ماڈل ٹاؤن کیس: کچھ حماقتیں

02 ستمبر 2014
لکھاری ریٹائیرڈ پولیس افسر ہیں۔
لکھاری ریٹائیرڈ پولیس افسر ہیں۔

حالیہ بحران کی وجہ سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی، اور جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ بد قسمتی سے پروفیشنلزم کی کمی اور اپنے آقاؤں کے احکامات کی بلا چوں و چراں تعمیل کے سبب شاید پنجاب پولیس کو تاریخ میں بحران کی وجوہات میں سے لکھا جائے گا۔

17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں ہونے والا سانحہ ایک متکبرانہ مائنڈسیٹ کی پیداوار تھا، جس نے ایک انتہائی غیر ضروری خونریزی کو جنم دیا. اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیاسی، انتظامی، اور پولیس کے معاملات چلانے والے کس طرح جلد بازی میں بغیر سوچے سمجھے فیصلے لیتے ہیں۔ ان کی مزید حماقتوں نے بحران کو صرف بڑھایا ہی ہے۔

حکومت پنجاب کی درخواست پر بننے والے لاہور ہائی کورٹ کے جوڈیشل کمیشن نے حکومت کو ذمہ دار ٹھراتے ہوئے کہا ہے، کہ پولیس نے حکومتی احکامات پر عمل درآمد کیا، جس کی وجہ سے خون ریزی ہوئی۔ حکومت کو ذمہ دار اس وقت ٹھرایا گیا، جب پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب مارچ کی حتمی ڈیڈلائن اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گئی تھی۔ صوبائی حکومت نے سانحے کی رپورٹ، جو سیکریٹری داخلہ کو صرف 2 ہفتے پہلے جمع کرائی گئی تھی، کو پبلک نا کر کے غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا تھا۔

جوڈیشل ٹریبونل نے وزیر اعلیٰ کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی اور دوسرے اہم سرکاری افسران کی جانب سے جمع کرائے گئے بیانات میں موجود تضادات کو بھی نوٹ کیا ہے۔

رپورٹ کے اقتباسات سے یہ واضح ہے کہ 16 جون کی میٹنگ، جس کی صدارت سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کی تھی، میں اگلے دن ہونے والے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اس پر حکومت کا موقف کافی دلچسپ ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کمیشن کے پاس ذمہ داروں کا تعین کرنے کا مینڈیٹ نہیں تھا۔ تو کیا یہ صرف ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تھا؟ کیا ٹریبونل سے رجوع کرتے وقت Terms of Reference ترتیب دیے گئے تھے، یا پھر انہیں محکمہ داخلہ نے بعد میں تبدیل کیا؟ اور سب سے اہم یہ، کہ حکومت نے یہ موقف اس وقت کیوں نہیں اپنایا، جب رپورٹ سیکریٹری داخلہ کو پیش کی گئی تھی۔ اس میں تاخیر کیوں کی گئی، اور رپورٹ کو راز میں کیوں رکھا گیا۔

میڈیا اور مظاہروں کے قائدین کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن واقعے میں 21 نامزد افراد کے خلاف ایک ایف آئی آر تو درج کر لی گئی ہے، پر حکمرانوں کے منع کرنے پر پولیس کی جانب سے منہاج القرآن کے مقتولین کی ایف آئی آر کی رجسٹریشن میں تاخیر کی وجہ سے معاملہ مزید خراب ہوا۔

پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے والوں کو شکایت درج کرانے کا حق حاصل ہے۔ خون ریزی کے بعد پولیس نے پاکستان عوامی تحریک/تحریک منہاج القرآن کے ان کارکنوں کے خلاف شکایت کنندہ بننے کا فیصلہ کیا، جنہوں نے پولیس اہلکاروں پر پتھر پھینک کر رکاوٹوں کے انہدام میں مزاحمت کی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا، کہ سچائی کے ساتھ غلطی تسلیم کر لی جاتی۔

پولیس کے موقف کو متعلقہ پولیس سٹیشن کے روزنامچے میں درج کرنا چاہیے تھا، اور منہاج کے نمائندوں سے کہا جاتا، کہ وہ تحریری یا زبانی طور پر شکایت درج کرائیں، تاکہ ان کے کارکنوں کی اموات کی تفتیش ایک غیر جانبدار جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم، جس میں صوبائی انویسٹیگیشن برانچ کے سینیئر پولیس افسران اور وفاقی تحقیقاتی اداروں کے نمائندے شامل ہوتے، سے کرائی جا سکیں۔

اسکے بجائے پولیس نے منہاج القرآن کے لوگوں پر ملبہ ڈالا، اور ان میں سے کچھ کو گرفتار بھی کیا۔ وقت پر متاثرین کی ایف آئی آر درج نا کر کے پولیس نے ان کو خود موقع فراہم کیا، کہ وہ سیشن کورٹ میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سمیت 21 اعلیٰ حکومتی شخصیات کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دائر کر سکیں۔

سیشن کورٹ نے کرمنل پروسیجر کوڈ کی شق (6) 22A کے تحت تمام نامزد ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ ایک بار پھر حکومت میں افراتفری پھیل گئی۔ حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج یاد آگیا، جس کی وجہ سے وہ آخر تختہ دار تک پہنچے۔ اس لیے شریف حکومت نے سیشن کورٹ کے احکامات کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔

لاہور ہائی کورٹ نے 4 وفاقی وزراء کی جانب سے دائر کردہ پٹیشنوں کو خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے، کہ ایف آئی آر میں نامزد کسی شخص کو تب تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ اسکے خلاف جرم میں ملوث ہونے کے شواہد نا ملیں۔

ایف آئی آر کوئی ایسی دستاویز نہیں، کو پولیس نامزد ملزم کو گرفتار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اگر جرم میں ملوث ہونے کے شواہد موجود نہیں ہیں، تو مشتبہ شخص کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ ٹرائل کورٹ سے ایف آئی آر کے اخراج کی درخواست بھی کی جاسکتی ہے، بھلے ہی ابھی ٹرائل شروع نا ہوا ہو۔

بد قسمتی سے ایف آئی آر میں نامزد ہوجانا ہمارے معاشرے میں اتنا برا سمجھا جاتا ہے، اور پولیس کو اپنی ذاتی دشمنیاں نمٹانے کے لیے اس بری طرح استعمال کیا جاتا ہے، کہ حکمران نا صرف میڈیا ٹرائل سے ڈرتے ہیں، بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی حکومت ختم ہوگی، ویسے ہی ان کو مخالفین کی جانب سے پھنسا دیا جائے گا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی کیا جائے، اور ان کو تفتیش اور انتظامی امور میں خود مختاری دی جائے۔

منہاج القرآن کی درخواست پر 21 افراد کے قتل کا مقدمہ درج کرنے میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔ شفاف تفتیش کے لیے ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کو دوبارہ تشکیل دینا چاہیے، تاکہ منہاج القرآن کے موقف کو جانچا جا سکے۔ اس ٹیم کی سربراہی ایک ایسے پولیس افسر کریں، جن کا کردار بے داغ ہو۔

ٹیم میں ایف آئی اے، آئی بی، آئی ایس آئی، اور ایم آئی کے نمائندے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ہائی کورٹ کے ایک جج کو نظر رکھنے کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے۔

عقل یہ کہتی ہے کہ ریاستی اداروں اور حکومت میں موجود دانشمند حلقوں کو قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے، تاکہ معاملہ ٹھنڈا کیا جا سکے، اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ریٹائیرڈ پولیس افسر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں