اردو زبان کے ایک گمنام سپاہی

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
ڈاکٹر عبدالستار صدیقی — فائل فوٹو
ڈاکٹر عبدالستار صدیقی — فائل فوٹو

مولوی عبدالحق (1870-1961) کو ابھی تک اردو زبان میں اتھارٹی مانا جاتا ہے مگر وہ کون علمی شخصیت تھی، جس نے بابائے اردو کی اس وقت مدد کی جب وہ اردو املا، لغت نویسی یا الفاظ کے بنیادی معاملات میں پھنس گئے تھے؟

سید سلیمان ندوی (1884-1953) اپنے وقت کے ان چند علماء میں شامل تھے جو الفاظ کے ماخذ اور اس کی تاریخ کو تلاش کرنے کے ماہر تھے، وہ مختلف مشرقی زبانوں عربی، فارسی اور اردو پر بھرپور مہارت رکھتے تھے مگر وہ کون صاحب تھے جو ان سے کبھی کبھار ہونے والی غلطیوں کی تصیح کیا کرتے تھے؟

وحید الدین سلیم پانی پتی (1859-1938) ایسے عالم تھے جو لسانیات کے ماہر ہونے کی حیثیت سے اصطلاحات کی تشکیل کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی بیشتر تحریریں مولوی عبدالحق نے شائع کروائیں، مگر وہ کون صاحت تھے، جنہوں نے ان کی کتاب پر ناقدانہ مقالہ لکھ کر اس میں غلطیوں کی نشاندہی کی؟

ڈاکٹر سید عبداللہ (1906-1986) ایک محقق، ناقد اور کلاسیکل اردو و فارسی ادب کے عالم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، وہ عربی زبان سے بھی خوب واقف تھے مگر وہ صاحب کون تھے، جن سے وہ اردو کی ابتدائی لغت نوادرالالفاظ کی تدوین کے دوران رہنمائی اور مدد لیتے تھے؟

ان سب کا جواب ایک نام ہے، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی!

ایسی کیا بات تھی جس نے ڈاکٹر صدیقی کو اتنا بڑا عالم بنادیا کہ عالمی شہرت یافتہ علماء بھی ان کی رہنمائی لینے پر مجبور ہوگئے؟

درحقیقت وہ ان چند نایاب عالموں میں شامل ہیں جو جدید لسانیات، املا، الفاظ کے ماخذ، تحقیقی طریقہ کار، تاریخ سمیت قدیم اور جدید زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔ وہ عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی پر تو مہارت رکھتے ہی تھے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ عبرانی، ترکش اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔

ان کا متعدد زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے ماخذین کا علم دیگر ماہرین کے لیے بھی حیرت انگیز تھا، 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام اور وہاں جرمن زبان پر ڈاکٹری مقالہ تحریر کرنے کے دوران وہ کئی دیگر یورپی زبانوں کو بولنے کے بھی قابل ہوگئے تھے۔

ڈاکٹر صدیقی ان چند نایاب علماء میں سے ایک ہیں جو ایسی صلاحیت رکھتے تھے کہ جو چاہتے تھے کرلیتے تھے، انہوں نے جرمن زبان میں ایک کتاب تحریر کی، انہوں نے ایسے فارسی الفاظ پر تحقیق کی جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکل عربی میں پائے جاتے تھے۔

ڈاکٹر صدیقی کے مضامین اردو جریدوں میں شائع ہوتے تھے جن میں انہوں نے 1944ء میں انجمن ترقی اردو ہند کو اردو املا کو ایک معیاری اور منطقی شکل دینے کی شفارشات، واقعی ایک شاندار کام تھا۔

مگر یہ بات کافی افسوسناک ہے کہ ان کے جیسے عظیم عالم کو فراموش کردیا گیا ہے۔

ان کے بارے میں بہت کم لوگ جاتے ہیں یہاں تک کہ اردو یا فارسی میں پی ایچ ڈی کرنے والے کچھ طالبعلموں سے ڈاکٹر صدیقی کے کام کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ کوئی جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں۔

ان پر بمشکل ہی کوئی مضمون لکھا جاتا ہے اور انہیں نظرانداز کئے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن موضوعات پر انہوں نے لکھا عام افراد کو ان موضوعات میں زیادہ دلچسپی نہیں، جبکہ دوسری بات یہ تھی کہ وہ بہت زیادہ لکھنے والے مصنف نہیں تھے اور اپنی زندگی میں وہ کچھ کتابوں اور چند درجن مضامین سے زیادہ لکھ نہیں سکے۔

ان کی ایک تصنیف مقالات صدیقی 1983ء میں ان کے بیٹے نے لکھنؤ کی اردو اکیڈمی سے شائع کرائی تھی، جبکہ ان کے تحقیقی مقالات کے مزید دو مجموعے اشاعت کے منتظر ہیں۔ اسی طرح ان کا تحقیقی کام دیوانِ بیان اور ماخذِ غالب بھی تاحال شائع نہیں ہوسکا ہے۔

ان کی ایک قابل قدر تحقیق ان کی وفات کے تیس برس بعد اس وقت شائع ہوئی جب مشفق خواجہ نے 2003ء میں ان کی کتاب 'مرابت رشیدی' کو شائع کروایا۔

مرابت رشیدی ایک تحقیقی کام ہے، جس میں ایسے عربی الفاظ پر بحث کی گئی ہے جنہیں دیگر زبانوں خصوصاً فارسی زبان سے لیا گیا، اسے 17 ویں صدی کے ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف عالم عبدالرشید ٹھٹھوی نے تحریر کیا تھا، جو فارسی اور عربی زبان میں مہارت رکھتے تھے۔

ان کی دو لغات منتخاب الالغت (عربی) اور فرہنگ رشیدی(فارسی) کا کام مصدقہ مانا جاتا ہے، مگر مرابت کے بارے میں کبھی کسی نے سنا نہیں تھا اور نہ ہی اس کا مسودہ دیکھا تھا۔

ڈاکٹر صدیقی نے یہ مسودہ 1921ء میں حیدرآباد دکن میں تلاش کیا، جبکہ 1946ء میں انہیں رامپور اسٹیٹ لائبریری سے ایک اور مسودہ ملا۔

دوسری زبانوں سے لیے گئے الفاظ ان کا پسندیدہ موضوع تھا چنانچہ ڈاکٹر صدیقی نے مرابت کی تدوین کا کام کیا اور 1955ء میں کتاب پرنٹ تو ہوگئی مگر اسے تقسیم نہیں کیا جاسکا، جس کی ایک وجہ ایران کے ایک ایسے مسودے کی تلاش اور اشاعت تھی، جس کی روشنی میں ڈاکٹر صدیقی اپنے کام میں تبدیلیاں لانا چاہتے تھے، مگر بدقسمتی سے وہ اس سے پہلے ہی چل بسے اور ان کے بیشتر رشتے دار پہلے ہی پاکستان منتقل ہوچکے تھے تو یہ مسودہ یونہی پڑا رہ گیا۔

خوش قسمتی سے کچھ عرصے بعد ان کے بیٹے کا ہندوستان جانا ہوا، یوں ان طبع شدہ صفحات کو وہ اپنے ہمراہ لے آئے۔ مشق خواجہ نے اس کا اردو میں ترجمہ کروایا اور یوں 2003ء میں یہ کتاب اردو ترجمے اور تشریح کے ساتھ شائع ہوگئی۔

عبدالستار صدیقی 26 دسمبر 1885ء کو یوپی کے ضلع ہردوئی کے علاقے شندھیلہ میں پیدا ہوئے، ان کے والد مولوی عبدالغفار ریاست دکن کے ملازم تھے، چنانچہ ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم گلبرگہ اور حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ انہوں نے بی اے کی ڈگری ایم اے او کالج علیگڑھ سے 1907ء میں حاصل کی۔ وہ ایک استاد کی حیثیت سے ناگپور اسکول میں بھی کام کرتے رہے، مگر بعد میں مستعفی ہوگئے اور الہٰ آباد یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری لی۔

اسی سال انہیں اسکالر شپ پر جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، جہاں وہ اسٹروسبرگ یونیورسٹی اور گوتھین یونیورسٹی میں معروف عالمین اور ماہر لسانیات کے علم سے مستفید ہوسکے۔

انہوں نے وہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی، ترکش، پہلوی، زرتشت اور سنسکرت زبان سیکھی اور 1917ء میں انہیں عربی گرائمر میں ابن صباوا کے کام پر تحقیق کرنے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔ وہ 1919ء میں ہندوستان واپس آئے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔

بعد میں وہ حیدرآباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں پڑھانے لگے، جس دوران 1924ء میں انہیں ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا گیا۔

حیدرآباد میں وہ مولوی عبدالحق کے کافی قریب ہوگئے تھے، یہی وجہ ہے کہ 1928ء سے 1946ء کے دوران الہٰ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر اور عربی و فارسی ڈیپارٹمنٹس کے ہیڈ کی حیثیت سے کام کرتے رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں الہٰ آباد یونیورسٹی کے پہلے اعزازی پروفیسر کا عہدہ دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا انتقال 28 جولائی 1972ء کو الہٰ آباد میں ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

تیمور Jul 22, 2014 08:12am
رؤف صاحب۔ یہ تحقیقی اور علمی مقالہ پڑھنے کے بعد مزہ تو آیا ہی اور علم میں اضافہ بھی ہؤا ۔ ان عظیم اور خاموش کرداروں سے تعارف بھی ہؤا۔ اس سب کے لیئے آپ کا شکریہ۔ لیکن یہ پیغام لکھنے کی وجہ کچھ اور ٹھہری۔ آپ کی تحریروں سے جڑی بچپن کی کچھ یادیں اچھلتی کودتی میرے دل کے آنگن میں آ گیئں۔ بیس سال پہلے تک میں نونہال، تعلیم و تربیت اور آنکھ مچولی پڑھتا تھا۔ اور تب آپ میرے پسندیدہ مصنفوں میں سے تھے۔ پھر میرا بچپن مجھ سے کچھ دور چلا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ سب راحتیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی جو ان رسالوں اور کہانیوں میں ملا کرتی تھیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آپ جیسا قلمکار پاکستان میں بچوں کے ادب کو ہاں اس خوبصورت گلشن کو ڈان ڈاٹ کام کے کسی گوشے میں پھر سے اگا سکے۔ ہم بڑے بھی چوری چھپے آپ کی کھانیاں پڑھ لیا کریں گے۔