معروف صحافی حامد میر قاتلانہ حملے میں زخمی

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2014
سینئر صحافی حامد میر۔ فائل فوٹو اے ایف پی
سینئر صحافی حامد میر۔ فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی: سینئر صحافی اور ٹیلی ویژن کے مایہ ناز اینکر پرسن حامد میر قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے ہیں جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

حامد میر ایئر پورٹ سے اپنے دفتر کی جانب جا رہے تھے کہ ناتھا خان پل سے قبل دو موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔

رپورٹس کے مطابق حامد میر کو ہوش آ گیا ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

کراچی پولیس کے چیف شاہد حیات کے مطابق سینئر صحافی کو تین گولیاں لگیں اور اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

وزیر اطلاعات سندھ نے حامد میر پر حملے میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے والے کے لیے 50 لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا ہے۔

حامد میر کے دوستوں اور ساتھیوں کے مطابق سینئر صحافی نے کہا تھا کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو اس کے ذمے دار پاکستان انٹیلی جنس ایجنسی اور اس کے لیفٹننٹ ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام ہوں گے۔

دوسری جانب آئی ایس پی آر کے ترجمان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حملے کے پیچھے حقائق کو منظر عام پر لایا جاسکے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی کرنا قابل مذمت اور گمراہ کن ہے۔

صدر پاکستان ممنون حسین نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پی پی کی رہنما شیری رحمان نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی پرزور مذمت کی ہے۔

ابھی تک کسی بھی گروپ نے حامد میر پر حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔

حامد میر پر یہ پہلی مرتبہ حملہ نہیں کیا گیا، اس سے قبل 2012 میں بھی حملے کی کوشش کی گئی تھی جب اسلام آباد میں ان کی گاڑی میں بم رکھ دیا گیا تھا تاہم خوش قسمتی سے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے موقع پر پہنچ کر بم کو ناکارہ بنا دیا تھا۔

تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ سینئر صحافی کو ان کے سیکولر نظریات کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔

گزشتہ ماہ لاور میں مشہور کالم نگار اور اینکر رضا رومی وک نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک قراردیا ہے۔

ایک میڈیا واچ ڈاگ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ملک میں سات صحافیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔

تبصرے (5) بند ہیں

Anwar Amjad Apr 20, 2014 08:31am
The incident is deplorable. But it is an example of totally irresponsible and immature reporting. The media in Pakistan has lost sense of proportion.
عمران Apr 20, 2014 02:46pm
غیر ذمہ دارانہ صحافت کا ایک اور شاخسانہ
sattar rind Apr 20, 2014 03:46pm
Its become clear that no one is secure in our country
Israr Muhammad Apr 20, 2014 06:52pm
ھم‏‏ اس‏ ‏بزدلانہ‏ ‏حملے‏ ‏کی‏ ‏شدید‏ ‏مزمت‏ ‏کرتے‏‏ ‏ھیں ‏اور‏ ‏حامد‏ ‏میر‏ ‏کی‏ ‏جلد‏ ‏صحت‏ ‏یابی‏ ‏کی ‏اللہ‏ ‏تعالی‏ ‏سے‏ ‏دغا‏ ‏کرتے‏ ‏ھیں‏ ‏ سچ‏ ‏کو‏ ‏بندوق‏ ‏سے‏ ‏نہیں‏ ‏دبایا‏ ‏جاسکتا‏ ‏سچ‏ ‏ہمیشہ‏ ‏سامنے‏ ‏اتا‏ ‏ھے‏ ‏
Muhammad Irfan Apr 21, 2014 02:19pm
حامد میر پر ہونے والا حملہ یہ واضح پیغام ہے کہ دنیاۓ صحافت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے- 'ڈالر خور'، 'را کا ایجنٹ'، 'یہودی ایجنٹ'، 'سعودی ایجنٹ'، 'طالبان رپورٹر'…. ایک صحافی کو اس طرح کے القابات دے کر ہم اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوسکتے- اہل قلم کو ذاتی رنجش، اختلافات اور بے حسی کے خول سے باہر نکلنا ہوگا- نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر یونہی اپنی صفوں میں لڑائیاں جاری رہیں تو آزادی اظہار کے دشمن ایک ایک کو چن چن کر مارتے رہیں گے، اور ایک وقت ایسا آۓ گا جب صحافت جیسے جراتمندانہ پیشے کا کوئی نام لیوا باقی نہیں بچے گا- انیس سو بانوے سے اب تک ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے اکسٹھ فیصد سیاست کے موضوع پر لکھتے تھے، جبکہ انتالیس فیصد جنگ، چھبیس فیصد جرائم، پندرہ فیصد بدعنوانی اور تیرہ فیصد انسانی حقوق پر لکھتے تھے- ان اعداد و شمار سے صاف پتا چلتا ہے کہ اصل خرابی کی جڑ کہاں ہے-