ہندوستانی مسلمان اور انتخابی فتوے

شائع April 30, 2014

ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ڈسٹرکٹ مُراد آباد میں اُس وقت انتہائی گمبھیر صورتحال پیدا ہوگئی جب رولا متی گاؤں میں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے ماسٹر نزاکت حسین قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے اور ان کی نمازِ جنازہ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے عبدالمحمد نے پڑھا دی۔

تدفین کے بعد جب اِس مسلکی تضاد کا پتہ چلا تو مراد آباد کے مُفتی سے فتویٰ لیا گیا۔ جس کے مطابق جِن حضرات نے کُفر کے عقیدے رکھنے والے دِیو بندی اِمام کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی، اس کی نماز 'نماز' نہیں اور اگر اُس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو اس کو دوبارہ کلمہ پڑھنا پڑیگا اور اُن کے نکاح ٹوٹ گئے اور اب انھیں اپنی بیویوں کے ساتھ دوبارہ نکاح پڑھوانے پڑھیں گے۔

بس اِس فتویٰ کے بعد تو گاؤں میں کہرام مچ گیا اور گاؤں کے مرد حضرات جنہوں نے اُس دیوبندی اِمام کے پیچھے نماز پڑھی تھی اُنھیں نماز جنازہ پڑھنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور اسطرح ان کے نکاحوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

کیسے اچنبھے کی بات ہے! مسلمانوں کے نکاح اب اتنے نازک ہونے لگے کہ ایک دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے اِمام کے پیچھے نماز جنازہ ادا کرنے سے ٹوٹ گئے. اور تو اور مفتی صاحب کا بھی کیا کہنا جو فتوی دینے کے لئے اتنے بےتاب تھے کے انہوں نے اِس نادر موقعہ کو ہاتھ سے نا جانے دیا اور تازہ تازہ فتویٰ عنائت فرما دیا۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کے مفتی صاحب نے اپنے کاروبارِ نکاح خوانی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ فتوی اس لئے دیا ہو کہ کے بعد اُن کے نکاح پڑھانے کے کاروبار میں تیزی آئیگی۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی کے اِن حالات میں مولانا صاحب اور اہل خانہ کو ختم شریف کے کھانوں کے علاوہ بھی کچھ مرغن غزائیں مِل جائیں۔ سلام ہے مفتی صاحب کی مفتیانہ کاروباری حِکمت عملی اور دور اندیشی پر۔

ایسے حالات میں جب ہندوستانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے نامزد وزیر اعظم نریندر مودی مستقبل میں ہندوستان کے وزیر اعظم بنتے دکھائی دے رہے ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کے مسلکی اختلافات مسلم ووٹ بینک کو تقسیم در تقسیم کر رہے ہیں.

نریندر مودی اور بی جے پی کی انتہا پسندی کا اندازہ ان کے حالیہ بیانات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں ہندوستانی مسلمانوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ مثلا بہار سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رہنما گِری راج سنگھ نے ایک انتخابی جلسے میں کہا کہ جو لوگ مودی کو وزیر اعظم بنے سے روکنا چاہتے ہیں، آنے والے دِنوں میں اِن کے لئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں۔ ان کے لئے جگہ صرف پاکستان میں ہے۔

اس بیان کے علاوہ پاکستان کے ساتھ بی جے پی کی محبت کا اندازہ اس عمل سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی ویب سائٹ پاکستانیوں کے لئے بلاک کر دی گئی ہے اور نریندر مودی بھی متعدد بار پاکستان کے بارے میں دھمکیانہ بیانات دے چکے ہیں۔

اب ذرا بات کرلیں ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں جو بالکل پاکستان کی طرح ان گنت مسلکوں، فرقوں اور ذاتوں میں بٹے ہیں --- جن کے بیچ 'بھائی چارے' کا اندازہ تو اوپر بیان کی گئی روداد سے صاف لگایا جا سکتا ہے۔

ہندوستان میں رہنے والے اٹھارہ کروڑ سے زائد مسلمان اس وقت شش و پنج میں مبتلا ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں انتہائی پریشان ہیں۔ یکجہتی نا ہونے کے سبب ہندوستانی مسلمان کسی بھی سیاسی رہنمائی کی غیر موجودگی کی وجہ سے انتخابات میں بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

سونے پر سہاگا یہ کے ہر مسلک کے عالم کی جانب سے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ فتویٰ جاری کیا جارہا ہے۔ کسی فتویٰ میں انھیں کانگریس کو ووٹ دینے کی تلقین کی جاتی ہے۔ کسی میں بی جے پی کو اور کسی میں ہندوستان میں انقلاب لانے کی دعویدار جماعت عام آدمی پارٹی کو۔ اس کے علاوہ بھی کچھ فتووں میں دیگر سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے سے متعلق احکامات دیئے جارہے ہیں۔

انہی سیاسی فتووں میں سے ایک فتوی جمیعت علما ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی کی جانب سے انتخابات سے قبل مسلمانوں کے لئے جاری کیا گیا۔ جس کے مطابق مسلمانوں سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ یکجا ہوکر سیکولرازم کے بچاؤ کے لئے ووٹ دیں۔

ان کے اس فتوے میں تو نریندر مودی کے خلاف ووٹ دینے کی تلقین نہیں کی گئی مگر بالواسطہ طور پر مدنی صاحب نے مسلمان ووٹروں سے کہا ہے کے وہ نریندر مودی کو ہر گز ووٹ نا دیں کیونکہ مودی سیکولرازم کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں اور سیکولرازم ہی ایک ایسا طرز مملکت ہے جس میں مسلمان ہندوستان میں اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں۔

مولانا کے اِس فتوے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کے وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر مسلمان اکھٹے ہوکر کسی ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرتے تو اٹھارہ کروڑ سے زائد ہندوستانی مسلمانوں کے ووٹ بٹ جائیں گے جس کا فائدہ صرف اور صرف بی جے پی کو ہوگا۔ لیکن اگر مسلمان یکجا ہوکر کسی ایک پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں تو وہ بی جے پی کو سخت مقابلہ دے سکتی ہے۔

اس کے علاوہ مولانا مدنی نے زی ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کے ہندوؤانا سوچ رکھنے والی طاقتیں ہندوستان کے لئے ڈراؤنا خواب ہو نگی اور اگر نریندر مودی حکومت بناتے ہیں تو ہندوستان تقسیم ہو جائیگا۔

فتویٰ دیتے وقت تو مولانا نے مستقبل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نریندر مودی کا نام نہیں لیا۔ مگر کیمرے کے آگے انٹرویو دیتے وقت مولانا صاحب شاید اپنے ڈر اور خوف پر قابو رکھنے میں ناکام رہے اور اسی لئے انہوں نے نریندر مودی سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر ہی ڈالا۔

جمیعت علما ہند کے ہی ایگزیکٹو ڈائریکٹر مولانا محمود مدنی نے نریندر مودی کی جانب سے مسلمانوں کی مزہبی ٹوپی پہننے سے انکار پر کہا کہ مودی کو علامتی طور پر مسلمانوں کی ٹوپی پہننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کئی دوسرے سیاستدان علامتی طور پر مسلمانوں کی ٹوپی پہن کر مسلمانوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

حیرانگی کی بات ہے کہ مولانا محمود نے جزباتی ٹوپی اوڑھے بغیر ایسا حِکمتی بیان کیسے دے دیا؟ خیر جمیعت علما ہند کے علاوہ کچھ دیگر اسلامی مدارس اور علما کی جانب سے بھی مسلمانوں کے لئے انتخابات سے متعلق فتوے جاری کئے گئے ہیں۔

دہلی شاہی مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے بھی مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں تاکہ سیکولرازم مضبوط ہو۔ اس کے علاوہ انہوں نے زور دیا کہ ہندوستانی مسلمان ممتا بینرجی اور کانگریس کے اتحادی لالو پرساد کو بھی سپورٹ کریں۔

بڑے بخاری کے چھوٹے بھائی سید یحیٰ بُخاری کانگریس اور بی جے پی دونوں کو ہی کمیونل جماعتیں سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بی جے پی جب مسلمانوں پر حملہ کرتی ہے تو آگے سے کرتی ہے مگر کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کی پیٹھ میں چُھرا گھونپا ہے۔

ہندوستان میں شیعوں کے سب سے اہم عالم مولانا قلبِ جواد نے این ڈی ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ مسلمانوں کے لئے انتخابات میں ووٹ دینے کے لئے کوئی فتویٰ نہیں دیں گے۔ مگر اپنی رائے سے آگاہ ضرور کریں گے۔ انہوں نے بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نریندر مودی سے خوفزدہ ہیں۔ مگر راج ناتھ سنگھ میں اٹل بہاری واجپائی جیسی معتدلی ہے۔

بریلوی مکتب کے سب سے بڑے ادارے اتحاد مِلت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا خان کی جانب سے عام آدمی پارٹی کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مگر جب عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے نریندر مودی کے خلاف انتخاب نہیں لڑا تو مولانا صاحب نے عام آدمی پارٹی کی سپورٹ چھوڑ کر بہوجن سماج پارٹی کو سپورٹ کرنے کا اعلان کردیا۔ لیکن اب جب عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے مودی کے خلاف بنارس سے انتخاب لڑنے کے لئے کاغزات جمع کروا دیئے ہیں تو اب مولانا صاحب اپنی سپورٹ کا حقدار کسے سمجھتے ہیں؟ اس کا پتہ کچھ دنوں میں چلے گا۔

لکھنؤ کے دارالعلوم ندوت العلما کے عُلما نے انتخابات میں غیر جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں یا مخالفت میں رائے دینے سے معزوری ظاہر کی ہے۔

کچھ سیاسی پنڈتوں کی جانب سے انتخابات شروع ہونے سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ بی جے پی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسی انتخابی حکمت عملی اپنائیں کہ مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کیا جائے تاکہ مسلمان کسی ایک جماعت کو ووٹ نا دیں۔

اتنے سارے فتووں کی موجودگی میں تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے بٹوارے کے لئے کسی ہندو انتہا پسند جماعت یا فرد کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے علما ہی ان کی تقسیم کے لئے کافی ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کے نریندر مودی کی شہرت میں اضافے کی ایک وجہ مسلمانوں کے علما کرام کے بیچ ہم آہنگی کا نا ہونا ہے۔

لہٰذا، ہندوستانی مسلمانوں کو یہی مشورہ ہے کہ موقعے کی نزاکت کو سمجھیں اور وقتی طور پر ہی سہی گدھے کو باپ بنا لیں۔ ورنہ بکریوں کے ریوڑ کا چرواہا بکریوں کے ساتھ چلنے والے جانوروں کو صرف اسی صورت برداشت کریگا اگر وہ بکریوں کے پیچھے پیچھے چلیں اور ریوڑ سے بچ جانے والی خوراک پر ہی گزارہ کریں۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

[email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025