صوابدیدی قانون کا جبر

اپ ڈیٹ 15 اپريل 2014
قانون کے بہترین لمحات وہ ہوتے ہیں جب یہ لوگوں کو چند حکمرانوں کے لامحدود صوابدیدی اختیارات
سے رہائی دلاتا ہے، فائل فوٹو۔۔۔۔
قانون کے بہترین لمحات وہ ہوتے ہیں جب یہ لوگوں کو چند حکمرانوں کے لامحدود صوابدیدی اختیارات سے رہائی دلاتا ہے، فائل فوٹو۔۔۔۔

" قانون کے بہترین لمحات وہ ہوتے ہیں جب یہ لوگوں کو چند حکمرانوں کے لامحدود صوابدیدی اختیارات سے رہائی دلاتا ہے، چند سرکاری یا فوجی افسروں سے، یا کچھ بیوروکریٹوں سے، جب مکمل صوابدیدی اختیارات استعمال ہوتے ہیں، تو انسان ہمیشہ اذیتوں سےگذرتا ہے"--- جسٹس ولیم ڈگلس آف دی یو ایس سپریم کورٹ-

جدید ریاست کے بڑھنے کے نتیجے کے طور پر بے رحم حکمرانوں نے بہت طاقت جمع کرلی ہے جیسے جیسے ریاست کو نئے میدانوں میں پھیلنے کا موقع ملا ہے اور جہاں جہاں وزیروں اوروزارتوں میں سکریٹریوں کو صوابدیدی اختیارات دینے کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ سماجی انصاف کیلئے نئے قوانین نافذ کئے جا سکیں-

لیکن پھر اسی کے ساتھ طاقت کا غلط استعمال بھی ہوا، ذاتی اور سیاسی فائدے کیلئے- خوش قسمتی سے انگریزی مقدمات میں انتظامی قوانین کی مثالوں سے استفادہ کرتے ہوئے ، جنوبی ایشیا کی عدالتوں نے صوابدیدی اختیارات کےغلط استعمال کو روکنا شروع کیا- حالیہ دنوں میں، بمبئی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دیا، جو غلط استعمال کے خلاف تھا-

حکومت کی ایک قرارداد کے مطابق مہاراشٹر کے چیف منسٹر کویہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ریاست کی زمینوں پر تعمیر ہونے والے دو فی صد اور نجی زمینوں پر، جسے حکومت نے (Urban Land Ceiling Act) کے تحت اپنی تحویل میں لے لیا ہو، تعمیر ہونے والے پانچ فی صد فلیٹوں کو اپنی صوابدید پر الاٹ کرنے کے مجاز ہونگے- اس کو "چیف منسٹر کا کوٹہ" کا نام دیا گیا-

ان فلیٹوں کو"غریب اور ضرورت مند" لوگوں، مستحق فنکاروں، کھلاڑیوں، آزادی کی جنگ لڑنے والوں یا حکومت کے ملازمین کو الاٹ کیا جانا تھا- اس کی بجائے، اس تمام کوٹہ پر سیاست دانوں، سرکاری افسروں،ججوںاورمنظورنظرصحافیوں نے قبضہ جمالیا اور یہ سب الاٹمنٹ وزیراعلیٰ کی صوابدید پر ہوئی تھی۔

بمبئی ہائی کورٹ نے اس قرارداد کو کالعدم قرار دیا اور فیصلہ دیا کہ یہ "من مانا، خلاف عقل اور غیرقانونی" ہے- اس نے ریاست کو ایک نئی پالیسی بنانے کا حکم دیا جس میں ایسے تمام الاٹمنٹ واضح اورشفاف قوانین کے تحت ہوں-

ہندوستانکی سپریم کورٹ بار بار ایسے فیصلے دے چکی ہے کہ من مانا اختیار قانون کی نظر میں برابری کے بنیادی حق سے متصادم ہوتا ہے کیونکہ یہ حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی من مانی چلائے-

صوابدیدی حق کا عطا کرنا بھی ضروری ہے؛ لیکن جو ادارہ کسی کو یہ حق تفویض کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اس حق کے استعمال کے حوالے سے رہنما اصول بھی فراہم کرے کہ اسے اس حق کو کیونکر استعمال کرنا ہے اوراسے اس کے ذاتی حقوق کے بارے میں بھی وضاحت سے بتائے اور عدالت کو بھی یہ سب دیکھنے کا حق دے کہ صوابدیدی اختیارات منصفانہ طریقے سے استعمال کئے گئے ہیں یا نہیں-

یہ اصول ہر اس موقع پر لاگو ہوتے ہیں جہاں صوابدیدی اختیارات کا استعمال ہوتا ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کے حقوق اور مفادات پر اثر پڑنے کا خدشہ ہو؛ سوائے دفاع اور خارجہ پالیسی کے شعبوں کے- یہ وہاں تو بہت ضروری ہے جہاں کسی شہری کو بغیر مقدمہ چلائے قید کردیا گیا ہو، جیسے احتیاطی نظربندی یا حبس بیجا-

لیورسج بنام اینڈرسن کے کلاسیکی مقدمہ کے موقع پر، 1942ء میں ہاؤس آف لارڈز کے فیصلے کے مطابق، یہ الفاظ بحث کا موضوع تھے " اگر سکریٹری آف اسٹیٹ کے پاس یہ یقین کرنے کی معقول وجہ ہے کہ کوئی شخص جو ریاست کا مخالف ہے یا مخالف ایسوسی ایشن سے تعلق رکھتا ہے" تو وہ اس شخص کو قید کرنے کے احکامات جاری کرسکتا ہے-

ہاوس آف لارڈز کے سارے اراکین سوائے ایک کے، اس پر متفق تھے کہ یہ ایک داخلی فعل ہے لیکن لارڈ ایٹکن نے ایک مضبوط اختلافی موقف اپنایا کہ یہ ایک معروضی معاملہ ہے؛ اس کیلئے مناسب وجوہات ہونی چاہئیں- اس طرح انہوں نے عدالتی نظر ثانی کا راستہ کھولا-

'' میں ان ججوں کے رویہ کو محتاظ نگاہوں سے دیکھتا ہوں جو محض سوالوں کی تشکیل کی بنا پر چاہے کسی کی شخصی آزادی متاثر ہورہی ہو اپنی حاکمیت کے زعم میں رہتے ہیں "

یہ ہمیشہ آزادی کے ستونوں میں ایک رہا ہے، آزادی کے ان اصولوں میں سے ایک جن کیلئے ہم آج یہ لڑائی لڑرہے ہیں، کہ جج حضرات لوگوں کا احترام کرنے والوں میں نہیں ہیں اور انسان اور انسان کی آزادی پر حملہ کرنے والوں کے درمیان کھڑے ہوئے یہ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی بھی جابرانہ عمل قانون کے مطابق ہے یا نہیں"

اور اس کیس میں میں نے ان دلائل کو بھی سنا ہے جو ممکن ہے چارلس اول کے دور میں کورٹ آف کنگز بنچ کے لئے قابل قبول رہے ہوں- میں ان کے خلاف احتجاج کرتا ہوں، چاہے اس احتجاج میں میں اکیلا ہوں، اس جبر کے قانون کے خلاف جو ایک وزیر کو کسی کو قید کرنے کی اتنی طاقت دیتا ہے"-

ہندوستان میں عدالتوں نے اکثریتی موقف کو اپنایا جو جلدی ہی برطانیہ نے خود بھی رد کر دیا- احتیاطی نظربندی کے لئے ریاست کو پہلے نظربندی کی "وجوہات" فراہم کرنا پڑتی ہیں-

ان کا جواز دینا تو عدالتوں کا کام ہے لیکن ان کی موزونیت کے بارے میں سونچنا حکمرانوں کا کام ہے- اب وقت آگیا ہے کہ وہی اصول جو زمین تحفتاً عطا کرنے والے صوابدیدی اختیارات کا احاطہ کرتے ہیں، بغیر مقدمہ چلائےکسی شخص کو قید کرنے پر بھی انہیں اصولوں کا اطلاق ہونا چاہئے-

اس دوران میں، برطانوی عدالتیں صوابدیدی اختیارات کو قابو کرنے کے راستے پر کافی آگے بڑھ چکی ہیں- لارڈ ڈپلاک نے جامع طریقے سے اس قانون کو بیان کیا-

" وہ وجوہات جن کی بنا پر انتظامیہ کے کسی عمل پرعدالتی نظرثانی (Judicial Review) کی ضرورت پڑتی ہے ان کو آسانی کی خاطر تین مدوں میں ڈالا جاسکتا ہے پہلی وجہ کو میں "غیرقانونیت" کا نام دونگا، دوسری کو " غیرعقلیت" اور تیسری کو "باضابطہ نامعقولیت" -

لگتا ہے، من مانے صوابدیدی اختیارات کے دن ختم ہوچکے ہیں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں