' داغدار کھلاڑی حلف پر بے گناہی ثابت کریں'
لاہور:پاکستان کے سابق کپتان جاوید میاں داد نے فکسنگ الزامات کا سامنے کرنے والے تمام 'داغدار' کھلاڑیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دوسروں پر مقدمے کرنے سے پہلے حلف پر ثابت کریں کہ وہ ماضی میں کبھی کسی غلط کام میں ملوث نہیں رہے۔
'میں بہت جلد اس معاملے پر بات کروں گا۔مجھے میڈیا کے ذریعے خبریں مل رہی ہیں کہ حال ہی میں پی سی بی کی ملازمت اختیار کرنے والے زیادہ تر لوگ داغدار ہیں'۔
ڈان کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں میانداد نے کہا کہ وہ ان سب کو کسی بھی مقدس مقام پر لے جانے کو تیار ہوں، یا پھر پی سی بی انہیں خود لے کر جائے، تاکہ ان سے حلف لیا جا سکے کہ وہ ماضی میں کبھی بھی کرکٹ کھیلتے ہوئے غلط کاموں میں ملوث نہیں رہے'۔
میانداد کے مطابق، حلف اٹھانے کے بعد بھی اگر کوئی انہیں'داغدار' قرار دے تو پھر انہیں الزامات لگانے والوں کو عدالت لے جانے کا پورا حق ہے۔
'بدقسمتی سے ہم نے اپنی کرکٹ سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے اقدامات نہیں اٹھائےکہ کہیں ملک کی بدنامی نہ ہو جائے۔ لیکن آخر کار اس کا نتیجہ کیا نکلا'؟
سابق کپتان کے مطابق 'ہم زیادہ بدنام ہو گئے ہیں کیونکہ باہر کے لوگوں نے ہمارے کھلاڑیوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا'۔
'دوسرے کرکٹ بورڈز کی طرح اگر پی سی بی نے بھی بے ایمان لوگوں کو خود پکڑا ہوتا تو ملک کو اتنا نقصان نہ ہوتا'۔
'میری کرکٹ باقی تھی لیکن میں نے ارد گرد منفی عناصر کی موجودگی کی وجہ سے کنارہ کشی اختیار کی۔ میں نے اس قسم کے ساتھ قومی ٹیم کی کوچنگ چھوڑ ی کہ دوبارہ ایسی ذمہ داری نہیں اٹھاؤں گا'۔
میانداد کے مطابق انہوں نے بدعنوانی ختم کرنے اور کرکٹ کے معیار کو بہتر بنانے کےلیے پی سی بی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن کسی نے انہیں بطور ڈائریکٹر جنرل آزادی سے کام کرنے نہیں دیا لہذا انہوں نے یہ عہدہ بھی چھوڑ دیا۔
'میں روزِ قیامت اللہ تعالی سے ان لوگوں کے خلاف انصاف مانگوں گا جنہوں نے مجھے کرکٹ، کوچنگ اور ڈی جی کا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا'۔
پاکستان کرکٹ کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے میانداد نے کہا کہ قومی کھلاڑیوں کے موجودہ پول میں کوئی بھی ٹھوس کھلاڑی موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ کی بنیاد ہی غلط ہے اور ایسے میں اگلے مہینے سری لنکا دورے کے لیے اعلان کردہ دس رکنی ٹیم انتظامیہ بھی نتائج نہیں دے سکتی۔
ایک سو چوبیس ٹیسٹ کھیلنے والے میانداد نےموجودہ پاکستان کرکٹ کے سیٹ اپ میں معیاری کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کا ذمہ دار بورڈ کو ٹھرایا۔
'عامیانہ کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کا محاسبہ کرنے کے بجائے بورڈ ناکامیوں پر کوچوں کو برطرف کر دیتا ہے'۔
'اسی لیے لمبےعرصے سے مسلسل کارکردگی دکھانے میں ناکام رہنےوالے کھلاڑی تاحال قومی ٹیم کا حصہ ہیں '۔
'بہترین کھلاڑی وہ ہے جو متواتر اچھی کارکردگی دکھائے جیسا کہ ہاشم آملہ، اے بی ڈیولیئرز، سچن ٹنڈولکر ، مشتاق محمد، صادق محمد۔ حتی کہ سری لنکا میں بھی کچھ معیاری کھلاڑی نظر آتے ہیں'۔
سابق کپتان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر وہ پاکستان ٹیم کی کوچنگ نہ کرتے تو انضمام الحق، یونس خان اور کئی دوسرے ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کے طور پر نہ ابھرتے۔
'انضمام خود تسلیم کرتے ہیں کہ کس طرح میں نے ان کو سخت محنت سے نکھارا، حتٰی کہ پاکستان کے حالیہ سپن باؤلنگ کوچ مشتاق احمدنے میرے سامنے تسلیم کیا کہ بطور انگلینڈ کے سپن کوچ انہوں نے وہی طریقہ کار اختیار کیا جو میں کوچنگ کے لیے استعمال کرتا تھا'۔
انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ پی سی بی صاف ماضی رکھنے والے ملک کے نمایاں سابق کھلاڑیوں کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا۔
جب میانداد کو یاد دلایا گیا کہ ظہیر عباس (پی سی بی چیئر مین کے مشیر)، وقار یونس (ہیڈ کوچ) اور معین خان ( چیف سیلکٹر اور ٹیم مینیجر) پی سی بی کے ساتھ کام کر رہےہیں تو میانداد نے تسلیم کیا کہ یہ سابق کھلاڑی اپنے اپنے شعبوں میں تو کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بورڈ کے معاملات چلانا ایک الگ معاملہ ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ توقیر ضیاء، شہریار ایم خان، ڈاکٹر نسیم اشرف، ذکا ءاشرف اور اب نجم سیٹھی جیسے غیر ٹیکنوکریٹ پی سی بی امور دیکھتے آئے ہیں تو میانداد کا جواب تھا کہ 'اگر کوئی کھلاڑی پی سی بی کی سربراہی کرے تو اسے بہترین انتظامی سٹاف کا چناؤ کرنا چاہیئے اور اگر کوئی غیر کرکٹر سربراہ ہو تو اسے بہترین کرکٹ دماغوں کی خدمات حاصل کرنی چاہیں'۔
تاہم ، انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پی سی بی کے ساتھ ایسا معاملہ ہرگز نہیں۔
'کھلاڑیوں کو سینٹرل معاہدے نوازتے ہوئے یا پھر دس رکنی ٹیم انتظامیہ منتخب کرتے ہوئے پی سی بی کو اپنا موازنہ دوسرے کرکٹ بورڈز کے ساتھ نہیں کرنا چاہیئے'۔
' دوسرے ملکوں میں نیچے سے اوپر تک پروفیشنل سیٹ اپ موجود ہوتا ہے ، اس کے برعکس پاکستان میں ہمارا گراس روٹ لیول سڑک، گلی یا چھت ہیں جہاں ہمارے نوجوان کھلاڑی کھیلنے پر مجبور ہوتے ہیں'۔
میانداد کے مطابق بدقسمتی سے پی سی بی گراس روٹ لیول بہتر نہیں بنانا چاہتا لیکن 'میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ کوئی بھی کوچ ٹاپ لیول پر کھیلنے والوں کو بنیادی چیزیں نہیں سکھا سکتا۔ اس سطح پر کوچ صرف ان کی نوک پلک ہی سنوار سکتے ہیں'۔
میانداد کے مطابق، پی سی بی میچ فیس اور سینٹرل معاہدوں کی فیس میں اضافے کے ذریعے ٹاپ کھلاڑیوں کوتو نواز اور قومی کرکٹ سیٹ اپ میں موجود دوسرے کھلاڑیوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔
'دوسرے ملکوں میں کرکٹروں کے لیے قائم فلاح و بہبود کے نظام مکمل طور پر بورڈز پر انحصار نہیں کرتےجبکہ یہاں پی سی بی ہی کھلاڑیوں کی دیکھ بھال کرتا ہے'۔
میانداد کے مطابق، پی سی بی معاشی بحران کے شکار دوسرے کھلاڑیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ٹاپ کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے












لائیو ٹی وی