چیف تیرے جانثار۔۔۔
لو بھائی بالآخر ایک اچھی خبر آئی۔ ہمارے ہر دلعزیز چیف موسوم بہ محمد افتخار چوہدری کوئٹہ میں جلوہ افروز ہوئے۔ خانیوال اور اسلام آباد میں بھی درشن دیا، لولوئے حکمت بکھیرے اور یہ خوش خبری بھی دی کہ ملک بھر کی دو سو سے زائد بار ایسوسی ایشنوں کا طوفانی دورہ کرکے قوم کی رہنمائی کا بوجھ اٹھائیں گے۔
سچ پوچھئے تو اس خبر سے دل کا بوجھ ہٹ گیا۔ تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی۔ گزشتہ دسمبر میں جب ایوان عدل سے محترم افتخار چوہدری کا کوچ نقارہ بجنے کے دن آئے تو ادھر ادھر سے پرندے خبر لائے کہ حضرت ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
برا ہو اخبار نویسوں کا کہ یکے بعد دیگرے کالم لکھ لکھ کر ممدوح محترم کو اس خیال سے باز رہنے کے مشورے دیے۔ قوم کی دل بستگی کا ایک شاندار موقع جاتا رہا۔ یہ پارٹی بن جاتی تو ایسی کون سی قیامت آجاتی۔ ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی انسان کو رکھتیں دکھیارا۔ نیز یہ کہ ہزاروں مخلصان وطن بنوں اور کوہاٹ وغیرہ میں مارے مارے پھرتے ہیں، افسوس کہ ان خدائی فوج دار قلم کاروں کی مداخلت بے جا سے قوم چند نہایت عمدہ کالموں سے محروم ہو گئی۔
آپ کو یاد ہو گا گزشتہ موسم سرما میں کینیڈا سے ایک نورانی صورت، فرشتہ صفت بزرگ تشریف لائے تھے۔ لانگ مارچ کے اکتارے پر ایک ایسی تان اڑائی کہ سب کے دل دہل کر رہ گئے۔ معلوم ہوتا تھا سیاست کا بولورام ہونا ٹھہر گیا ہے۔ ایک کالم برادرم عطا الحق قاسمی نے لکھا اور تشبیب کے طور پر دو کالم نذیر ناجی نے زیب قرطاس کیے۔
عطاالحق قاسمی ڈھیل کے پیچ لڑاتے ہیں۔ ان کے ستم گزیدہ کو گھر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ جیب بھی کٹ گئی اور ناک کا بھی نشان نہیں ملتا۔ نذیر ناجی کھینچ کے کھلاڑی ہیں۔ ایک ہاتھ مارا اور حریف منہ دیکھتے رہ گئے۔ شیخ الاسلام کی ہوا میں اٹھی تنبیہ الغافلین انگلی وہیں ٹھہر گئی۔ آنکھیں تو کھلی رہ گئیں پر مر گئی بکری۔ بریانی کی دیگیں اور قیمہ بھرے نان دھرے کے دھرے رہ گئے۔
شیخ الاسلام کے دھرنے سے اردو صحافت کو تین تاریخی کالم نصیب ہوئے۔ حضور والا اس برس بھی عازم پاکستان ہوئے لیکن غالباً ہاتف نے توجہ نہیں کی۔ کندے اچکا کر رہ گئے، اڑان نہیں بھری۔
خیال تھا کہ افتخار محمد چوہدری سیاسی جماعت بنائیں گے تو ایک دو رس دار کالم نصیب ہوں گے پر مشاورتی کالم نویسوں نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ خیر برسوں پروٹوکول کا لطف اٹھانے کے بعد اپنی مزعومہ ذہانت کا جو نشہ چڑھتا ہے، صحافت کی ترشی سے دور نہیں ہوتا۔ ریٹائرمنٹ ماندگی کا ایک وقفہ ہے۔ سو حضرت افتخار محمد چوہدری دم لے کر آگے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ حالیہ بیان میں ارشاد فرمایا کہ قوم کو ایک سیاسی مسیحا کی سخت ضرورت ہے ۔ نیز یہ کہ سیاست دانوں نے ملک کو پستیوں میں دھکیلا۔
جہاں تک مسیحائی کا تعلق ہے تو اس کے دو پہلو ہیں ایک اصولی اور ایک شخصی۔ بریخت کے کھیل "گلیلیو" میں ایک طالب علم کہتا ہے؛
"بد نصیب ہے وہ دھرتی جہاں ہیرو پیدا نہیں ہوتے"۔
بوڑھا گلیلیو جواب دیتا ہے؛
"نہیں آندرے! بد نصیب ہے وہ دھرتی جسے ہر روز ایک ہیرو کی ضرورت پیش آتی ہے"۔
نفسیاتی اعتبار سے ہیرو کی پرستش ذہنی انفعالیت، احساس کمتری اور ناقابل عبور مشکلات کے مقابلے میں شکست خوردگی کے جذبے سے جنم لیتی ہے۔ ہیرو ایک مافوق الفطرت کردار ہے جو اپنی یگانہ روزگار صلاحیتوں کی مدد سے تمام مشکلات حل کر سکتا ہے۔
کسی قوم میں ہیرو کا تصور ذہنی عدم بلوغت کی نشانی ہے۔ اور شخصی پہلو یہ کہ حضرت قریب سات برس قاضی القضاۃ رہے مگر تجھ لبو ں نے نہ کی مسیحائی!
بھیل کوہلی حیدر آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھے بیٹھے دنیا سے رخصت ہو گیا
رنکل کماری انصاف لینے آئی تھی۔ اسلام آباد کے صحافی اس مقدمے کا کیف و کم جانتے ہیں۔ گورنر سلمان تاثیر اسلام آباد میں نشانہ بنے۔ آپ کی حس انصاف رنجک چاٹ گئی۔
سید حماد رضا ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ 14 مئی 2007 ء کو مارے گئے۔ آپ 2009 ء سے 2013 ء تک چیف جسٹس رہے۔ حماد رضا کے خون ناحق سے آپ کی زنجیر عدل میں جنبش پیدا نہ ہوئی البتہ عتیقہ اوڈھو کے بیگ میں مائع طرب انگیز کی دو بوتلوں سے آپ بلبلا اٹھے۔
لال مسجد کے ہتھیار بند جتھوں کی دل آسائی کی آپ کو فکر لاحق رہی۔ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار آپ نے منتخب وزیراعظم کو عدالت کے ذریعے گھر بھیجا۔ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم پر مجبور کر کے مقننہ کی حدود میں دخل اندازی کی۔ پسندیدہ صحافیوں کو ساتھ بٹھا کے انصاف کی مشاطہ گری کرتے رہے۔ سٹیل مل کی نج کاری میں رخنہ اندازی کر کے معیشت کی گاڑی پٹری سے اتار دی۔
قانون کی پاسداری کی بجائے آپ کی مسیحائی اخبارات کی سرخیوں میں جلوہ آرائی کا شوق رکھتی تھی۔ خانیوال کا وہ پولیس افسر آج تک آپ کے نام کی مالا جپتا ہے جس نے اپنے منصبی تقاضوں سے ہٹ کر پروٹوکول دینے سے انکار کیا تو اسے آپ کی متورم انا کی کماحقہ تسکین نہ کرنے کے جرم میں شب بھر لاہور کے سرکٹ ہاؤس میں کھڑا رکھا گیا۔
کتاب قانون میں عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین موجود رہے مگر آپ کو انسانی حقوق کا سیل بنانے میں دلچسپی تھی۔ انسانی حقوق، آزادیوں اور استحقاق کی ادارہ جاتی ضمانت کا نام ہے، اس کا نمائشی زنجیر عدل سے کوئی تعلق نہیں۔
حضرت کی سبک دوشی کے بعد سے ملک میں اب تک دہشت کے سوداگروں نے بہت خون بہایا ہے۔ افتخار چودھری نے جھوٹے منہ قاتلوں کی مذمت نہیں کی۔ فرمایا تو یہ کہ سیاست دانوں نے ملک کو پستیوں میں دھکیلا۔ بجا فرمایا۔ لگے ہاتھوں یہ تصریح بھی کر دیتے کہ جسٹس منیر نے گورنر جنرل غلام محمد کی پارلیمنٹ شکنی اور پھر جنرل ایوب خان کی بغاوت کو نظریہ ضرورت کی بیساکھیاں دے کر قوم کے راستے میں زمرد اور یاقوت جڑ دیے تھے۔
صاحبان انصاف نے جنرل یحییٰ خان کو غاصب قرار دینے کے لیے 1972ء کا انتظار کیا تو اس سے متحدہ پاکستان کی بنیادیں مضبوط ہوئی تھیں۔ چیف جسٹس یعقوب علی نے 22 ستمبر 1977ء کو جو بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا تھا، اسے جسٹس انوارالحق نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر ضیاالحق کی بغاوت کو باجواز قرار دیا اور انہیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے ڈالا۔
عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا کر انصاف کا ایسا بول بالا کیا کہ دنیا ہمیں آج تک رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جنرل مشرف رات کی تاریکی میں جہاز سے اتر کر سوئے قوم آئے اور اک مژدہ جاں فزا ساتھ لائے تو جسٹس ارشاد حسن کی معیت میں خود ممدوح محترم جناب افتخار محمد چوہدری نے انہیں تین برس تک اقتدار کا اختیار سونپا نیز آئین میں جراحت کی سند عطا کی۔ سیاسی عمل اور سیاسی قیادت کی مذمت ہمارا پسندیدہ قومی شغل بھی ہے اور ہماری تمدنی پسماندگی کا استعارہ بھی۔
کسی غیر سیاسی شعبے سے شہرت پا کر سیاست میں گھسنے کی روایت بھی ہمارے ہاں نئی نہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان کے سیاسی جہاز نے رن وے سے اٹھ کر نہیں دیا۔ سیاسی جوڑ توڑسے حوصلہ پا کر جنرل اسلم بیگ نے ’فرینڈز‘ کی بنیاد رکھی مگر انہیں ریٹائرڈ کرنل غلام سرور کے سوا کوئی فرینڈ نصیب نہ ہوا۔
ارادے تو حمید گل کے بھی بلند تھے مگر ان کی سیاست دوسروں کا ہاتھ پکڑ کر ہوا میں بلند کرنے تک محدود رہ گئی۔ ٹیلی ویژن سکرین سے طاقت پا کر سیاست گری کا لپکا طاہر القادری نے مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد سے سیکھا تھا۔ آج سیاست اور ریاست دونوں موجود ہیں، طاہر القادری کی کوئی خبر نہیں۔
عمران خان کرکٹ سے سیاست کے کوچے میں آئے۔ اٹھارہ برس بعد بھی اپنے رفیقوں سے پوچھتے ہیں "سیاست کی پچ پر نندی پور کی مٹی کیوں کام نہیں دیتی"۔ محسن پاکستان قدیر خان نے بھی ایک جماعت بنائی۔ معلوم ہوا کہ سیاست کا نسخہ ہالینڈ کی لیبارٹری سے نہیں ملتا۔
اس فہرست میں اب غالباً افتخار محمد چوہدری کا نام ایزاد ہوگا۔ وہ شخصی اعتبار سے جاہ پسند ہیں۔ یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ ان کی سیاست بھی کسی سیاسی بیانیے کی بجائے شخصی مقبولیت پسندی کے گرد گھومے گی۔ سرمد نے تو کسی اور کیفیت میں کہا تھا ’بیا بیا کہ تو بہرصورتے می آید، من ترا خوب می شناسم‘۔ ہمارے پس منظر میں نعرہ حق کی صورت غالباً یہ ہو گی۔ ’چیف تیرے جانثار، ٹانویں ٹانویں اور بے کار‘۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں