پشاور: شمالی وزیرستان میں فورسز کے ٹارگٹڈ حملوں میں شدت آ گئی اور جمعے کو ہونے والی کاروائیوں میں چار مشتبہ شدت پسند ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

ڈان نیوز کے مطابق فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقوں میرانشاہ، ماچس کیمپ اور میرعلی بازار میں داخل ہو کر شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کیں جن میں انہیں لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد حاصل تھی۔

ماچس کیمپ میں سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں 4 شدت پسند مارے گئے جب کہ مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔

شمالی وزیرستان میں فورسزکی حالیہ فضائی اور زمینی کارروائیوں میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 80 سے تجاوز کر گئی ہے جن میں 75 سے زائد مشتبہ مقامی و غیر ملکی شدت پسند اور 4 سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔

ان کارروائیوں کے بعد علاقہ مکینوں نے محفوظ مقامات کی جانب ہجرت شروع کر دی ہے تاہم ابھی تک کو بھی خاندان خیبرپختون خوا یا سرحدی شہر بنوں میں داخل نہیں ہوا ہے جب کہ تاحال ان افراد یا خاندانوں کے لیے بنوں یا کسی اور ضلعے میں کسی قسم کا کیمپ نہیں بنایا گیا ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ متعدد خاندان شدت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان لڑائی کے پیش نظر پروسی ملک افغانستان منتقل ہو چکے ہیں۔

اس سے پہلے قبائلی انتظامیہ نے آج شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں جاری کرفیو میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔

پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق آج صبح ساڑھے نو بجے سے شام سات بجے تک کرفیو میں نرمی ہوگی اورشمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی سے بنوں اور میرانشاہ دتہ خیل روڈ ہر قسم ٹریفک کے لیے کھلارہے گا۔

دوسری جانب وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بعد سے کالعدم تحریک طالبان دباؤ کا شکار ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذاکرات مخالف طالبان گروپ نے طالبان شوریٰ پر مذاکرات ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔

اس حوالے سے حتمی فیصلے کے لیے اتوار کو اجلاس بلایا گیا ہے، لیکن امکان ہے کہ علاقے میں آپریشن کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوجائے گا، اس لیے کہ طالبان کے اہم کمانڈر روپوش ہوچکے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے امیر مولوی فضل اللہ کو بھی شمالی وزیرستان آنے سے روک دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں