مسلمان فٹبالر روزے رکھیں گے یا نہیں؟
ریسیفی: فٹبال ورلڈ کپ کا دوسرا ناک آوٹ مرحلہ ماہ رمضان کے ساتھ ہی شروع ہونے جا رہا ہے اور ایسے میں میگا ایونٹ کھیلنے والے مسلمان کھلاڑیوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ روزے رکھیں یا نہیں۔
اس وقت فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، بیلجیئم، الجیریا اور نائجیریا سمیت دوسری ٹیموں میں مسلمان فٹبالرشامل ہیں ۔
اسلامی کیلنڈر کے نویں مہینے رمضان میں فجر سے مغرب تک کھانے پینے سے دور رہا جاتا ہے اور یہ صورتحال سخت کنٹرول میں خوراک لینے والے مہنگے اور پروفیشنل فٹبالروں کے جسموں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے، بالخصوص میزبان ملک برازیل کے گرم اور مرطوب موسم میں۔
انگلش انسٹیٹیوٹ آف سپورٹس میں کام کرنے والی ماہر غذائیت ایما گارڈنر نے رائٹرز کو بتایا کہ اصل چیلنج روزانہ کی بنیاد پر ہایڈریشن اور توانائی کو برقرار رکھنا ہے۔
گارڈنرنے ایک تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ رمضان میں، بالخصوص اس کے ابتدائی حصے کے دران ، روزے داروں کے پٹھوں کا سائز کم ہو سکتا ہے ۔
دوسری جانب، فیفا کے چیف میڈیکل افسر جری ووراک نے پیر کو ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ روزہ رکھنے والے کھلاڑیوں کی جسمانی ساخت میں تبدیلی نہیں آنی چاہیئے۔
ووراک کے مطابق انہوں نے رمضان کے دوران کھلاڑیوں پر جامع تحقیق کی تھی اور اس کے ذریعے معلوم ہوا کہ اگر ماہ رمضان مناسب طریقے سے گزارا جائے تو کھلاڑیوں کی جسمانی کارکردگی میں کمی نہیں آتی۔
جرمنی کے میسوٹ آوزل اس حوالے سے اپنا ذہن بنا چکے ہیں۔ انہوں نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ رمضان ہفتہ سے شروع ہو جائیں گے، لیکن وہ کام کی وجہ سے روزے نہیں رکھیں گے۔
ماہر غذائیت گارڈنر ماضی میں ایک بڑے ٹورنامنٹ کے دوران روزے رکھنے والے برطانوی ہاکی ٹیم کے ایک کھلاڑی کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔
گارڈنر نےاس تجربہ کو ایک کیس سٹڈی قرار دیا ۔انہوں نے روزے کی شدت کم کرنے کے حوالے سے بتایا کہ ورلڈ کپ کے دوران روزے رکھنے والے کھلاڑیوں کے میچ عموماً شام میں افطار کے قریب شروع ہوں گے۔
انگلش فٹبال کلب بلیک برن روورز کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والی گارڈنر کے مطابق کچھ کھلاڑی روزے کے دوران کُلی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ایک ریسرچ کے تحت مطابق ایسا کرنے کے کچھ فائدے ہیں۔
'کلی کرنے سے کھلاڑیوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پانی پی رہے ہوں۔ اس کے علاوہ کھلاڑی خود کو گرمی سے بچانے کے لیئے ٹھنڈے تولیے بھی استعمال کرتے ہیں'۔
جسم میں پانی کی کمی کھیل پر اثر انداز ہوتی ہے اور وزن کے تناسب سے جسم کے اندر پانی کا محض ایک سے دو فیصد ضائع ہونے سے کھلاڑی کے لیے توجہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔
تاہم، گارڈنر کا کہنا ہے روزہ رکھنے والے کھلاڑیوں کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اپنے کوچ سے مشاورت کریں تاکہ ان کی جسمانی کارکردگی اور توانائی کی بحالی کے لیے مناسب پیشگی منصوبہ بندی کی جاسکے۔
گارڈنر نے ایسے کھلاڑیوں کو مشورہ دیا کہ وہ دن میں صرف ایک مرتبہ ہی پریکٹس کریں۔
'تحقیق کے حوالے سے دیکھیں تو ایسے کھلاڑیوں کے لیے صبح سویرے یا پھر رات کو دیر گئے پریکٹس کرنا بہتر ہو گا '۔












لائیو ٹی وی