نا ہموار راستہ

14 اپريل 2014
شریف نے ہندوستان کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا ارادہ ملتوی کردیا جو اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، فائل فوٹو۔۔۔۔۔
شریف نے ہندوستان کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا ارادہ ملتوی کردیا جو اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، فائل فوٹو۔۔۔۔۔

سمجھا یہ جارہا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کا تیسرا دور حکومت پاکستان-ہندوستان تعلقات کا سنہرا دور ثابت ہوگا، وہ موقع اپنی تکمیل کو پہنچے گا جو 1990 میں اٹل بہاری باجپائی کے دورہ سے شروع ہوا تھا-لیکن گزشتہ ہفتہ سے دو طرفہ تعلقات کے امکانات مدھم پڑتے نظر آرہے ہیں-

سرحد کے اِس پار، شریف نے ہندوستان کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا ارادہ ملتوی کردیا جو اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں(غالباً سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کے درمیان)- اور اس جانب، بی جے پی کے امیدوار وزیر اعظم نریندرا مودی نے اپنے انتخابی رقیب، عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال پر اندھا دھند گولے برسانے شروع کردیئے اور ان پر پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جو ان تین'اے کے ز' میں سے ہے جس سے پاکستان میں سبھی واقف ہیں- (دیگر اے کے-47 اور اے-کے انٹونی وزیر دفاع ہیں جنھوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان آرمی کا یونیفارم پہنے ہوئے لوگوں نے--- نہ کہ پاکستانی سپاہیوں---- نے گزشتہ سال پانچ ہندوستانی سپاہیوں کو قتل کیا تھا

پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانا ہندوستان کے سیاستدانوں کی پرانی حکمت عملی ہے جسے وہ انتخابی مہموں کے دوران استعمال کرتے ہیں اورکچھ ہی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی کڑی تنقیدیں حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی باقی رہینگی- لیکن یہ حقیقت کہ مودی کا پہلے سے طے شدہ موقف پاکستان دشمنی ہے،پاکستان-ہندوستان تعلقات کے بارے میں تشویشناک سوالات کو جنم دیتاہے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ مودی ہندوستان کی انتخابی دوڑ میں دن بدن اپنی جگہ مضبوط بناتے ہوئے نظر آرہے ہیں- گو کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ ہندوستاں کے اگلے وزیر اعظم ہونگے؛ بی جے پی کو مضبوط ہونے کے باوجوددوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانی ہوگی اور اتحاد کرنے والی پارٹیاں انھیں وزیر اعظم کا عہدہ دینے سے انکار کرسکتی ہیں-

مودی اپنی پاکستان دشمن تقریروں کے لئے مشہور ہیں جسے وہ بی جے پی کے امیدوار نامزد ہونے سے پہلے اپنی ہندوتوا کی شناخت بڑھانے کے لئےاستعمال کرتے آئے ہیں- اور اس کے علاوہ بھی 2002 میں گجرات میں ہونے والے لرزہ خیز فرقہ وارانہ فسادات میں بھی ان کا مبینہ کردار کسی سے چھپا نہیں ہے-لیکن آیا ماضی کا یہ پریشان کن راستہ مستقبل میں بھی اسلام آباد کی جانب جارحانہ نوعیت کا حامل ہوگا یہ کہنا مشکل ہے- پاکستان کے ساتھ معاملات میں، مودی کوکشمکش کا سامنا ہوگا- ایک جانب انھیں اپنے معاشی ایجنڈے کو پیش نظر رکھنا ہوگا تو دوسری طرف انھیں اپنی پہچان کو قائم رکھنا ہوگا کہ وہ ایک عملی آدمی ہیں-

ہندوستان کو 'سی ای او'کا درجہ دلانے کے لئے جس کی اسے آرزو ہے، مودی کو پاکستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات بہتر بنانے ہونگے- 13-2012 کے درمیان دونوں ملکوں میں 2۔6 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی تھی لیکن اگر حالات نارمل ہوجائیں تو اس میں دس گنا اضافہ ہوسکتا ہے- اس کے علاوہ، افغانستان، ایران اور وسط ایشیاء کے معدنی اور توانائی کے وسائل تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ہندوستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنائے-

لیکن مودی کو جو آج مضبوط ہیں، پاکستان کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ شروع کرنے میں جدوجہد کا سامنا ہوگا خاص طور پر ایک ایسے موقع پر جبکہ اسلام آباد پاکستانی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کر رہا ہے- اس بات پر بڑھتی ہوئی تشویش پائی جاتی ہے کہ ہندوستان اس عسکریت پسندی سے متاثر ہورہا ہے جس کا منبع پاکستان ہے اور حالیہ واقعات--- اس سال کے شروع میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپیں نیز ہندوستانی مجاہدین کے اراکین کی گرفتاریاں، جن میں سے ایک کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ پاکستان کا شہری ہے ---- مودی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ دہشت گردی کے مسئلہ پر نرم رویہ اختیار کرینگے یا یہ کہ ان کا موقف فیصلہ کن نہیں ہوگا- بلکہ، بی جے پی کے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی پہلی عوامی ریلی میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ بین الاقوامی برادری نے پاکستان کی سرزمین سے ہونیوالی عسکریت پسندی پر کڑی تنقید نہیں کی اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ غربت کو ختم کرے جسکی وجہ سے ملک میں عسکریت پسندی کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے

مودی پاکستان کے ساتھ معاملات کس طرح طے کرینگے ----- اگر وہ ہندوستان کے اگلے وزیراعظم بنیگے---- اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی کیسی رہتی ہے، آیا یہ مخلوط حکومت بنائیگی، آیا یہ معاشی مسائل کو ترجیح دیگی یا روایتی ہندو-رائٹ آئیڈیالوجی اسکی ترجیح ہوگی- یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہوگی کہ مودی کی خواہش ---- یا ہچکچاہٹ--- کیا ہے- آیا وہ خود کو واجپائی کے وارث کے طور پر دیکھتے ہیں- وہ اس حقیقت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہینگے کہ دائیں بازو کی جماعت بی جے پی کو دائیں بازو کی جانب سے کسی حملے کا ڈر نہیں ہے اس صورت میں کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کریں (بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مودی پاکستان کے ساتھ نرم رویہ بھی اختیار کرسکتے ہیں تاکہ وہ گجرات میں اپنے رول کے تعلق سے اور ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کے بارے میں ان کے موقف کے تعلق سے پوچھے جانے والے مسلسل سوالات کو ختم کرسکیں-)

فی الحال، یہ نہیں کہا جاسکتا(اگرچہ کہ پولنگ شروع ہونے میں صرف ایک ہفتہ ہی رہ گیا ہے) خاص طور پر اس لئے بھی کہ بی جے پی نے ابھی تک اپنا منشور بھی جاری نہیں کیا ہے- لیکن یہ بات واضح ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو پاکستانی مودی پر بھروسہ نہیں کرینگے- اس کے نتیجے میں شریف کے ہندوستان کے ساتھ دوستانہ موقف کو عوامی اور سیاسی حمایت میں کمی واقع ہوگیا- خاص طور پر، ایسے وقت جبکہ طاقتور عسکریت پسند گروہ مودی کی وزارت عظمیٰ کو ہندوستان دشمنی کو بڑھاوا دینے، ہندو دشمن بیانات دینے اور ان منتخب سیاستدانوں کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کرینگے جو دہلی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں-

افسوس کہ، یہ اس علاقے کے لئے اچھا شگون نہیں ہے- بہت سے فوری نوعیت کے مسائل ہیں جن پر توجہ دینا پاکستان اور ہندوستان کے طویل مدتی مفادات میں ہے- مثلاً، پانی اور توانائی سے لیکر افغانستاں میں افواج کے انخلاء تک، جہاں پراکسی جنگ کا خطرہ بڑھنے کا خدشہ موجود ہے- یہ بھی جنوبی ایشیاء کی ستم ظریفی ہے کہ اس علاقے میں جمہوریت کے فروغ پانے کے باوجود بہتر ڈپلومیسی کے امکانات نظر نہیں آتے-

انگلش میں پڑھیں

   ترجمہ :  سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں