کیا آپ مجھے میرا غم منانے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے؟
سانحے کے چند ہی گھنٹوں بعد، ایک رپورٹر، ایک کیمرہ مین اور ایک ڈرائیور پر مشتمل ہے فضا ملک کے گھر میں اپنا رستہ بنا رہے تھے- فضا اسلام آباد میں ہوئی تازہ ترین تباہی کا شکار ایک نوجوان وکیل تھیں-
مارچ کی تین تاریخ کو، چند دہشت گرد اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں داخل ہوئے اور آتے ہی انہوں نے گولیاں برسانا اور بم پھاڑنا شروع کر دیے- چند ہی گھنٹوں میں متاثرین کے نام، سوشل میڈیا اور نیوز میڈیا کے ذریعے ہر جگہ گردش کرنے لگے- اگلی ہی صبح، چار مارچ کو ایک نیوز چینل کے کریو نے اپنی وین فضا ملک کے گھر کے باہر پارک کر دی- گھر والوں کا غم بانٹنے آئے افراد نے رپورٹر کو تنبیہی نگاہوں سے دیکھا اور مختلف انداز سے ناراضگی کا بھی اظہار کیا تاہم اس سب کا رپورٹر پر کوئی اثر نہیں ہوا جو وہاں اپنی جاب کی تکمیل کیلئے وہاں پہنچی تھی-
نیوز میڈیا کو ایسا کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ ہر خبر کے حوالے سے تمام نیوز چینلز کے درمیان ہر خبر کو سب سے پہلے خبر بریک کرنے کی دوڑ جاری ہے تاہم، کیا آجکل پاکستان میں ایڈیٹرز اور صحافیوں کی ایسی حرکتوں کی نگرانی کیلئے کوئی اخلاقیات نہیں؟ ایک لمحے کیلئے اس خاندان کا اندازہ تو کریں جنہوں نے ابھی اپنا پیارا یا پیاری کھوئی ہے، غم ابھی بالکل تازہ ہے اور ایک رپورٹر اپنا مائیکروفون آپ کے منه میں گھسیڑے جا رہا ہے جبکہ کیمرہ مین آپ کے چہرے پر آنے والے آنسوؤں کو زوم کر کے دکھانے میں کوشاں ہے- دوسروں کے غمگین تجربات کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا ٹھیک معلوم نہیں ہوتا-
گو کہ میں وہاں زیادہ دیر رک کر رپورٹر کے مزید سوالات دیکھنے کی ہمت تو نہ کر سکی لیکن مجھے حیرت نہیں ہو گی کہ وہ سوالات انتہائی بے درد اور غیر اخلاقی ہوں گے جیسے ایک سوگوار خاندان سے یہ پوچھنا کہ "اس وقت آپ اپنے نقصان کے حوالے سے کیسا محسوس کر رہے ہیں"؟ ایسا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نیوز چینلز ایسے معاملات کی نزاکت کو سمجھنے کے حوالے سے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں-
مذکورہ نیوز چینل نے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا جہاں ناراض ناظرین نے انٹرنیٹ پر اس رپورٹر کے خلاف شکایات اور غصے کا اظہار کیا تھا جو ایک خواجہ سرا جوڑے کے گھر میں گھس گئی اور ان سے بے تکے، غیر ذاتی اور بیہودہ قسم کے سوالات کئے جن سے نہ صرف خود اس کا بلکہ نیوز چینل کا بھی مذاق اڑا-
نہ صرف یہ کہ مذکورہ عمل غیر اخلاقی تھا بلکہ غیر قانونی بھی تھا اور نجی ملکیت میں دراندازی کے زمرے میں آئے گا- پاکستان پینل کوڈ (ایکٹ XLV آف 1860) کے سیکشن 441 کے مطابق اس نیوز چینل کے اعمال جرم تصور ہوں گے اگر ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے کیونکہ ایکٹ کے مطابق ایسا عمل مجرمانہ دراندازی تصور ہوتا ہے:
"جو شخص کسی جرم کا ارتکاب کرنے یا ڈرانے، توہین یا تنگ کرنے کے ارادے کے ساتھ کسی بھی شخص کی جائیداد کی ملکیت میں داخل ہوتا ہے یا غیر قانونی طور پر اس طرح کے ارادے کے ساتھ رہتا ہے تا کہ ایسے کسی بھی خوف زدہ شخص کی توہین یا اسے تنگ کیا جائے تو یہ عمل "مجرمانہ دراندازی" کے ارتکاب کے زمرے میں آئے گا"-
گو کہ اس حوالے سے کوئی قانون تو موجود نہیں کہ ایک خاندان کو اپنے غم کا ماتم منانے کے لئے کتنا وقت دینا چاہئے کہ جس کے بعد ان پر ان کے نقصان کے حوالے سے سوالات کی بھرمار کر دی جائے تاہم صحافیوں کے ایسے اعمال کے بارے میں اخلاقیات کے اصول انکی رہنمائی کیلئے موجود ہیں- شاید ضرورت اس بات کی ہے کہ رپورٹرز ان اسٹوریز کو صرف اسٹوریز کے طور پر لینا چھوڑ دیں- یہ حقیقی لوگوں کی حقیقی زندگیاں ہیں جو اپنے درد اور بے بسی سے نبٹ رہے ہوتے جو انہیں اس نقصان کی وجہ سے ملتا ہے اور دوسرے جو اس سے خود نہ گزرے ہوں، اس تکلیف اور درد کا تو اندازہ بھی نہیں لگا سکتے-
جب کوئی رپورٹر کسی جائے وقوعہ پر نمودار ہوتا ہے تو اس پر اس بناء پر تنقید نہیں کی جا سکتی کہ وہ عینی شاہدین سے بات کر رہا ہے کیونکہ وہ تو محض حقائق جمع کر رہا ہے- تاہم جب کوئی رپورٹر کسی متاثرہ خاندان کے گھر حادثے کے چند ہی گھنٹوں بعد سانحے کے شکار فرد کے خاندان سے ان کے نقصان کے حوالے سے بات کرنے کیلئے نمودار ہو تو ایسی اسٹوری کی رپورٹنگ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ متاثرین کے ساتھ انصاف کیا جا سکے تا کہ لوگوں کو ان کے نقصان سے آگاہی ہو، وہ ان سے ہمدردی کریں اور ان کی مدد کریں-
اب کوئی یہ بتائے کہ کوئی رپورٹر کسی بھی قسم کے ہمدردی کے جذبات ابھارنے کی توقع بھی کیسے کر سکتا ہے جبکہ وہ سانحے کا شکار افراد کو ہی نہیں بلکہ ان ناظرین کو بھی ناراض کر رہا/رہی ہے جو اخلاقیات کی دھجیاں اڑتے یہ سب نیشنل ٹیلی ویژن پر دیکھ رہے ہیں-
اس حوالے سے حدود و قیود کا تعین کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے- صحافیوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے مقام اور جگہ ہوتی ہے جہاں انہیں رک جانا چاہئے اور جب بھی اس کی خلاف ورزی ہو اس کے خلاف آوازیں اٹھنی چاہئیں تا کہ ایسے کام روکے جا سکیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
منال خان SZABIST کی طالب علم ہیں، جہاں وہ صحافت اور فلم پروڈکشن بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک فری لانس لکھاری بھی ہیں فی الحال وہ مائ یور میڈیا کی پروجیکٹ ایسوسی ایٹ بھی ہیں جو کہ پاکستان کولیشن فار ایتھکل جرنلزم اینڈ پیس نیش کا میڈیا ایتھکس کے بارے میں آگاہی اجاگر کرنے کا پروجیکٹ ہے۔












لائیو ٹی وی