ماہر اقتصادیات اور عام آدمی اس بات پر خوش ہیں کہ روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کئی سالوں کے بعد بڑھی ہے جبکہ ڈالر دنیا کی 'ریزرو کرنسی' کی حیثیت بھی کھوتا جارہا ہے۔

تاہم دوسری جانب روپے کی قدر میں اضافے نے ایک طرح کا ' نادانستہ نقصان' بھی پہنچایا کیوں کہ اس نے بروکرز اور تجزیہ کاروں کے حساب کتاب اور پیشن گوئیوں کو غلط ثابت کردیا۔

برآمد کنندگان برآمدات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پریشان ہے تاہم ٹیکسٹائل سیکٹر اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔

اس سیکٹر کا سب سے اسٹاک نشاط مل کی قدر میں بھی کمی دیکھی جارہی جبکہ دیگر سیکٹرز کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

امکان ہے کہ بین الاقوامی طور پر خام تیل کی کی قیمت میں اضافہ کا سلسلہ رکنے کے ساتھ ہی آئل اور گیس سیکٹر بھی پریشانی کا شکار ہوسکتا ہے۔

فاؤنڈیشن سیکورٹی کے سربراہ زبیر غلام حسین کا کہنا ہے کہ سیکٹر میں 60 فیصد اسٹاک ڈالر سے منسلک ہے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ جمعے کو جب او جی ڈی سی کی قیمت میں 11.66روپے یا 4.5 فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی تو سرمایہ کار ڈر گئے۔ اس کے بعد ایم سی بی کی قیمت میں بھی گراوٹ دیکھی گئی۔

او جی ڈی سی کی قیمت میں کمی سے مارکیٹ میں خدشات پیدا ہوگئے ہیں کیوں کہ زیادہ تر اسٹاک پہلے ہی غیر ملکیوں کے ہاتھوں میں دی جاچکے تھے۔

ایم سی بی کا کراچی اسٹاک ایکسچیج میں 8 فیصد حصہ ہے۔

او جی ڈی سی، ایم سی بی اور پی پی ایل غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پسندیدہ اسٹاک ہیں جبکہ غیر ملکیوں کو دیے جانے والے اسٹاکس کا نصف حصہ انہی کمپنیوں کا ہے اس لیے غیر ملکیوں کا مارکیٹ میں اثر و رسوخ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی پوری طرح سے پاکستانی مارکیٹ بالخصوص او جی ڈی سی سے واسطہ ختم نہیں کریں گے۔

ایک اہم اسٹاک بروکر کا کہنا ہے کہ او جی ڈی سی کی قیمت میں 2008-09 سے لیکر اب تک سو فیصد اضافہ ہوا ہے جسکی وجہ سے زیادہ تر غیر ملکی سرمایہ کار اسے پوری طرح نہیں چھوڑیں گے۔

دیگر تجزیہ کار بھی ان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں