سو روپے میں کراچی

اپ ڈیٹ 11 مئ 2014

کراچی میں رہائش کے چند ماہ کے دوران مجھے کیفے، پارٹیوں اور پرتکلف دعوتوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ شہر زندگی اور دولت سے بھرپور ہے جبکہ عوام کے عام زندگی اور سڑکوں پر غربت میں دولت کا بڑا عمل دخل ہے۔

شہر میں بلند معیارِ زندگی کو دیکھتے دیکھتے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں عام آدمی کی طرح اس شہر میں کچھ وقت گزارا جائے۔ تو میں نے ' ایک سو روپے کی رقم ' سے تجربہ کرنے کی کوشش کی۔ مقصد یہ تھا کہ اس رقم سے کراچی شہر میں کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ( میں سمجھتی ہوں کہ عام شخص سے لے کر امیر تک یہ رقم ہر ایک کی پہنچ میں ہے)

اگرچہ میں نے سرگرمیوں کی جو فہرست بنائی تھی وہ بہت طویل تھی لیکن اس وڈیو صرف وہی چند چیزیں پیش کی گئی ہیں جو میں ایک سو روپے میں کرسکی۔

میرے تجربے میں نے ٹرانسپورٹ کے دیگر طریقے استعمال کئے کیونکہ میں عام طور پر رکشاوں میں سفر کرتی ہوں اور یہ ایک دلچسپ لیکن مہنگی سواری ہے۔ اور اس کے بدلے منی بس اور موٹر سائیکل پر سفر بہت سنسنی خیز رہا اور کم خرچ بھی ۔ بس کا سفر بہت دلچسپ رہا کیونکہ مجھے بسوں کی بھیڑ اور سانس لینے میں مشکل سے خبردار کیا گیا تھا۔

لیکن جب میں بس میں چڑھی تو ایک نوجوان نے مجھے سیٹ دیدی اور وہ مجھ سے اپنے اسکول میں سائنسی کورس کے بارے میں بات کرنے لگا۔ دوسرے ممالک کے بس کنڈکٹروں کے برخلاف اس بس کا کنڈکٹر ایک چھوٹا لڑکا تھا ۔ وہ راستے بھر بس کےدروازوں کو بری طرح پیٹتا رہا اور چلنے والے گانوں کے ساتھ گنگناتا رہا اور مسافروں سے کرایہ وصول کرتا رہا۔

بس کا سفر خود بہت شور سے بھرپور تھا کیونکہ وہ آڑھے ترچھے راستوں پر کھڑکھڑاتی چلی جارہی تھی اور ٹریفک کی آواز اس شور کو اور خوفناک بنارہی تھی۔ میں نہ صرف اس تمام صورتحال کا لطف اٹھایا بلکہ نو سال کے ایک نئے دوست کے ساتھ میری بات چیت بھی بہت دلچسپ رہی۔

جہاں تک کھانے پینے کا سوال ہے، تو اس کیلئے سڑک کنارے بنے ہوئے ہوٹل (ڈھابے) ہی میرے لئے ٹھیک تھے کیونکہ یہ ایک سو روپے کا تجربہ تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہاں ذیادہ تر مرد ہی آتے ہیں۔ کھانا چکنائی سے بھرپور اور گندا ہوتا ہے۔ لیکن میرا تجربہ بہت اچھا رہا۔ میں نے بہترین گرم چائے پی اور ساتھ میں نہایت خستہ روٹی کھائی اور جب میری روٹی ٹھنڈی ہوئی تو اس کی جگہ گرم روٹی رکھی جاتی رہی۔ آس پاس موجود افراد ( مرد) میری موجودگی کو نوٹ کررہے تھے اور تعریف کے لئے میں جو ' واہ ' اور ' ہاں' کے الفاظ میرے منہ سے نکل رہے تھے وہ ان کو سن رہے تھے۔

اس سفر کا سب سے بہترین حصہ یہی ہے کہ کراچی میں ایسی بہت سی نایاب ترین چیزیں ہیں جو مفت میں ملتی ہیں۔ ان میں پارک میں چہل قدمی، سمندر پر مٹر گشت اور ڈوبتے سورج کا نظارہ بھی شامل ہے۔ ہم ' ذیادہ خوشی اور آسائش' کے چکر میں ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور سادہ چیزوں کو فراموش کرچکے ہیں۔ ان سب کی قیمت ہے ' صفر' روپے۔ ان کا احساس ایک مراقبے ( میڈی ٹیشن) جیسا ہی ہوتا ہے۔

امید ہے کہ آپ بھی شہر میں گھوم پھر کر اپنے خالی پرس کیساتھ مزید چیزیں تلاش کرکے اپنے عام دن کو خاص اور خوبصورت بنائیں گے۔