جادو کی چھڑی

03 ستمبر 2014
لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

آپریشن ضرب عضب شروع ہوئے 3 ماہ ہو چکے ہیں۔ اس پورے عرصے کے دوران جنگجو تنظیموں کی جانب سے خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں واضح کمی آئی ہے۔ اس لیے فوجی آپریشن کے حامی یہ دلیل دیں گے، کہ آپریشن ایک بے مثال کامیابی ہے۔

شمالی وزیرستان میں ایک دوسرے سے برسرپیکار دونوں گروہوں کے درمیان نا سمجھ میں آنے والے تعلقات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے، تو یہ کہنا مضحکہ خیز ہوگا، کہ ریاست کے ایک کونے میں موجود ایک علاقے میں فوجی آپریشن ملک بھر میں جاری تشدد کی لہر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔

کچھ جنگجو تنظیمیں کھلے عام کم دور دراز علاقوں میں اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں کوئٹہ کی لشکر جھنگوی، اور بہاولپور اور مضافات کی جیش محمد شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی پارٹیوں، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے واضح طور پر جنگجوؤں سے روابط ہیں۔ اس کے علاوہ غیر مذہبی سیاسی گروہ جن میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن سرفہرست ہے، انتہائی دائیں بازو کو برداشت کرتی ہیں، اور سب سے برا یہ، کہ انکے ساتھ اتحاد بھی قائم کرتی ہیں۔

سادہ الفاظ میں کہا جائے، تو قومی دھارے کی جماعتوں اور پارلیمنٹ سے باہر موجود جنگجوؤں میں ہم آہنگی موجود ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے، کہ فوج ایک اہم تیسرا گروہ ہے، جو تمام طرفین کے بیچ مصالحتی کردار ادا کرتا ہے، اور جیسے ہی کوئی جنگجو گروہ اپنی حدود سے تجاوز کرے، تو فوج چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیے مداخلت کرتی ہے۔

وقفے وقفے سے ہونے والی ان مداخلتوں سے اکثر سنسنی خیز نتائج بھی حاصل ہوتے ہیں۔ واقعی ایسا لگتا ہے کہ ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظوں کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے، جس کو گھماتے ہی وہ ہر طرح کی نامناسب صورتحال کو اپنی تسلی کی حد تک درست کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد قائم ہونے والا امن۔

لیکن پھر بھی، یہ سب کچھ تب بھی ہوا تھا، جب سالوں پہلے سوات میں آپریشن کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تشدد میں کمی کے ادوار پہلے بھی آئے ہیں، اور تقریباً سب ہی فوج کی جانب سے ایکشن لیے جانے کے بعد آئے۔ لیکن خاموشی کے یہ ادوار زیادہ عرصے تک کبھی نہیں چلے۔ میں بری خبر دینے والا نہیں بننا چاہتا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ امن کا یہ دور زیادہ دیر نہیں چلنے والا۔

شاید یہ تھوڑا عرصہ اور چلے، تب تک جب تک کہ اسلام آباد میں جاری پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی جانب سے برپا کردہ طوفان ختم نہیں ہو جاتا۔ ضرب عضب کی کامیابی کے فوراً بعد ہی سیاستدان ایک جانب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، تو دوسری جانب ملٹری قیادت سیاسی جماعتوں سے تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی اپیلیں کر رہی ہے۔

ملک دشمن دہشتگردوں کے خلاف "فیصلہ کن" آپریشن لانچ کرنے کے بعد "غیر جانبدارانہ" طور پر اب سیاسی بحران کو حل کرنے کی فوجی کوششوں سے فوج کا امیج بہتر ہوا ہے۔

لیکن اگر دنیا کے شریف، قادری، اور خان دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تو شاید چھڑی دوبارہ گھوم جائے، اور ڈائیریکٹ مداخلت ہو جائے۔

یہ ایک الگ بات ہے، کہ اب پاکستان میں حالات اتنے تبدیل ہو چکے ہیں، کہ شاید فوجی مداخلت کو اس طرح خوش آمدید نا کہا جائے، جیسے ماضی میں کہا جاتا تھا۔ یہ بات یقینی ہے، کہ ہمارے باوردی مسیحاؤں کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں ہے، کہ پنجاب میں ان کو کتنی حمایت ملے گی، باقی علاقوں کی تو بات ہی نا کریں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں برتری رکھنے والا طاقت کا اسٹرکچر اب کتنا کمزور ہو چکا ہے۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے، کہ جادو کی چھڑی اب بار بار بغیر ٹوٹے نہیں گھمائی جا سکتی۔ لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر نئی جادوئی ترکیبوں کی ضرورت ہے۔ میڈیا کارپوریشنز کی ایک بڑی تعداد چھڑی گھمانے والوں کی حامی ہے، اور وہ کسی بھی ایسی اسکیم کو شکل بھی دے سکتی ہے۔ اسکے علاوہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے، کہ خاکی وردی میں ملبوس افراد تب تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاتے، جب تک کہ انہیں اپنے بیرونی سرپرستوں سے حمایت حاصل نا ہو، کیوںکہ اب وہ بھی نیا گریٹ گیم کھیلنے میں ماہر ہو چکے ہیں۔

یہ بالکل ایسا ہے، کہ چیزیں جتنی زیادہ تبدیل ہوتی ہیں، اتنی ہی وہ پہلے جیسی رہتی ہیں۔ ملٹری کے زیر تسلط نظام اب کتنا کمزور ہو چکا ہے، اس بارے میں زیادہ خوش فہمیاں نہیں ہونی چاہییں۔ یہ بھی ضروری ہے، کہ ہم اس بات کو سمجھیں، کہ ملٹری، صنعتکاروں، اور کارپوریٹ میڈیا کا اتحاد رائے عامہ پر کس حد تک اثر انداز ہونے کی قابلیت رکھتا ہے۔

یہ اثر انداز ہونا صرف اس لیے نہیں، کہ یہ جادوگر اپنا کھیل کھیل سکیں، بلکہ اسلیے بھی ہے، کہ اسی طرح تو پیسے بنائے جاتے ہیں۔ اپنی جادوئی چھڑیوں کے ساتھ یہ لوگ جنگ، امن، سیاسی ہلچل، اور تقریباً ہر چیز سے پیسے بنا سکتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں