شہریار خان چیئرمین پی سی بی کے مضبوط ترین امیدوار
لاہور: پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین شہریار خان کے ایک بار پھر پی سی بی چیئرمین بننے کے امکانات انتہائی روشن ہو گئے ہیں جہاں بورڈ کے پیٹرن ان چیف اور وزیر اعظم نواز شریف نے اس اہم منصب کے لیے ان کا نام تجویز کیا ہے۔
وزیر اعظم نے پیر کو شہریار خان کو پی سی بی چیئرمین بنانے کی تجویز پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سابق چیئرمین نجم سیٹھی کو گورننگ بورڈ کا رکن بنانے کی تجویز بھی پیش کی۔
پیٹرن ان چیف نے پی سی بی کے نئے آئین کے تحت 30 دن میں الیکشن کرانے کے لیے جسٹس ریٹائرڈ سائر علی کو قائم مقام چیئرمین پی سی بی اور الیکشن کمشنر بھی مقرر کردیا ہے۔
دس رکنی گورننگ بورڈ میں چاروں ریجن کے نمائندے جبکہ چار ڈپارٹمنٹ کے نمائندے بھی شامل ہوں گے جو نئے چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔
اب جبکہ نجم سیٹھی چیئرمین کے عہدے سے دستبردار ہو چکے ہیں تو موجودہ صورتحال میں شہریار خان بورڈ کی چیئرمین شپ کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
واضح رہے کہ سیٹھی نے سپریم کورٹ کے سامنے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ چیئرمین پی سی بی کے انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔
شہریار کے وزیر اعظم نواز شریف سے بھی انتہائی قریبی روابط ہیں اور اسی لیے امید ہے کہ گورننگ بورڈ کا کوئی اور رکن چیئرمین کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے گا۔
شہریار خان اس سے قبل بھی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں 2003-2006 تک پی سی بی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
ان کے سابقہ دور میں پاکستان نے ہر سال روایتی حریف ہندوستان سے سیریز کھیلنے کے ساتھ ساتھ دو مرتبہ پڑوسی ملک کی میزبانی بھی کی۔
اب ایک بار پھر ان کے لیے ناصرف ملک میں عالمی کرکٹ کی بحالی ایک بہت بڑا چیلنج ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ روایتی حریف انڈیا سے بھی سابقہ دور کی طرح کرکٹ معاملات کو بحال کرنا ان کے لیے کوئی آسان کام نہ ہو گا۔
ء2008 میں ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرکٹ تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے اور اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کوئی مکمل دوطرفہ سیریز نہیں کھیلی گئی۔
پاکستان نے 2011 میں موہالی میں شیڈول ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلنے کے ہندوستانی سرزمین پر قدم رکھا تھا اور پھر 13-2012 میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کھیلی گئی تھی لیکن سیاسی تناؤ کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ سیریز کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ شہریار خان سابق چیئرمین نجم سیٹھی کی جانب سے کیے گئے فیصلوں کی توثیق کرتے ہیں یا نہیں کیونکہ ایسی صورت میں یقینی طور پر نئے بحران جنم لیں گے۔
ایڈہاک بنیادوں پر کام کرنے کے باوجود نجم سیٹھی نے معین خان کو چیف سلیکٹر اور منیجر، وقار یونس کو ہیڈ کوچ اور باسط علی کو جونیئر سلیکشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ مشتاق احمد کی بحیثیت اسپن باؤلنگ کوچ، سابق زمبابوین کرکٹ گرانٹ فلاور کی بیٹنگ کوچ اور جنوبی افریقہ کے گرانٹ کیوڈن کی دو سال کے لیے فیلڈنگ کوچ کی حیثیت سے تعیناتی بھی کی۔
سیٹھی نے ڈومیسٹک کرکٹ کا پانچ سالہ پروگرام متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہونے والی سیریز کے میڈیا رائٹس کی بولی کے لیے ایک کمیٹی بھی ترتیب دی تھی۔
شہریار خان کا سابقہ دور متنازع حالات میں اختتام پذیر ہوا تھا جہاں پاکستان کرکٹ کو متعدد تنازعات نے آن گھیرا تھا۔
اس میں سب سے بڑا واقعہ 2006 کے اوول ٹیسٹ میں پیش آنے والا بال ٹیمپرنگ تنازع تھا جہاں انگلینڈ کو پانچ رن کی پینالٹی ملنے کے بعد اس وقت کے کپتان انضمام الحق ٹیم کو گراؤنڈ سے باہر لے گئے تھے اور امپائر ڈیرل ہیئر نے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ٹیسٹ کو فور فیٹ کرتے ہوئے انگلینڈ کو فاتح قرار دیا تھا۔
اس کے فوراً بعد دوسرا اہم تنازع اس وقت پیش آیا تھا جب انضمام الحق کی جگہ ٹیم کے قائد کا منصب پانے والے یونس خان نے ہندوستان میں منعقدہ چیمپیئنز ٹرافی میں ٹیم کی روانگی سے چند لمحے قبل ٹیم کی قیادت سے انکار کردیا تھا۔
شہریار خان نے فوری طور پر محمد یوسف کو ٹیم کی باگ ڈور سونپی لیکن اسی دن پرویز مشرف نے انہیں عہدے سے ہٹاتے ہوئے اپنے قریبی ساتھی ڈاکٹر نسیم اشرف کو چیئرمین پی سی بی مقرر کردیا تھا۔
سیٹھی کی گورننگ بورڈ میں موجودگی کے ساتھ ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں زیر گردش ہیں کہ اگلا پی سی بی چیئرمین محض کٹھ پتلی ہو گا تاہم دوسری جانب شہریار خان کے وزیر اعظم سے قریبی تعلقات کی بنیاد پر بعض ماہرین نے ان قیاس آرئیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پی سی بی کے تمام تر فیصلے کرنے میں خود مختار ہوں گے۔
یہاں قائم مقام چیئرمین پی سی بی سائر علی کے حوالے سے بھی اہم بات یہ کہ وہ ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کردیا تھا اور افتخار چوہدری کے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہونے کے بعد ان کی سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ترقی کردی گئی تھی۔












لائیو ٹی وی