محسن انسانیت: جوناس سالک
اکتوبر 1914ء میں امریکہ کے شہر نیو یارک میں ایک یہودی النسل جوڑے کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام جوناس سالک (Jonas Salk) رکھا گیا۔
یورپ میں پہلی عالمی جنگ جولائی 1914ء میں شروع ہو چکی تھی۔ جنگ کے علاوہ نوع انسانی کو سب سے بڑا خطرہ بیماریوں سے لاحق تھا۔ امریکہ میں مرد حضرات کی اوسط عمر باون (52) جبکہ یورپ میں اوسط عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی۔ بچوں کو اپاہج کر دینے والی بیماری پولیو کو بیسیوں صدی کا طاعون کہا جاتا تھا۔
پولیو ایک لا علاج مرض تھا (اور ہے) اور تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس سے بچاؤ کا کوئی طریقہ دریافت نہیں کیا جا سکا تھا۔ امریکی تاریخ میں طویل ترین مدت کیلئے صدر رہنے والے فرینکلن روزویلٹ کو بھی پولیو کا مرض لاحق تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1952ء میں امریکہ میں پولیو کی وبا پھیلی تو اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں تیز کر دی گئیں۔ 1955ء تک پولیو پر تحقیق کے لیے ہر سال ستّر کروڑ ڈالر خرچ کیے جا رہے تھے۔
جوناس سالک نے 1952ء میں ایک ویکسین تیار کی جو انسانوں کو پولیو سے محفوظ بناتی تھی۔ تین سال تک اس ویکسین کو تجرباتی طور پر استعمال کیا گیا اور 1955ء میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ ویکسین واقعی پولیو وائرس سے محفوظ رکھتی ہے۔ کچھ سال بعد قطروں کی شکل میں پلائی جانے والی ویکسین بھی تیار کر لی گئی۔ انسان نے اپنی عقل کے استعما ل اور محنت کے بل بوتے پر ایک مہلک اور اپاہج کر دینے والی بیماری کو ہزاروں سالوں کی جنگ کے بعد شکست دے دی۔ یہ انسانی عقل اور سائنس کا معجزہ تھا۔
1994ء تک شمالی اور جنوبی امریکہ کا ہر ملک پولیو سے محفوظ ہو چکا تھا اور 2002ء تک یورپ کا ہر ملک بھی اس مرض سے محفوظ بنایا جا چکا تھا۔ فی الحال دنیا کے صرف تین ممالک ایسے ہیں جہاں پولیو وائرس ابھی تک پھل پھول رہا ہے۔ ان تینوں ممالک میں ویکسین کے خلاف مہم چلائی جاتی رہی اور اب اس پاگل پن کی فصل کاٹنے کا موسم آ چکا ہے۔
جوناس سالک 23 جون 1995 کو انتقال کر گئے، اگر آج زندہ ہوتے تو یقیناً فتووں کی زد میں ہوتے.
محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت (1993-96) کے دوران پولیو کے خاتمے کے لیے ایک قومی مہم شروع کی گئی اور اس مہم کا آغاز وزیر اعظم کی اپنی بیٹی آصفہ کو ویکسین کے قطرے پلا کر کیا گیا۔
2000ء تک ملک کے بیشتر علاقوں میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جا چکے تھے۔ مذہبی جماعتوں نے حسب معمول اس مہم کے آغاز سے ہی اس کی مخالفت کی اور خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ میں سب سے زیادہ مزاحمت دیکھنے کو ملی۔
افواہیں اور سازشی نظریات پھیلانا پاکستانی قوم کا محبوب مشغلہ ہے لہٰذا پولیو کے قطروں کے خلاف افواہ پھیلائی گئی کہ یہ تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ ایسی افواہوں کی تصدیق کرنا ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں اس لیے یہ نظریہ بلا تردید پھیلاتا رہا۔ رہی سہی کسر امریکہ بہادر کی ایجنسی سی آئی اے نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے پوری کر دی۔
اب پولیو کے قطرے نا صرف نامردی کے مجرم ٹھہرے بلکہ امریکی سازش کا ایک طریقہ بھی قرار پائے۔ کسی بھلے آدمی نے اس بات پر سوچنا شائد کبھی گوارا نہیں کیا کہ اتنے قطرے پلائے جانے کے باوجود پاکستان میں آبادی کی شرح بڑھتی ہی کیوں جا رہی ہے؟
قومی اور ذاتی ’غیرت‘ کے رکھوالو ں نے پولیو کے قطرے پلانے والے رضا کاروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور تاحال درجنوں معصوم افراد کو قطرے پلانے کے جرم میں جان سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پشاور اور خیبر پختونخواہ کے دیگر علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کیلئے پورا شہر بند کرنا پڑتا ہے اور اس روز موٹر سائیکل سواری پر پابندی عائد ہوتی ہے۔
کراچی کے پختون اکثریتی علاقوں میں پولیو ٹیموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ طالبان نے شکیل آفریدی کی مہم سے کئی سال قبل مقامی پولیو ٹیموں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔
نائیجیریا اور افغانستان میں بھی پولیو مہم کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں نے محاذ کھول رکھا ہے۔ پولیو وائرس کے خلاف مدافعت جلد پیدا کی جا سکتی ہے لیکن اس کے پھیلاؤ کی رفتار بھی بہت تیز ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پولیو کے جراثیم کا سراغ ملا ہے۔ سازشی نظریات البتہ اسی طرح پھل پھول رہے ہیں اور ہماری حالت تو اب طوفان کے ڈر سے ریت میں سر دبانے والے شتر مرغ سے بھی بدتر ہے۔ گزشتہ سال تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل کے بیٹے نے اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔
یکم جون 2014ء سے بیرون ملک سفر کرنے کے لیے پولیو ویکسین کا سرٹیفیکٹ حاصل کرنا پاکستان شہریوں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ کیا یہ پابندی ہمارے معاشرے میں پولیو قطروں کے متعلق پھیلی جہالت کو کم کر سکے گی؟ یہ فیصلہ تاریخ کے ہاتھ میں ہے۔













لائیو ٹی وی