• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

انتہا پسندی کے رنگ

شائع 24 فروری 2014 11:05am

جنگوں کی کئی قسمیں ہیں، چھوٹی بڑی، طرح طرح کی- سرد جنگیں، عالمی جنگیں، گوریلا جنگیں اور علاقائی جنگیں؛ وسائل اور سرزمین پر قبضہ کرنے کی جنگیں اور انقلابی جنگیں-

ایک اور قسم کی جنگ بھی ہے، مذہبی جنگ- عموماً یہ جنگیں اپنے پڑوسی پر چڑھائی کرنے کے لئے کی جاتی ہیں، اور ایمان کا لبادہ اوڑھ کر کی جاتی ہیں- ماضی میں، یہ ہوا کرتا تھا کہ کوئی اوالعزم بادشاہ یا پادری دعویٰ کرتا تھا کہ اسے خدا کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ وہ اپنے کسی دیوتا کا پیغام دوسرے علاقوں تک پہنچائے- ان جنگوں میں تمام فریقوں کو پتہ ہوتا تھا کہ وہ حالت جنگ میں ہیں-

لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا- یہاں اگرچہ اسلام کے پیروکاروں نے برسوں سے ریاست کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے اس احمقانہ خیال کا شکار ہیں کہ ہمارے یہ مسلمان بھائی گمراہی کا شکار ہیں- ان لوگوں کے خیال کے مطابق حکومت کو چاہیئے کہ وہ صبر سے کام لے اور ان کے خلاف اقدامات کرنے سے گریز کرے-

عمران خان کے ہم خیال لوگوں کے مطابق فوجی ایکشن کے نتیجے میں حالات مزید بدتر ہو جائینگے- ہمیں بس یہ کرنا ہوگا کہ گریزکرتے رہیں، ایک گال پر تھپڑ کھانے کے بعد، دوسرا گال پیش کرتے رہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جلد یا بدیر ہمیں اذیت پہنچانے والوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائیگا-

لگتا ہےجہادیوں کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں ہے اس لئے انھوں نے پاکستان کے شہریوں کو مٹی کا مادھو سمجھ لیا ہے- انھیں وہ ہزاروں کی تعداد میں ذبح کر رہے ہیں اور انکے وسیع علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں- اس خونریزی کے سامنے ریاست اس خوفزدہ خرگوش کی طرح دکھائی دیتی ہے جسکی آنکھیں سامنے سے آنیوالی کار کی روشنی سے چکاچوند ہوگئی ہوں اور وہ اپنی جگہ ساکت ہو گیا ہو-

مذاکرات میں برابر کے شریک کا درجہ پاکر، باغی غیر رسمی چینلز کے ذریعے اپنی شرائط پیش کر رہے ہیں؛ ان کا پتھر کے زمانے کا اسلامی نظریہ قبول کیا جائے، جدید تعلیم کو ممنوعہ قرار دیا جائے اور قبائیلی علاقوں کو ان کے حوالے کردیا جائے وغیرہ وغیرہ- مختصر یہ کہ ہم سے کہا جارہا ہے کہ ہم ساتویں صدی میں واپس چلے جائیں-

ہمیں پسپائی کے راستے پر جکڑے رکھنے کے لئے انھوں نے مذاکرات کے ساتھ ساتھ قتل و غارت گری کا راستہ اختیار کر رکھا ہے- ظاہر ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ کسی حملے کے پیچھے ان کا ہاتھ نہیں ہے تو ان کے معذرت خواہ فوراً انکی بےگناہی کو تسلیم کرلیتے ہیں- ان کی باتوں کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ، یہ مجرمین بلا امتیاز قتل کرسکتے ہیں، نوجوان لڑکیوں کو خودکش بمبار کی حیثیت سے استعمال کرسکتے ہیں، قیدیوں کا سر قلم کرسکتے ہیں لیکن جب ان کا مطلب ہو تو جھوٹ نہیں بول سکتے-

اور ہمیں یہ یقین دلانے کے لئے کہ اگر ہم ریاست کو ان جہادیوں کے حوالے نہیں کرینگے تو ہمارا کیا حشر ہوگا؟ ان کے ساتھی اور ترجمان، مولانا عبدالالعزیزہمیں دھمکی دیتے ہیں کہ ان کے سرپرستوں کے پاس 500 تربیت یافتہ خودکش بمبار خواتین موجود ہیں جو مزید تباہی پھیلانے کے انتظار میں ہیں-

آپ کا شائد یہ خیال ہو کہ اللہ پر ایمان رکھنے والا بندہ اس طرز عمل کی مذمت کرے گا نہ کہ اسے فخریہ بیان کرے گا- لیکن جس دن سے وہ برقع پہن کر فرار ہوئے ہیں لگتا ہے وہ خود کو بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں- 40000 سے زیادہ معصوم پاکستانیوں کی ہلاکتوں کو جائز ثابت کرنے کےلئے طالبان کی مدافعت کرنے والے لوگ اس کی وجہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت قرار دیتے ہیں- لیکن یہ دلیل احمقانہ ہے؛ دہشت گرد 9/11 سے پہلے ہی سے پاکستان میں اپنے ٹارگٹس پر حملے کر رہے ہیں-

آرمی نےاسلامی گروپس 1990 کے آغاز سے بنائے تھے اور وہ ہندوستانی-کشمیر میں انکی کارروائیوں کی حمایت کر رہی تھی- طاقت اور جواز پا کر انھوں نے اپنی بندوقوں کا رخ پاکستان کی ریاست اور اسکے عوام کے خلاف پھیر دیا، جیسا کہ زاہد حسین نے اپنے حالیہ کالم میں لکھا ہے-

مجھے یاد ہے کہ میں نے اس زمانے میں ایک جنرل کے سامنے، جو برسر کار تھے، تنقید کی تھی-"اگر چند سو جہادی کشمیر میں کئی ڈویژن ہندوستانی فوج کو ہماری سرحدوں سے دور رکھ سکتے ہیں تو فوج کا انکی حمایت کرنا بالکل مناسب ہے- "لیکن قلیل مدت کے فائدے ہمیشہ طویل مدت کے اسٹریٹجک فائدوں میں تبدیل نہیں ہو سکتے-

اب، یہ چند سو دہشت گرد ہزاروں خون کے پیاسے مجرم بن چکے ہیں جنھیں یہ معلوم ہے کہ ان کے دشمن ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں- لیکن یہاں انتہا درجہ کی ستم ظریفی نظر آتی ہے: پاکستان کو ایک زمانے سے اس بات پر فخر رہا ہے کہ وہ ایک فوجی ریاست ہے جس کے پاس ایک بھاری طاقتور فوج اور فوجی انٹیلیجنس کا ادارہ ہے جو کسی کو جوابدہ نہیں- لیکن جن اسلامی گروپس کو تشکیل دینے کے لئے وہ ذمہ دار ہیں، وہ ہمیں سلامتی اور دفاع کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے-

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کو جہادیوں کے سخت رد عمل سے محفوظ رکھنے اور انھیں خوش کرنے کے لئے نواز شریف کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں- ہمایوں گوہر نے دی نیشن کے کالم میں دوسرا نظریہ یہ پیش کیا ہے کہ حکومت شریعہ کے نفاذ کے لئے طالبان کے مطالبات کو خود اپنے خفیہ ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے استعمال کر رہی ہے-

ہم سب کو یاد ہے کہ نواز شریف نے اپنے سابقہ دور حکومت میں 15ویں ترمیم کو لاگو کرنے کی کوشش کی تھی جسکے نتیجہ میں شریعہ ہمارے ملک کا قانون بن جاتا، اور خود امیرالمومنین بننا چاہتے تھے- ہوسکتا ہے ان کی یہ خواہش اس بار پوری ہوجائے لیکن اسکی بھاری قیمت دینی ہوگی-

چلتے چلتے: میرے ایک پرانے دوست مصطفیٰ نورانی چند ہفتے قبل، ایک بلاجواز حادثہ میں لقمہ اجل بن گئے- جس نوجوان کو اپنی لاپرواہی کی وجہ سے اس مہلک حادثہ کا ذمہ دار قرار دے کر گرفتار کیا گیا ہے، وہ بیل پر رہا ہوا تھا اور اس کے اہل اقتدار سے اچھے تعلقات ہیں ،اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس پر مقدمہ نہ چلے- مصطیٰ، ایک بیحد نفیس اور شفیق انسان تھے- میری دعا ہے کہ وہ گوشہ سکون میں رہیں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025