• KHI: Partly Cloudy 18.7°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.3°C
  • KHI: Partly Cloudy 18.7°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.3°C

لڑکیوں کے جسمانی اعضا کاٹنا جرم قرار

شائع July 22, 2014 اپ ڈیٹ July 23, 2014

لندن: وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں والدین اپنی بیٹیوں کے جنسی اعضا کاٹنے اور اس کی روک تھام میں ناکامی پر عدالتوں کا سامنا کریں گے۔

برطانیہ اور اقوام متحدہ میں بچوں کی ایجنسی نے زنانہ جنسی اعضا کو کاٹنا، اور دنیا بھر میں کم عمری اور جبری شادی سے متاثرہ لاکھوں لڑکیوں سے اظہاریکجہتی اور اس کے خاتمے کے لیے پہلی مرتبہ وسیع پیمانے پر کوششیں کرتے ہوئے 'گرل سمٹ' منعقد کی۔

گرل سمٹ میں بین الاقوامی سیاست دان اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم شخصیات شرکت کر رہی ہیں جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسفزئی بھی شامل ہیں۔

کیمرون نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ لڑکیوں کو جبری شادی یا جسمانی اعضاء کے کاٹے جانے کے بغیر جبر اور تشدد سے پاک زندگی گزارنے کا حق ہے۔

'نسوانی ختنہ 'فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن' یا ایف جی ایم روکنے میں ناکامی پر والدین عدالتوں کا سامنا کریں گے'۔

انہوں نے کہا کہ ایف جی ایم کر کے انھیں زندگی بھر کے لیے نفسیاتی اور جسمانی طور پر معذور نہ کیا جائے۔

اس طرح کے طرز عمل کی معاشرے میں جڑیں کتنی ہی گہری کیوں نہ ہوں وہ برطانیہ سمیت دنیا بھر کی لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تمام لڑکیوں کے بہتر مستقبل کی تعمیر چاہتے ہیں اور اس لیے ہمیں ان طریقوں کو ختم کرنا ہے۔

یونیسیف نے اپنی ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں ایف جی ایم اور بچوں کی شادی کی شرح میں کمی آئی ہے، تاہم اگر اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا تو ترقی پذیر ممالک میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے اس رجحان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

130 ممالک میں دو کروڑ 90 لاکھ لڑکیاں اور خواتین کے ختنہ کی جا چکی ہے،افریقہ اور مشرقی وسطٰی جہاں یہ روایت عام ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق جن خواتین کے اعضا کو کاٹا جاتا ہے انہیں انفیکشن، بانجھ پن اور موت سمیت دیگر خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تقریبا 700 ملین لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی گئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025