مودی کے انڈیا پر نظریں

حکمرانوں اور عوام دونوں ہی کو جلد ہی ان نقصانات کا احساس ہوجائے گا جو بائیں بازو کی شکست کے نتیجے میں پہنچا ہے-
حکمرانوں اور عوام دونوں ہی کو جلد ہی ان نقصانات کا احساس ہوجائے گا جو بائیں بازو کی شکست کے نتیجے میں پہنچا ہے-

ساری دنیا دم بخود ہے، کہ ہندوستان نریندرا مودی کی قیادت میں اپنا سفر کس طرح جاری رکھے گا-

سیاست کے طالب علم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مودی سرکار ریاست کے جمہوری، سیکیولر مفروضات کے ساتھ خود کو کس طرح ایڈجسٹ کرے گی- ہندوستان کے پڑوسی ممالک یہ جاننا چاہینگے کہ نئی دہلی کا علاقائی ایجنڈہ اب کیا ہوگا- پاکستان یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ دو طرفہ تعلقات پر اس کے کیا اثرات رونما ہونگے- اور بین الاقوامی قوتیں ہندوستان کو ابھرتے ہوئے ایشیاء میں ایک ایسی پوزیشن میں دیکھنے کی خواہشمند ہونگی جو ان کے مفاد میں ہو-

ہندوستانیوں کی بڑی تعداد کے لئے اہم مسئلہ یہ ہوگا کہ گاندھی-نہرو کے عدم تشدد اور کثیر القومی ورثے کی جانب نئی حکومت کا رویہ کیا ہوگا- سیکیولر قوتوں کی شکست کی وجوہات پر عرصے تک بحث مباحثہ جاری رہیگا، اگرچہ کہ اس کی وجوہات جاننے کے لئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے-

سیکیولرنظریات کے حامل افراد کے ہارنے کی وجوہات غالباً یہ تھیں کہ وہ اتنے سیکیولر نہیں رہے تھے- یقیناً وہ سیکیولر نظریات کی مالا جپتے رہے لیکن مذہب کے احیاء کی جانب ان کا رد عمل خوف اور موقع پرستی کو ظاہر کرتا تھا- نہ تو انھوں نے نوجوانوں کو فرقہ واریت کی راہ پر چلنے سے روکنے کی پرعزم کوشش کی اور نہ ہی ان میں اسکی صلاحیت تھی-

اقتدار کے پہلے چند مہینوں میں مودی کو اس امتحان سے گزرنا ہوگا کہ انھوں نے جو وعدے کئے تھے اس میں انکی ترجیحات کیا ہونگی اور اپنے بار بار کے بیانات سے انھوں نے عوام کی توقعات کو جس طرح ابھارا ہے وہ کس طرح پورے ہونگے- اگر وہ اتنے ہی حقیقت پسند ہیں جیسا کہ ان کے چاہنے والوں نے ان کا امیج بنایا ہے، تو ان کی ترجیح معاشی ترقی ہوگی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پرجوش کارکنوں کو انھیں قابو میں رکھنا ہوگا- لیکن یہ کام آسان نہیں کیونکہ آر ایس ایس کو جس طرح کی فتح حاصل ہوئی ہے اس کے نتیجے میں تکبر کو ہوا ملے گی-

پارٹی کے انتہا پسند عناصر یقیناً اس بات کی بھرپور کوشش کرینگے کہ ہندوستان کو اپنے پسندیدہ رنگ میں رنگ دیں- شائد ان کے سیاسی لب و لہجہ کو تبدیل کرنا ممکن نہ ہو- عین ممکن ہے کہ وہ اپنے عالمی نقطہ نظر کو پھیلانے کے لئے تعلیمی نظام کو استعمال کریں اور درسی کتابوں میں تبدیلیاں کریں- نئی دہلی کو اقلیتوں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے سختی سے کام لینا ہوگا-

آگے چل کر ہندوستان کی سیکیولر قوتوں کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ مشکل چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا- ہندوستان کی اکثریت کی نفسیات میں سیکیولرازم کی جڑیں اتنی گہرائی میں پیوست نہیں ہیں جتنا کہ اپنی مذہبی شناخت کا احساس اور اس پر فخر کا جذبہ- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندو نظریات کا احیاء جو برطانوی نوآبادیاتی نظام کے ابتدائی دور میں ابھرا تھا اب زیادہ طاقتور ہوگیا ہے-

حالیہ فتح کے نشے میں ہندوتوا کے حامیوں سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس بات کی فکر کرینگے کہ ہندوستان کے عوام ان سے اپنے عقائد کی قربانیوں کی توقع کرینگے- سیکیولر نظریات کے حامل افراد کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ وہ غیر نظریاتی مسائل پر حکمرانوں کو چیلنج کریں-

ہندوستان کے حکمرانوں اور عوام دونوں ہی کو جلد ہی ان نقصانات کا احساس ہوجائے گا جو بائیں بازو کی شکست کے نتیجے میں پہنچا ہے- انھیں احساس ہوگا کہ حکمراں ان سنجیدہ مشوروں سے محروم ہوگئے ہیں جو ایک کثیر القومی جمہوریت کے لئے ضروری ہیں- ایک چھوٹے سے سیاسی ٹولے کی عقل پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ نئی دہلی کے لئے خطرات کا باعث ہوسکتا ہے جسے ٹھنڈے دل سے حل کرنے کی ضرورت ہے-

نئی حکومت کی پالیسیاں بائیں بازو کو مواقع فراہم کرینگی کہ وہ عوام کے اعتماد کو، خاص طور پر پچھڑے ہوئے عوام کے اعتماد کو دوبارہ حاصل کرے- علاقائی جماعتیں، خواہ آج کتنی ہی بڑی شکست سے دوچار ہوئی ہوں، انھیں دوبارہ تازہ دم ہونے کے بہت سے مواقع ملینگے، جو بی جے پی کی انتہائی مرکزیت کی حامل حکمرانی میں ناگزیر ہیں-

حکومت کی وسطی مدت کے دوران اگر اسکی معاشی کارکردگی عوام کی توقعات کے مطابق نہ ہو یا اگر معاشی ترقی کے فوائد سے ملک میں سب کو مساوی فائدہ نہ پہنچے تو بی جے پی کے دائین بازو کی جانب سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے- منصوبہ بندی کی کمزوریوں یا منصفانہ تقسیم کی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے مذہب کی ڈھال استعمال ہوسکتی ہے- اس کے نتیجے میں سیکیولر ڈیموکریٹس کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے-

مودی حکومت پاکستان سے تعلقات کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتی ہے، دونوں ہی ممالک کے عوام کے لئے اہمیت رکھتا ہے- اسلام آباد نے اس مہم کے دوران کافی پہلے ہی دوستانہ اشارے دینے شروع کردئے تھے اور امکانات یہ ہیں کہ دو عوامل کے پیش نظر یہ رجحان جاری رہے گا-

اول تو یہ کہ، پاکستانی افسروں کا یہ خیال کسی حد تک درست ہوسکتا ہے کہ جب مودی اقتدار میں آجائنگے تب وہ انتہا پسند رجحانات کو کسی حد تک ختم کرسکتے ہیں-

دوسرے یہ کہ، عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت اور پاکستان میں ایک ایسا وزیراعظم جسکی پشت پر آرمی ہو ان جھگڑوں کو بہتر طور پر حل کرسکتے ہیں جنھوں نے دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کردیا ہے-

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہندوستان اور پاکستان کی نئی حکومتیں سنجیدگی سے معاشی تعاون کا ڈھانچہ تیار کرلیں تو مذہبی تعصب کے عفریت کی روک تھام کی جاسکتی ہے جو پورے برصغیر کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے- لیکن اس کے لئے پاکستان کو سرحد پار دہشتگردی کی شکایات کے تعلق سے ہندوستان کو اطمینان دلانا ہوگا، کیونکہ مودی من موہن سنگھ کے مقابلے میں ایک زیادہ سخت وزیراعظم ثابت ہونگے-

علاوہ ازیں، اس رجحان کو ختم کرنا ہوگا کہ دوطرفہ تعلقات کی بحالی کو کشمیر سمیت موجود اختلافات کے حل کے تابع رکھا جائے- یہ ضروری ہوگا کہ ریاست کی سطح پر آگے بڑھنے کے لئے باہمی مفاد اور خیرسگالی کے اصول کو پیش نظر رکھا جائے-

پاکستان میں بہت سے لوگ اس بات پر ناخوش ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان سیاسی کیک میں اپنا حصہ لینے میں ناکام رہے- لیکن پاکستان کے مسلمانوں نے اپنی سیاست کو اسقدر گڈ مڈ کردیا ہے کہ شائد ہی وہ سرحد کے پار اپنے ہم مذہبوں کو کوئی مشورہ دیسکیں-

ہندوستانی مسلمان اس کوشش میں ہیں کہ اپنی ثقافتی شناخت کی قربانی دئے بغیر اور ایک دائیں بازو سے دوسرے دائین بازو کے سرپرست کی طرف بڑھتے ہوئے سیاست کے میدان میں اپنی بقا برقرار رکھیں- بظاہر یہ لگتا ہے کہ انھوں نے زعفرانی دستے کے ساتھ مصالحت کرلی ہے- اس میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنی اس مصلحت کی شادی سے کچھ سبق سیکھیں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں