ڈیفالٹنگ اسٹیٹ

شائع June 24, 2014

بجلی کے جس بحران نے ملک کو پچھلے آٹھ سالوں سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس سے چھٹکارہ پانے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے- کیا ماہرین اور کیا عوام، سب ہی لوڈ شیڈنگ اور پاور سیکٹر کے رسیوابلز (RECEIVEABLES) اور پے ابلز (PAYABLES) کی بات کرتے نظر آتے ہیں- وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ حکومت کی وصولیاں کم ہو رہی ہیں لہٰذا وہ پاور جنریشن کمپنیز کو پوری طرح ادائیگی کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے-

چلیں شروع سے بات کرتے ہیں؛ ہم جانتے ہیں کہ پاور سیکٹر کی وصولی (RECEIVEABLE)، جس میں کے الیکٹرک کے رسیوابلز شامل نہیں، 513 ارب روپے کی حیران کن حد تک پہنچ چکی ہے جبکہ خود پاور سیکٹر کے ذمے دوسرے اداروں کو واجب الادا رقم 300 ارب روپے ہے- پچھلے سال حکومت نے پاور سیکٹر کو واجب الادا 500 ارب روپے دیے تھے- یہ پے ابلز آئل مارکیٹنگ کمپنیز، گیس کمپنیز، جنریشن کمپنیز، واپڈا اور دیگر آزاد پاور پروجیکٹس کو عدم ادائیگی کی وجہ سے ہیں-

حکومتیں اپنے توانائی کے واجبات کی ادائیگی نہیں کر رہیں-

حکومت اور اس کے اداروں کی جانب سے پاور سیکٹر کو واجب الادا کل رقم 176.22 ارب روپے ہے- اگر ہم اس میں پرائیویٹائز کئے جانے والے کے الیکٹرک کی جانب سے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو واجب الادا رقم کو بھی شامل کر لیں تو یہ مجموعہ 211.42 ارب روپے تک پہنچ جاتا ہے-

اس سے پہلے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیوں حکومتیں ادائیگی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہیں یہ اہم بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ہر ڈیفالٹنگ حکومت کے ذمے کتنی رقم واجب الادا ہے-

وفاقی حکومت، لوکل باڈیز، وزارت دفاع، حتیٰ کہ وزارت پانی اور بجلی کے ذمے کل ملا کر ڈسٹربیوشن کمپنیز کے 8.8 ارب روپے واجب الادا ہیں- وفاقی حکومت، حکومت آزاد جموں اور کشمیر کے ساتھ ساتھ اے جے کے حکومت کے ذمے 37 ارب روپے کی رقم کی عدم ادائیگی کے لئے بھی ذمہ دار ہے-

چاروں صوبوں، بشمول ان کے لائن ڈیپارٹمنٹس اور دیگر ایجنسیوں نے بھی 87.256 ارب روپے کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہیں کی ہے- یہاں پر، حکومت سندھ سب سے آگے ہے جس کے ذمہ کل واجب الادا رقم 55 ارب روپے کے قریب ہے-

اس کے علاوہ وفاقی حکومت، فاٹا کے ڈومیسٹک صارفین کے حوالے سے بھی 32 ارب روپے کی عدم ادائیگی کی بھی ذمہ دار ہے- یہ رقم اصل میں وہ فرق ہے جو کہ ٹرائبل ایریاز الیکٹرک سپلائی کمپنی کی اصل بلنگ ہے اور وفاقی حکومت ہر سال اس مد میں بجٹ میں سے ادا کرتی ہے- یہ رقم مزید بڑھے گی کیونکہ 2014-2015 کے وفاقی بجٹ میں فاٹا کی سبسڈی کے لئے صرف 8 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جبکہ یہاں کی سالانہ بلنگ تقریباً 14 ارب روپے ہے- اس کے بعد بلوچستان کے ٹیوب ویلوں کی سبسڈی کے لئے رقم 11 ارب روپے ہے-

دوسری جانب کے الیکٹرک سیدھے سیدھے خود کے ذمے 650MW بجلی، جو وہ این ٹی ڈی سی سے حاصل کرتی ہے، کی واجب الادا رقم کو وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی جانب سے واجب الادا رقم اور سبسڈی کی مد میں حکومت سندھ کی جانب سے جاری کی جانے والی رقم سے جوڑ دیتی ہے-

آخر کیا وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے بل ادا نہیں کرتیں؟ ایک وجہ تو پیمنٹس کلئیر کرنے کے حوالے سے پائی جانے والی عمومی بے حسی اور غیر سنجیدہ رویہ ہے- اس کے ساتھ ساتھ 2014-2015 کے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے سندھ حکومت کو احساس ہوا کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لئے بجٹ میں مختص کی جانے والی رقم ناکافی ہے-

اس کے ساتھ ساتھ، حکومتی صارفین کو یوٹیلٹی پرووائیڈرز، عام کسٹمرز کی طرح ٹریٹ نہیں کرتے یعنی اگر وہ پیمنٹ میں ڈیفالٹ کر بھی جائیں تب بھی ان کے کنکشنز نہیں کاٹے جاتے- اس سے لاپرواہی پیدا ہوتی ہے اور پھر ان بقایاجات کو حکومتوں کی جانب سے زیادہ اور غلط که کر چیلنج کر دیا جاتا ہے- یہ اصول کہ بلوں سے متعلق اعتراضات کو ایک مقررہ وقت میں جمع کرا دینا چاہئے فالو نہیں کیا جاتا-

اس قسم کے مسئلوں سے نمٹنے کے لئے، جنرل فنانشل رولز کے تحت وفاقی ایڈجسٹڑ کا آفس قائم کیا گیا تھا جو کہ بدقسمتی سے 2000 سے عملاً کام نہیں کر رہا تھا- اس آفس کو 2009 کے اواخر میں دوبارہ فعال کیا گیا اور اس بات کا مینڈیٹ دیا گیا کہ وہ حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) کی طرف سدھ حکومت کے واجب الادا رقم کا معاملہ نمٹائے-

قانون کی رو سے فیڈرل ایڈجسٹر صرف ریکنسائلڈ (RECONCLED) صوبائی بقایا جات میں سے کٹوتی کرنے کا مجاز ہے تاہم اس کے پاس کسی تعطل کی صورت میں ثالث کا کردار ادا کرنے کا بھی اختیار ہے- جب وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کے بجلی کے بلوں کی مد میں سے رقم کاٹی جانے والی تھی تو حکومت سندھ نے 2010 کے وسط میں سندھ ہائی کورٹ سے اس حوالے سے اسٹے آرڈر حاصل کر لیا- اس کے بعد، جب فیصلہ حیسکو کے حق میں ہو بھی گیا تب بھی حکومت سندھ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس بات میں بھی کامیاب ہو گئی کہ اس نے اپریل 2013 میں 20 ارب روپے کے بل معاف کرا لئے-

مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کے مجموعی بلوں میں سے پچیس فیصد ایڈوانس کٹوتی کا فیصلہ ایک احسن قدم ہے تاہم اس سے یہ دیرینہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا-

یہ تجویز ہے کہ تمام حکومتوں اور ان کے اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کو پوری طرح بجٹ کریں، بجلی کے روز بروز بڑھتے ہوئے غیر مجاز استعمال کو روکیں، توانائی کے تحفظ اور اس کی بچت کے اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں، ڈیسکو کو اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ حکومتی صارفین کو بھی عام صارفین کی طرح ٹریٹ کرے جن کے کنکشن ڈیفالٹ کرنے پر کاٹے جا سکتے ہیں اور مسلسل ڈیفالٹ کی صورت میں انہیں دوبارہ کنکشن مہیا نہیں کئے جاتے، اور سب سے آخر میں الیکٹرسٹی ایکٹ میں مناسب ترامیم متعارف کرائی جائیں-

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ بلوں سے متعلق شکایات کو مقررہ وقت کے اندر ہی درج کرایا جائے- اگر ان تبدیلیوں پر عمل درآمد نہیں کرایا گیا تو پاور سیکٹر اپنی صلاحیت کے حساب سے پرفارم نہیں کر سکے گا اور پرائیویٹ سیکٹر سے بھی مکمل وصولیاں حاصل نہیں کر پائے گا-

لکھاری انسٹیٹیوشن آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرز پاکستان کے صدر ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

انگلش میں پڑھیں

طاہر بشارت چیمہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025