شکار ہوا اور مشرقی پاکستان میں احساس محرومی حدوں سے بڑھنے لگا۔
مغربی پاکستان میں ترقی کا جو شوشا چھوڑا گیا تھا، اس کا فائدہ گنے چنے خاندانوں نے اٹھایا جبکہ مزدور طبقے اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا۔
اس کے علاوہ، مشرقی پاکستان کے باسیوں کو مسلسل تفریق کا سامنا کرنا پڑتا تھا، تقسیم کے وقت فوج میں ایک فیصد بنگالی تھے اور 1965 تک فوج کا صرف سات فیصد حصہ بنگالیوں پر مشتمل تھا. اسی طرح افسر شاہی میں ایک لاکھ افسروں میں سے صرف ستائیس ہزار کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا.
1970 میں مغربی پاکستان کی فی کس آمدن مشرقی پاکستان کے مقابلے میں ساٹھ فیصد زیادہ تھی۔ حالانکہ متحدہ پاکستان کی آبادی کا زیادہ حصہ مشرقی پاکستان میں مقیم تھا اور آمدن بھی زیادہ وہیں سے ہوتی تھی۔
معاہدہ تاشقند کے بعد ذوالفقار بھٹو اور عوامی لیگ نے عوامی جذبات کو حکومت کے خلاف ابھارا البتہ جماعت ڈان قے ہوتے کی طرح اپنے خیالی گھوڑے پر سوار پن چکیوں سے جنگ کرتی رہی۔
جون 1966 میں مولانا کی کتاب خلافت و ملوکیت منظر عام پر آئی، اس کے علاوہ جماعت نے اپنی زیادہ توجہ ڈاکٹر فضل الرحمن اور انکی اسلام کو اکیسویں صدی میں لانے کی کوششوں کی مذمت پر مرکوز کی۔
بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے عروج نے جماعت اور اسکی قیادت کو بوکھلا دیا اور ان کی تمام کاوشیں عوامی مقبولیت کے سیلاب کے آگے بند باندھنے میں صرف ہوئیں۔ بائیں بازو کی جماعتوں اور مزدور تحریک کو کچلنے میں اسلامی جمیعت طلبہ نے ریاست کی 'بی ٹیم' کا کردار ادا کیا۔
مارچ 1969ء میں ایوب اور سیاسی جماعتوں کے مابین گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے پاکستان میں انتشار کی ذمہ داری اسلامی قوانین کی عدم موجودگی پر ڈالی اور اسلام کو ملک کی وحدت کی ضمانت قرار دیا۔
25 مارچ 1969 کو صدر ایوب نے استعفی دے دیا۔ مودودی صاحب نے اسے گول میز کانفرنس کی کامیابی کہا (شاید وہ روزانہ کے اخبارات دیکھنے کے قائل نہیں تھے) اور بیان دیا کہ اب اسلامی نظام قائم ہونے کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہٹ گئی۔ ساتھ ہی انہوں نے عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کو مشورہ دیا کہ مظاہرے ختم کر دیے جائیں۔
اس دور میں جماعت کی سیاست پر ڈاکٹر اسرار احمد نے لکھا:
"1962 سے 1970 کے دوران جماعت اسلامی نے ایک جانب جمہوریت کے عشق میں انتہا پسندی کا ثبوت دیا کہ نہ صرف خالص سیکولر بلکہ ملحد عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ میں بھی کوئی باک محسوس نہ کی، اور مبالغہ آرائی اس حد تک پہنچ گئی کہ صدر ایوب خان بمقابلہ محترمہ فاطمہ جناح کے باب میں یہ الفاظ تک کہہ دیے؛
"ایک جانب ایک مرد ہے جس میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہے، اور دوسری جانب ایک عورت ہے جس میں اس کے سوا کوئی عیب نہیں کہ وہ عورت ہے۔"
دوسری طرف عوامی توجہ کا مرکز بننے کے لیے دینی اعتبار سے اس درجہ پستی اختیار کر لی گئی کہ 'غلاف کعبہ کی رام لیلا' منعقد کرنے میں بھی کوئی حجاب محسوس نہ کیا۔"
(جاری ہے)
ریفرنس
-- مودودی حقائق، محمد صادق قادری http://www.scribd.com/doc/184142389/Historical-Facts-on-Mawdudi-Jamat-e-Islami
-- پردہ، ابوالاعلی مودودی http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/Pardah.pdf
-- مولانا مودودی اور میں، اسرار احمد http://www.scribd.com/doc/39933698/Maududi-and-I-Dr-Israr-Ahmad-Bio
Magnificient Delusions, Husain Haqqani
The Vanguard of Islamic Revolution, Vali Nasr http://publishing.cdlib.org/ucpressebooks/view?docId=ft9j49p32d;brand=ucpress












لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں