ذریعہ تعلیم کیا ہو؟

31 مارچ 2014
ہمارے ملک میں زبان کے تعلق سے جو غلط پالیسی اپنائی گئی ہے اس نے معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔
ہمارے ملک میں زبان کے تعلق سے جو غلط پالیسی اپنائی گئی ہے اس نے معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔

گزشتہ ہفتہ خوش ہونے کا ایک موقع ملا------ جو آجکل کے پریشان کن حالات میں ذرا کم ہی ملتا ہے- ہمارے ایک ممتاز اسکالر ڈاکٹر طارق رحمان کو، جو بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی، لاہور کے اسکول آف ایجوکیشن میں ڈین ہیں، برطانیہ کی یونیورسٹی آف شفیلڈ نے ڈی لٹ کی ڈگری دی- یہ ڈگری انھیں لسانیات، آرٹ، کلچر اور سماجی ترقیات کے شعبوں میں ان کی خدمات کی بنیاد پر دی گئی- یورپ میں ایک فی صد سے بھی کم لوگوں کو سماجی علوم میں ڈی لٹ کی ڈگری ملتی ہے-

پاکستان کو اس کامیابی پر فخر محسوس کرنا چاہیئے- ہمارے ملک میں تعلیم کی جو حالت ہے، کسی بھی ماہر تعلیم کی خدمات کو، خاص طور پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے، تو ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اسے سراہیں- اس موقع پر ہمیں چاہیئے کہ ہم ان کی تصانیف کا مطالعہ کریں اور ان کے علم اور دانش سے فائدہ اٹھائیں-

ہمارے پالیسی سازوں اور ماہرین تعلیم کو بھی چاہیئے کہ وہ ڈاکٹر رحمان کی اٹھارہ کتابوں میں سے کم از کم چند کتابوں کا مطالعہ کریں جو علم اور تحقیق کا خزانہ ہیں- تب انھیں احساس ہوگا کہ ان سے کہاں غلطی ہوئی- ڈاکٹر رحمان کثیرالتصانیف مصنف ہیں اور ان کی کتابیں پڑھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں، خاص طور پر پاکستان میں تعلیم، سماجی، ثقافتی اور سیاسی پس منظر میں زبان کی اہمیت کے بارے میں ان کی تصانیف-

اگر آپ طارق رحمان کی کتاب: (Denizen of Alien Worlds: A Study of Education, Inequality and Polarisation in Pakistan) کا سرسری مطالعہ بھی کریں تو آپ کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح ہمارا تعلیمی نظام اور زبان کی پالیسی ہمارے معاشرے کو دو مختلف سمتوں میں لیجا رہی ہے-

ہمارے ملک میں زبان کے تعلق سے جو غلط پالیسی اپنائی گئی ہے اس نے معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے؛ایک طرف دولتمند ہیں اور دوسری طرف غریب- بجائے اس کے کہ تعلیم مساوات قائم کرنے کا ذریعہ بنے، اس نے عوام کو بانٹ دیا ہے- ایک طرف تو اعلیٰ تعلیم یافتہ اشرافیہ ہے جس کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور دوسری طرف غریب عوام ہیں جو اپنی مقامی زبانوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جو بہت ہی بری طرح پڑھائی جاتی ہیں-

اور اب تعلیم کے پالیسی سازوں کی ایک نئی کھیپ سامنےآئی ہے جو اچھے ارادوں (اور غلط معلومات) کے ساتھ قیامت ڈھانے کی انوکھی مثال ہیں- ان کا خیال ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں یکسانیت پیدا کرنے میں ناکامی تمام خرابیوں کی جڑ ہے- اسی فرق کی وجہ سے دونوں میں فاصلے بڑھ رہے ہیں- بالکل ٹھیک- لیکن جب وہ اس کا حل تلاش کرتے ہیں تو راستے سے ہٹ جاتے ہیں-

وہ سمجھتے ہیں کہ یکسانیت پیدا کرنے کے لئے اگر اسکولوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی کر دیا جائے تو سب طلباء ایک سطح پر آجائیں گے - پنجاب نے یہی راستہ اختیار کیا حتیٰ کہ مشکلات سے گزرنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اس کے نتیجے میں نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں- چنانچہ اس نے پرانا نظام رائج کردیا- اب ذریعہ تعلیم انگریزی نہیں ہوگا اور اسے تیسری جماعت سے پڑھایا جائے گا-

اب خیبر پختونخواہ چاہتا ہے کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے- اس نے پنجاب سے سبق نہیں سیکھا- کوئی بھی اس مسئلے کا گہرائی سے جائزہ نہیں لے رہا ہے- تعلیم اسی وقت اچھی ہوسکتی ہے جبکہ اساتذہ اچھے ہوں، طریق تعلیم، درسی کتابیں، نصاب، امتحانی نظام اورنظم و نسق اچھا ہو- اب بھی بہتر یہی ہے کہ بچے اسکولوں میں اسی زبان میں پڑھیں جس کو وہ سمجھتے ہوں، یعنی اس زبان میں جو ان کے گھروں میں بولی جاتی ہے- اس طرح ان کی ذہنی نشو و نما ہوتی ہے اور ان میں سونچنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے-

اس کے بجائے ہو یہ رہا ہے کہ بچوں کی اکثریت کو جو انگریزی سے ناواقف ہے، جو ان کے لئے ایک غیر ملکی زبان ہے، اس زبان کو پڑھنے پر مجبور کیا جارہا ہے جسکی وجہ سے ان کا سخت نقصان ہورہا ہے- جب انگریزی زبان کے ماہر ٹیچر ہی موجود نہ ہوں تو طلباء کے لئے ممکن نہیں کہ وہ یہ زبان سیکھ سکیں، نہ ہی وہ دوسرے مضامین کو ایک ایسی زبان میں سمجھ سکتے ہیں جو انھیں اچھی طرح سے آتی ہی نہیں ہے- اس کے نتیجے میں معیار تعلیم اور بھی پست ہوجاتا ہے-

کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ اس عدم یکسانیت کو ختم کیا جائےجس کا معاشرہ اور معیشت پر برا اثر پڑ رہا ہے- لیکن اس کو دور کرنے کے اور بھی طریقے ہیں- وہی کیجئے جوچینی کرتے ہیں-OECD's PISA مقابلے میں، جو طلباء کی استعداد کو جانچنے کا ایک بین القوامی پروگرام ہے، چائنا- شنگھائی کے طلباء سر فہرست رہا- یہ امتحان 2012 میں ہوا تھا جس میں 65 ممالک کے 510000 طلباء نے جن کی عمر 15 سال کی تھی حصہ لیا تھا-

ان کا طریق کار یہ ہے کہ طلباء نو سال تک اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مقامی اسکول- لیونگ امتحان پاس کرتے ہیں- انھیں مقامی کلچر، تاریخ اور علوم کی اچھی خاصی سوجھ بوجھ حاصل ہوجاتی ہے-انگریزی کو وہ سکینڈ لینگویج کی حیثیت سے پڑھتے ہیں- اس کے بعد اگر وہ 'او'یا 'اے' لیول کرنا چاہیں تو کسی اور ادارے میں داخلہ لے سکتے ہیں جسے غیر ملکی امتحانی بورڈ منعقد کرتا ہے-

یہ بات واضح نہیں ہے کہ کے پی کی حکومت کیا سوچ رہی تھی جب اس نے یہ فیصلہ کیا کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے- اگر مقصد یہ تھا کہ یکسانیت پیدا کی جائے تو اس کے نتیجے میں تقسیم اور بھی بڑھ جائیگی- جو بچے انگریزی نہیں بولتے ان سے سونچنے کی صلاحیت چھین لی جائیگی کیونکہ وہ ایک ایسی زبان میں اپنے اصلی خیالات کا اظہار نہیں کرسکیں گے جسے وہ نہیں جانتے-

انگریزی زبان بولنے والے بچے جن کا خاندانی پس منظر ہوتا ہے وہ آگے آگے ہوتے ہیں- سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا کر کس طرح مساوات قائم کی جاسکتی ہے؟ تاہم، اگر یکساں اعلیٰ معیار کا نصاب نافذ کیا جائے تو امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج کو ختم کیا جاسکتا ہے اور ہمیں اسی طرف توجہ دینی چاہیئے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ : سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں