کیا بڑا بہتر ہے؟

22 جولائ 2014
ہم اپنی جنوب ایشیائی شناخت سے پیچھا کیوں چھڑانا چاہتے ہیں جو تاریخی اعتبار سے عرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ مالامال ہے؟
ہم اپنی جنوب ایشیائی شناخت سے پیچھا کیوں چھڑانا چاہتے ہیں جو تاریخی اعتبار سے عرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ مالامال ہے؟

چند دن پہلے ایک خبر پڑھی کہ ہمارے وزیر اعظم اس بہت بڑے جھنڈے سے اتنا متاثر ہوئے ہیں جو انہوں نے نئی دہلی کے حالیہ دورے کے دوران دیکھا کہ انہوں نے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو ہدایات دی ہیں کہ ایسا ہی پاکستانی جھنڈا اسلام آباد میں بھی لہرایا جائے-

یہ جھنڈا کوئی 541 فٹ بڑا ہو گا جسے دو سو فٹ اونچے پول پر لہرایا جائے گا- کیا ہمیں بڑا بننے کی اس تازہ ترین کوشش کی فکر کرنی چاہئے؟ کیا بڑا بہتر ہے؟ جیسے کہ دبئی نے 2,716 فٹ اونچا برج خلیفہ بنا کر کولالمپور کے پیٹروناس ٹاور سے اونچی عمارت بنائی اور اب ہم بھی اسی طرح ہندوستان سے زیادہ بڑا جھنڈا بنا کر مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں-

حقیقت تو یہ ہے جن لیڈرروں کے پاس صحیح معنوں میں دکھانے کو کچھ نہیں ہوتا وہ اسی طرح کے سمبلز کے ذریعے یہ جتانے کی کوشش کرتے کہ انہوں نے کچھ حاصل کر لیا ہے- اب بھلا کوئی بتائے کہ زیادہ بڑا جھنڈا لگانے سے ہمارے شہریوں کی اکثریت کو، جو انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں، کیا فرق پڑے گا؟

وزیر اعظم کے امپرینٹ بہت سے ناقابل عمل منصوبوں پر ہیں-

اب تک یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ نواز شریف ایک انتہائی سادہ اور غیر پیچیدہ انسان ہیں جو خود کو آج کا شیر شاہ سوری سمجھتے ہیں- وہی شیر شاہ سوری جس نے سولہویں صدی میں اپنے مختصر دور حکومت میں کابل سے چٹاگونگ تک گرینڈ ٹرنک روڈ بنوائی تھی- اس بات کی افواہیں ہیں کہ وزارت خزانہ نے نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ان کے بڑے بڑے منصوبوں پر اعتراض اٹھانے کی کوشش کی تھی تاہم اس مشورے کو یہ که کر رد کر دیا گیا تھا کہ "کیا شیر شاہ سوری کو مالی ڈسپلن قائم رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا؟"

آج اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو نواز شریف کے تمام ادوار حکومت میں ہمیں ایسے ہی بہت سے بڑے بڑے، عظیم الشان، ہائی پروفائل منصوبے دکھائی دیتے ہیں جو کہ پاکستان کی سکائی لائن پر ان کے امپرینٹ چھوڑنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے تھے- اب یہ اور بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر فنانشیل اعتبار سے ناقابل عمل تھے-

اب ان کے تازہ ترین شوق کی جانب لوٹتے ہیں، شاید انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جھنڈے کے سائز سے زیادہ اہم وہ چیز ہوتی ہے جس کی نمائیندگی کوئی جھنڈا کرتا ہے- جب میں چھوٹا سا بچہ تھا تو مجھے یاد ہے کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارے جھنڈے کا سبز رنگ پاکستان کی مسلمان اکثریت کی نمائیندگی کرتا ہے جبکہ جھنڈے پر موجود سفید پٹی اقلیت کی نمائندہ ہے- آج اگر ہم اپنے ملک غیر مسلم شہریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی جانب دیکھیں تو لگے گا کہ ہمیں پورا کا پورا جھنڈا ہی سبز کر دینا چاہئے-

پاکستان کے ابتدائی اور سخت مشکل دنوں میں آزادی اور برابری کی بہت بات کی جاتی تھی- یقیناً ہمارے فارسی زدہ قومی ترانے کا ایک شعر بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے "پرچم ستارہ و ہلال، رہبر ترقی و کمال"-

ذرا یہ بات اسلام آباد کی جدید بلڈنگوں کے سائے میں بنی کچی آبادیوں میں مقیم کرسچنز کو بتائیں- یہ وہ ناخوش لوگ ہن جو ہمارے دارالحکومت کے گھروں اور سڑکوں کو صاف کرتے ہیں پر ان کے ساتھ برتاؤ بالکل اچھوتوں والا رکھا جاتا ہے اور حقوق، ان کی بات تو نہ ہی کریں-

حال ہی میں ان ہی صفحات میں، ہما یوسف نے اس برے سلوک کی تفصیل لکھی تھی جو ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں اور جس کی وجہ سے یہ لوگ دوسرے ملکوں میں جا کر وہاں پر پناہ کی درخواست دینے پر مجبور ہو چکے ہیں جو ان کی موجودگی وہاں نہیں چاہتے اور انہیں ہر وقت وہاں سے ڈیپورٹ کئے جانے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے- پر اس حوالے سے ان لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ہمارے ٹی وی اسٹوڈیوز اور ہمارے کیمپسز میں کوئی کہرام نہیں اٹھا-

ایک جھنڈا، قومی اتحاد کی علامت ہوتا ہے اور اس کے باوجود گزرے سالوں میں فیڈریشن کے ساتھ ہمارے تانے بانے کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں- مشرقی پاکستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے بقیہ صوبے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار شروع کر چکے ہیں- بلوچستان کے حالات کیسے ہیں سب ہی جانتے ہیں جبکہ سندھ کے شہری اور دیہی دونوں ہی حصے، مختلف وقتوں میں اپنے اپنے رستے چننے کا اظہار کرتے رہے ہیں- قبائلی علاقوں میں تو ریاست کے اندر ایک ریاست بن چکی ہے اور حال ہی میں ان شرپسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا جا چکا ہے-

پر ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ فیڈریشن کے اجزاء کو فوجی طاقت کے ذریعے ہمیشہ جوڑے نہیں رکھا جا سکتا- مذہب کا گلو بھی انہیں جوڑنے کے لئے کافی نہیں جیسا کہ ہم مشرقی پاکستان کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں- ضرورت اس بات کی ہے کہ شہریوں اور ریاست کے درمیان باہمی مفادات کے حوالے سے ایک سماجی معاہدہ ہو- پاکستانیوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد، پاکستان کی فیڈریشن کو پنجابی خواہشات کا اسیر سمجھنے لگی ہے- اور نواز شریف اور ان کی حکمران جماعت پی ایم ایل (ن) اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے کچھ زیادہ کر بھی نہیں رہے-

سمبلز کی اہمیت یقیناً ہے- ہم میں سے زیادہ تر کے لئے، اردو، ہماری قومی کرکٹ ٹیم اور ہمارا جھنڈا ہمارے اتحاد کی علامت ہیں- مگر گزرے سالوں میں پاکستانی ہونے کا فخر ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ دوسرے ملکوں ہمارے ملک کا تاثر ٹاکسک ہو گیا ہے- ہمارا سبز پاسپورٹ ایسی چیز نہیں جو ہم فخر کے ساتھ دوسرے ملکوں کے امیگریشن کاؤنٹرز پر لہرا سکیں-

پر صرف نواز شریف ہی کو اکیلے قصوروار کیوں ٹھہرایا جائے؟ ہم سب اس انحطاط کے برابر کے ذمہ دار ہیں- جب ہم اپنی گاڑیوں پر فخر کے ساتھ "الباکستان" لکھا ہوا لگاتے ہیں تو ہم اپنے ملک کے عربی تلفظ کی ترویج کر رہے ہوتے ہیں- ہم کیوں اپنے جنوبی ایشیائی شناخت سے پیچھا کیوں چھڑانا چاہتے ہیں جو کہ عرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ کلچرلی اور تاریخی اعتبار سے مالامال ہے؟

جب فیڈریشن کو جوڑے رکھنے کا گلو کمزور ہوتا ہے تو فوج کا جوڑے رکھنے کا کردار مظبوط ہوتا ہے- اب اس بات کا ذکر تو رہنے ہی دیں کہ یہ چیز جزوی طور پر جمہوری پاکستان کی حیثیت کو بھی کمزور کرنے کی بھی ذمہ دار ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد، سیاستدانوں کو خود ایک مسئلہ سمجھنے لگی ہے اور ان کا ماننا ہے کہ سیاستدان مسئلوں کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے-

موجودہ حالات میں جب ہماری فوج، شاید اپنی تاریخ کی اہم ترین جنگ میں مصروف ہے، عمران خان اور مولانا قادری کی جانب سے شروع کیا جانے والا کھیل صحیح معنوں میں اس بات کا غماز ہے کہ ہماری سیاسی کلاس کس حد تک ذہنی اور اخلاقی سطح پر دیوالیہ ہو چکی ہے- جب تک ہمارے لیڈر صحیح نہیں ہوتے اور اپنے کام درست نہیں کرتے بڑے جھنڈوں سے کوئی مدد نہیں ملنے والی-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں