• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

مودی کا ہندوستان

شائع May 26, 2014

ہندوستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد اب کسی کو بھی یہ شک نہیں کہ اگلے پانچ سال تک ہندوستان میں حکومت ہندو قدامت پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہوگی اور اس کے وزیر اعظم تین مرتبہ گجرات کے وزیر اعلٰی رہنے والے نریندر مودی ہونگے۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کی اتنی بڑی جیت کی وجہ صرف اور صرف نریندر مودی ہیں۔

بی جے پی کی جانب سے انتخابات میں منتخب ہونے والے نریندر مودی 26 مئی بروز سوموار ہندوستان کے سولہویں پردھان منتری کا حلف لیں گے۔ مودی کے ساتھ ان کی کابینہ کے اراکین بھی حلف برداری کی تقریب میں حلف اٹھائیں گے۔

جمعہ کے روز مودی نے اپنی آبائی ریاست گجرات میں جیت کی خوشی میں منعقدہ تقاریب میں کہا کے لوگ ذات پات کی بحث سے اوپر آجائیں۔ ایک نئی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور آنے والے دنوں میں ایک نیا چمکتا ہندوستان ہوگا۔

لوک سبھا میں مطلوبہ سیٹیں حاصل کرنے کے بعد مودی نے ایک دم ایسا پلٹا مارا ہے کہ ان کے لئے 'چمکتا ہندوستان' پہلی ترجیح بن گیا ہے۔ حالانکہ انتخابی مہم کے بیچ وہ ایک قدامت پسند ہندو رہنما کے طور پر اپنی کیمپین چلا رہے تھے۔

لگتا یہی ہے کہ مودی نے یہ حکمت عملی انتخابی مہم میں ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنائی تھی اور اب ان کی 'چمکتا ہندوستان' والی حکمت عملی مستقبل میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست گجرات میں جو بھی ترقیاتی کام ہوئے اس کا سہرا نریندر مودی کو ہی جاتا ہے۔ لیکن بابری مسجد تنازع اور دو ہزار دو میں ہونے والے گجرات فسادات میں بھی نریندر مودی کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اب جب کہ مودی ہندوستان جیسے سیکولر ملک اور دنیا کی سب سے بڑی کے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں تو دیکھنا یہ ہوگا کے ہندوستان میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ سے زائد مسلمانوں کا مستقبل کیسا ہوگا۔

ہندوستان کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ انتخابات میں بی جے پی کی اتنی بڑی جیت کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے عوام اب چاہتے ہیں کہ مودی وزیر اعظم بننے کے بعد پورے ہندوستان کو ریاست گجرات کی طرز پر ترقی دیں۔ جس سے ہندوستان کی ڈولتی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے اور ہندوستان دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرسکے۔

لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ نریندر مودی کو انتخابات میں اتنی برتری اس لئے ملی ہو کہ وہ ایک قوم پرست ہندو ہیں اور مسلمانوں کو نا پسند کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کی مسلمان دشمن عوام نے مودی کی اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ہوں۔

ایک اور وجہ جو انتخابات میں اتنی بڑی جیت کی ہوسکتی ہے وہ یہ کہ ہندوستانیوں کو یہ امید ہو کہ مودی اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف اقدامات کریں گے جو ایک بہت بڑی تعداد میں ہندوستان میں قیام پزیر ہیں اور ہندوستان کے وسائل پر ایک اضافی بوجھ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مودی وزیراعظم بننے کے بعد ہمسایہ ملک پاکستان کو بھی آڑے ہاتھوں لیں گے۔ جس کی سر زمین سے ماضی میں ممبئی حملے جیسی دیگر دہشت گرد کاروائیاں ہوتی رہی ہیں۔

ہنوستانی عوام نریندر مودی کے خیالات سے ان کے دیئے گئے انٹرویوز اور انتخابی جلسوں میں جزباتی تقریروں کے ذریعے آگاہ ہوتے رہے ہیں جن میں کئی بار مودی پاکستان کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں مودی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ؛

"اگر ہم گاڑی میں پیچھے بیٹھے ہوں اور ایک کتّے کا ِپلّا پہیے کے نیچے آجائے تو کیا وہ تکلیف دہ نہیں ہوگا۔ یقینا ہوگا۔ میں وزیر اعلٰی ہوں یا نہیں، مگر ایک انسان ضرور ہوں۔ اگر کہیں بھی کچھ برا ہوتا ہے تو قدرتی طور پر وہ برا ہی ہوگا"۔

سو نریندر مودی کے اس انٹرویو کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے اٹھارہ کروڑ سے زائد مسلمان نئے منتخب شدہ ہندو قوم پرست وزیر اعظم کی سلطنت میں کیسے کیسے اور کب کب گاڑیوں کے پہیوں کے نیچے آتے ہیں۔ اس کا پتہ اگلے کچھ عرصے میں لگ جایئگا۔

جیسے ہندوستانی مسلمانوں کے بریلوی بریلوی مکتب کے سب سے بڑے ادارے اتحاد مِلت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا خان نے عام آدمی پارٹی کو سپورٹ دینے کی حامی صرف اس صورت میں بھری کہ اگر اروند کیجروال نریندر مودی کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔ مودی کے لئے مولانا صاحب کے دل میں پائی جانے والی محبت کا اندازہ ان کے اس قدم سے لگایا جا سکتا ہے۔

اب جبکے مودی وزیر اعظم کی کرسی پر اگلے پانچ سالوں تک براجمان ہونگے تو مولانا صاحب کے ساتھ جو ہوگا وہ تو ہوگا۔ مگر ان کے مریدین بھی اپنے مولانا صاحب کی کرتوتوں کی قیمت ادا کریں گے۔

اسی طرح جمعیت علماۓ ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی کی جانب سے بھی فتوی دیا گیا کے ہندوستانی مسلمان انتخابات میں سیکولرازم کے بچاؤ کے لئے ووٹ دیں اور ان کا اشارہ نریندر مودی کے خلاف ووٹ دینے کا تھا۔

اس کے علاوہ مولانا نے ہندوستانی مسلمانوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ متحد ہوکر کسی ایک جماعت کو سپورٹ کریں تاکہ سیکو لرازم کی دشمن قوتیں انتخابات میں جیت نا سکیں۔ اب مولانا صاحب جو مرضی کر لیں۔ سارے ہندوستان کے مسلمان متحد ہو بھی جائیں تو بھی نریندر مودی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔

مولانا صاحب نے تو ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر نریندر مودی وزیر اعظم بنتے ہیں تو ہندوستان تقسیم ہو جائیگا۔ ہندوستان تو تقسیم ہوگا یا نہیں یہ تو پتہ نہیں مگر ہندوستان کے تقسیم شدہ مسلمان مزید ٹکروں میں تقسیم ہو جائیں گے۔

دہلی شاہی مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے تو صاف صاف ہندوستانی مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ انتخابات میں کانگریس کو ووٹ دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپیل کی تھی کے ہندوستانی مسلمان ممتا بینرجی اور لالو پرساد کی جماعتوں کو بھی ووٹ دیں۔

اب جب مودی وزیر اعظم کی کرسی سنبھالیں گے تو شاہی امام کی مدد کے لئے کانگریس تو کیا ممتا بینر جی اور لالو پرساد بھی ڈھونڈے سے نہیں ملیں گے۔ کاش کہ شاہی امام صاحب اپنے شاہانہ دماغ کے ذریعے اپیل کرنے سے پہلے ہوا کا رخ بھی دیکھ لیتے.

ہندوستان میں شیعوں کے سب سے اہم عالم مولانا قلب جواد نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم مودی سے خوفزدہ ہیں۔ مولانا صاحب آپ کے خوفزدہ ہونے کے دن ابھی تو شروع بھی نہیں ہوئے تھے اور آپ ڈر گئے۔ ابھی تھوڑا وقت ہے، جائیں اور مودی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔

سب سے عقلمند اور دانا تو نکلے لکھنؤ کے دارالعلوم ندوت العلما کے عُلما۔ جنہوں نے انتخابات میں غیر جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں یا مخالفت میں رائے دینے سے معزوری ظاہر کردی۔ مگر ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی اتنے سارے مسلمانوں کے مسالکوں سے نا واقف ہوں اور سب کو ایک ہی چھڑی سے ہانکنا شروع کردیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنے کم مسلمان لوک سبھا کے انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش جہاں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ وہاں سے ایک مسلمان بھی منتخب ہوکر پارلیمان میں پہنچ نہیں پایا۔

ایک قوم پرست ہندو نریندر مودی کی وزیر اعظم کے لئے نامزدگی کے باوجود بھی بی جے پی نے انتخابات میں حصّہ لینے کے لئے سات مسلمانوں کو ٹکٹیں دیں جن میں سے امید کی جارہی تھی کہ تین مرتبہ ایم پی رہنے والے بہار کے حلقے بھاگل پور سے امیدوار سعید شاہنواز حسین جیت اپنے نام کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ مگر وہ بھی 9485 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔

باقی چھ امیدواروں کی جیت کے تو امکانات ہی نا ہونے کے برابر تھے۔ اسطرح 543 اراکین کی پارلیمان میں 282 بی جے پی کے اراکین موجود ہونگے اور ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہوگا۔

کاش کہ ہندوستانی مسلمان چلتی ہوا کے رخ کو سمجھتے اور انتخابات سے قبل اپنا اپنا راگ نا الاپتے۔

سلام ہے امریکہ کی وقت کے ساتھ پلٹتی پالیسیوں پر۔ کبھی امریکہ نے نریندر مودی کو گجرات فسادات میں ملوث ہونے پر ویزہ دینے سے انکار کیا تھا جس کے نتیجے میں بی جے پی کے ایک رہنما نے انتخابی ریلی کے دوران کہا تھا کہ اب امریکی صدر اوبامہ نریندر مودی کا ویزہ لے کر خود ہندوستان آئیں گے۔

مودی کی انتخابات میں جیت کے بعد امریکی حکام نے تعلقات میں بہتری کے لئے مودی کے ویزے پر عائد پابندی ختم کردی اور انہیں کو واشنگٹن آنے کی دعوت بھی دی۔ یہ ہیں بدلتے وقت کے ساتھ امریکہ کے بدلتے رنگ۔

مودی کے منتخب ہونے سے قبل دیئے گئے مسلمانوں سے متعلق بیانات کے باوجود میرا اپنا خیال ہے کہ نریندر مودی ہندوستان کے مضبوط طرز حکومت یعنی سیکولرازم کو مزید مستحکم بنانے کے لئے اہم کردار ادا کریں گے۔ مگر اس کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ امریکہ کی طرح موقع کی نزاکت کو سمجھیں اور نریندر مودی کو کھلے دل سے تسلیم کر لیں۔

ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے بھی ایک اچھے پردھان منتری ثابت ہوں اور ویسے بھی مسلمانوں کے لئے اور کوئی آپشن تو ہے نہیں کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر کہیں اور جا بسیں۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

[email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Nurullah jawaid May 26, 2014 08:50pm
jnab yeh mazmun bakwas hai hawa ka rukh ku pahchanne ka matlab keya hai ap pakistan me baith kar hindustani musalmanu ki fikr band karde hamara andarun mamla hai ap akhir mudi se itna peya kun hugaya hai

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025