ملک میں سائنسی ترقی کیلئے قومی علمی کمیشن کی تجویز

اپ ڈیٹ 02 مئ 2014
ماہرین نے ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے نیشنل نالج کمیشن کی تجویز دی ہے۔ تصویر سہیل یوسف
ماہرین نے ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے نیشنل نالج کمیشن کی تجویز دی ہے۔ تصویر سہیل یوسف

کراچی: ملک کو زرعی یا صنعتی معیشت سے علمی معیشت ( نالج اکانومی) کی جانب لے جانے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں ایک مرکزی علمی کمیشن ( نیشنل نالج کمیشن) بنانے کی تجویز دی ہے تاکہ پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی بڑھایا جاسکے۔

ماہرین نے ان خیالات کا اظہار دو روزہ قومی سائنس کانفرنس میں کیا جو پاکستان اکیڈمی آف سائنسس ( پی اے ایس) کی جانب سے کراچی یونیورسٹی میں واقع بین الاقوامی مرکز برائے کیمیا اور حیاتی علوم ( آئی سی سی بی ایس) کے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔

پاکستان بھر سے آئے ہوئے سائنسدانوں نے تین اہم موضوعات پر گفتگو کی جن میں توانائی ، نینو ٹیکنالوجی اور بایو ٹیکنالوجی شامل ہیں۔

شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا نے زور دیا کہ سائنسی اداروں میں سائنسدانوں کو ترقی کے بعد جو گریڈ دیئے جاتے ہیں ان میں وقت اور سینیئر ہونے کی بجائے کارکردگی کو پیمانہ بنایا جائے۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ انہوں نے سائنسی اداروں میں ماہرین کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے دس سالہ منصوبہ پیش کیا تھا لیکن خود سائنسی برادری نے اس کی شدید مخالفت کی ۔

' قومی ادارہ صحت کی طرح ملک میں سائنسی سرگرمیوں کی فنڈنگ کی ایک مرکزی تنظیم ہونی چاہئے۔ یہ ایجنسی پرائمری اور تکنیکی تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق کیلئے فنڈنگ فراہم کرے گی اور اس کے فنڈز میں کسی کی دخل اندازی نہیں کی جائے گی کیونکہ ماہرین کی ایک آزاد گورننگ باڈی اس کی نگرانی کرے گی،' انہوں نے کہا۔

اس سے قبل ممتاز سائنسداں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق سربراہ، ڈاکٹر عطاء الرحمان نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ایجادات ہماری منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کاغذ بنالئے گئے ہیں جو بلٹ پروف ہیں اور گولی کو روک سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے مشینی کیڑے مکوڑے بھی تیار کئے گئے ہیں جو جاسوسی اور نگرانی کا کام کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم اور تدریس کے انداز اب تیزی سے بدل رہے ہیں اور آن لائن کورسز ( ایم او او سی ایس) مقبول ہورہے ہیں جہاں لوگ آن لائن تعلیم حاصل کررہے ہیں جس میں ویڈیو، لیکچر، اور تعلیمی مواد انٹرنیٹ پر موجود ہوتا ہے۔ ان کورسز میں ایم آئی ٹی اوپن کورس ویئر، کورسیرا، یوڈاسٹی اور خان اکیڈمی سرفہرست ہیں اور یہ ویب سائٹ براہِ راست نہیں تو غیر روایتی انداز میں تعلیم فراہم کررہی ہیں۔

انہوں نے شرکا سے کہا کہ ان کی کوششوں سے بننے والا ایک آن لائن پورٹل اور پاکستانی سرچ انجن www.lej4learning.com.pk بھی ہے جہاں بہت سے کورسز موجود ہیں۔

قومی توانائی اتھارٹی

اس موقع پر توانائی کے معاملات کے ماہر اور سابق وزیر برائے پٹرولیم سہیل وجاہت صدیقی نے کہا کہ ملک میں توانائی کے معاملات چلانے کیلئے 56 کے قریب ادارے اور اتھارٹیز موجود ہیں لیکن اب ضرورت ہے کہ ملک میں ایک مرکزی توانائی اتھارٹی ہو تاکہ توانائی سے وابستہ مسائل پر قابو پایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تیل و گیس کے صرف دس فیصد ذخائر ہی نکالے گئے ہیں کیونکہ کمپنیاں تیل و گیس کی تلاش کیلئے بہت ہی کم کھدائیاں کرتی ہیں اور اس کی وجہ گیس کی قیمت میں کی ہر وقت بدلتی ہوئی پالیسی ۔ ' تیل ہو یا گیس اس کی کھدائی اور حصول میں مستحکم پالیسی کے تحت میں سالوں کا وقت لگتا ہے لیکن ہماری گیس کی قیمتوں کی پالیسی گزشتہ سات برس میں چھ مرتبہ تبدیل ہوچکی ہے،' انہوں نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے ہرسال ملکی میعشت کو ڈھائی ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہورہا ہے جبکہ بجلی کی کمی سے ہرسال ایک ارب ڈالر کی برآمدات متاثر ہورہی ہیں۔

بایوٹیکنالوجی: مسائل اور مواقع

ملک میں بایو ٹیکنالوجی کے اہم ترین اداروں کے ماہرین نے ایک سیشن میں شرکا سے بایوٹیکنالوجی سے وابستہ کامیابیاں اور مسائل شیئر کئے۔ ' پاکستان نے ذمے دار جین کو بے اثر کرنے کے بعد کپاس میں موجود بال ورم کا مسئلہ حل کیا ہے۔ دوسری جانب بایو مارکرز متعارف کرانے سے چاول کی ایسی اقسام پیدا کی گئی ہیں جو پانی کی کمی کا مقابلہ کرسکتی ہے،

ان خیالات کا اظہار نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ ( این آئی بی جی ای) کے سربراہ ڈاکٹر شاہد منصور نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ بایوٹیکنالوجی کی مدد سے کوئلے میں سلفر کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کا عملی مظاہرہ ایک سیمنٹ فیکٹری میں کیا جاچکا ہے جس میں حرارت کیئے کوئلہ استعمال کیا جاتا ہے۔

آئی سی سی بی ایس کے ڈاکٹر سیف اللہ خان نے کہا کہ ان کے ادارے میں کامیابی سے ایسے کیلے تیار کئے گئے ہیں جو ہر طرح کے امراض سے پاک ہیں اور ان کے لاکھوں پودے کسانوں کو دیئے گئے ہیں۔ ' اب یہ ٹیکنالوجی ہم کمپنیوں کو منتقل کررہے ہیں،' انہوں نے کہا۔

بایوٹیکنالوجی پینل میں شریک دیگر اسکالرز نے کہا کہ ملک میں قوانین اور ریگولیشن نہ ہونے کی وجہ سے بایوٹیکنالوجی ترقی نہیں کرپارہی اور اس رکاوٹ کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔

' کم از کم 80 پروسیس اور درخواستیں اس وقت التوا کی شکار ہیں اور ان کی وجہ صرف ریگولیٹری قوانین کا نہ ہونا ہے،' بایو ٹیکنالوجی کے ممتاز پاکستانی ماہر، ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے کہا۔ ان کے مطابق کئی ایسے مفید طریقے ہیں جو زراعت کیلئے ضروری ہیں لیکن ریگولیشن نہ ہونے کی وجہ سے ان پر عمل نہیں کیا جارہا۔

اس اہم کانفرنس میں پاکستان بھر کے ممتاز سائنسداں اور ماہرین نے شرکت کی جن میں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے اراکین بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں